مغفرت کی دعائیں

بسم اللہ الرحمن الرحیم


امن کی پکار


مغفرت کے لئے دعائیں


بھائیو اور بہنو


السّلام علیکم


ہر ذی روح مغفرت کا طالب اس لئے ہے کہ اسے اللہ کی رضا کا حصول ہو جائے اور جنت میں ہمیشہ کے لئے رہنے کا پروانہ مل جائے اور وہ اللہ کی نعمتوں سے سرفراز ہوتا رہے جو کسی آنکھ نے نہ دیکھی نہ کسی کان نے سنی اور نہ ہی کسی کے وہم و گمان میں آ سکتی ہیں۔


بھائیو اور بہنوسوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ کی رضا کیسے حاصل کی جائے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے معاف فرما دیں اور راضی ہو جائیں اور پھر خود ہی بندے کو جنت میں جانے کا ارشاد فرمائیں


ترجمہ سورۃ الفجرآیت نمبر 30 – 27

بسم اللہ الرحمن الرحیم

یا ایتھاالنفس المطمئنہ۔ ق ارجعی الیٰ ربک راضیتہ مرضیتہ۔ ج

فاد خلی فی عبادی۔ لا وادخلی جنتی۔

اے وہ جی (نفس) جس نے چین پکڑا۔
لا
پھر چل اپنے رب کی طرف

تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی۔ ج پھر شامل ہو میرے بندوں میں۔
لا

اور داخل ہو میری بہشت میں۔


بھائیو اور بہنوانسان کی سرشت میں نفس کا مادہ ودیعت ہے جو اسے گمراہی کی طرف اکساتا ہے اور شیطان آکر اسے گمراہی کی ترغیب دیتا ہے۔ اگر بندہ نفس اور شیطان کے نرغے میں پھنس جاتا ہے تو اسے اس پھندے سے نکلنے کے لئے توبہ کرنی ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی دعا کرنی ہوتی ہے۔

بھائیو اور بہنواب سوال پیدا ہوتا ہے کہ مغفرت کی دعا کیا ہے اور کس طرح سے کرنی چاہیے۔

بھائیو اور بہنوانبیائے کرام اللہ کے بندے ہوتے ہیں۔ بلا شبہ انبیأ معصوم ہوتے ہیں لیکن بشر ہونے کے ناطے ان سے اجتہادی بھول ہو جاتی ہے جس پر ان کو اللہ کی طرف سے تنبیہ کی جاتی ہے اور جب انہیں اپنی بھول کا احساس ہوتا ہے تو اللہ کے حضور توبہ و استغفار کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کو اپنے فضل و کرم سے معاف فرما دیتے ہیں۔

بھائیو اور بہنوانبیائے کرام معصوم ہوتے ہیں۔لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر انبیأ معصوم ہوتے ہیں تو پھر ان سے بھول یا اجتہادی غلطی کیوں سرزد ہوتی ہے کیونکہ شرعیت سے بھول کر بھی نہ جانتے ہوئے بھی انحراف کرنا اللہ کی نافرمانی کرنے کے مترادف ہے جو کہ ان کے معصوم ہونے کے منافی ہے۔

بھائیو اور بہنواللہ تعالیٰ علیم بھی ہیں حکمت والے بھی ہیں۔ اللہ کے ہر کام میں حکمت پنہاں ہوتی ہے۔ علمائے کرام فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی انبیائے کرام سے بھول یا اجتہادی غلطی اس لئے ہونے دیتے ہیں جو قیامت تک کے لئے بنی نوع انسان کے لئے اللہ تعالیٰ سے توبہ و استغفار کرنے کا ذریعہ بن جائے۔

بھائیو اور بہنوعلمائے کرام فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ علیم ہیں اور ہر شئے پر قادر ہیں اس لئے انبیائے کرام اگر معصوم ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ انہیں بھول اس لئے کرنے دیتے ہیں کہ ان کے پیروکاروں کو سبق ملے اور جب وہ نفس اور شیطان کے پھندے میں آکر اللہ کی نافرمانی کے مرتکب ہوں تو انبیائے کرام کے نقش قدم پر اللہ کے حضور توبہ و استغفار کریں اور وہی دعائیں کریں جو انبیائے کرام نے اللہ کے حضور کی تھیں۔

بھائیو اور بہنوحضرت آدم علیہ السّلام سے بھول ہوئی تو وہ نادم ہوئے اور گڑگڑائے اور اللہ سے معافی کے خواستگار ہوئے۔ حضرت یونس علیہ السّلام سے اجتہادی غلطی ہوئی تو وہ اللہ کے حضور معافی کے خواستگار ہوئے۔ بھائیو اور بہنواسی طرح بنی نوع انسان کے لئے یہ سبق ہے کہ جب وہ شعوری یا لا شعوری طور پر اللہ کی ہدایت سے ورے ہو جائیں تو وہ اللہ تعالیٰ سے توبہ و استغفار کریں۔

بھائیو اور بہنوآئیے حضرت آدم علیہ السّلام اور حضرت یونس علیہ السّلام کی اجتہادی بھول کا جائزہ لیتے ہیں کہ جب ان سے اجتہادی بھول ہوئی تو انہوں نے کیا دعائیں اللہ کے حضور کی تھیں۔


حضرت آدم علیہ السّلام

بھائیو اور بہنومختصر یہ کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السّلام کی تخلیق کی اور روایات کے مطابق حضرت حوا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو ان کی پسلی سے پیدا کیا اور ان کو جنت میں رہنے کے لئے بھیج دیا تاکہ عیش و عشرت کی زندگی بسر کریں۔

بھائیو اور بہنوحضرت آدم علیہ السّلام اور حضرت حوا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اللہ سے بہت محبت تھی۔اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت کو جانچنے کے لئے جنت میں ایک درخت لگا دیا اور ان کو حکم دیا کہ وہ اس درخت کے قریب بھی نہ جائیں۔ محبت کا معیار یہ ہوتا ہے کہ محبوب کی ہر بات کو مان لیا جائے۔

بھائیو اور بہنوشیطان نے حضرت آدم علیہ السّلام کو اللہ کا نافرمان بنانے کی مہلت لے رکھی تھی۔ اس نے یہ چال چلی کہ ان کو ورغلایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ممنوعہ درخت کا پھل کھانے کے لئے اس لئے منع کیا ہے کہ جو اس درخت کا پھل کھا لیتا ہے تو وہ فرشتہ بن جاتا ہے اور ہمیشہ کے لئے جنت میں رہتا ہے۔ شیطان نے ان کو یقین دلانے کے لئے اللہ کی قسم کھائی کہ وہ ان کا خیر خواہ ہے۔

بھائیو اور بہنوحضرت آدم علیہ السّلام شیطان کے دھوکے میں آکر یہ بھول گئے کہ وہ اشرف المخلوقات ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انہیں جنت میں ہمیشہ رہنے کے لئے بھیجا ہے۔ ان کو اللہ سے محبت تھی اور وہ اللہ سے جدا نہیں ہونا چاہتے تھے اس لئے انہوں نے ممنوعہ درخت کا پھل کھا لیا جس پر اللہ کا عتاب ان پر نازل ہوا کیونکہ انہوں نے اللہ کے حکم کی نافرمانی کی تھی۔

بھائیو اور بہنوجب اللہ کا عتاب ان پر نازل ہوا تو وہ دونوں اللہ کے حضور گڑگڑائے اور توبہ و استغفار کی


ترجمہ سورۃ الاعراف آیت نمبر 23

بسم اللہ الرحمن الرحیم

قال ربنا ظلمنا انفسنا سکتہ و ان لم تغفرلنا و ترحمنا لنکو نن من الخٰسرین۔

بولے وہ دونوں اے رب ہمارے ظلم کیا ہم نے اپنی جان پر،

اور اگر تو ہم کو نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم ضرور تباہ ہو جائیں گے۔


بھائیو اور بہنوعلمائے کرام فرماتے ہیں کہ جب بھی بندوں سے شعوری یا لا شعوری طور پر اللہ کی
نافرمانی ہو جائے تو وہ مندرجہ بالا دعا کی تلاوت کرے۔ نماز ادا کرتے ہوئے بندہ اللہ تعالیٰ کے قریب ہوتا ہے اس لئے قعدہ میں درود شریف کے بعد حضرت آدم علیہ السّلام اور حضرت حوا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی پیروی میں مندرجہ بالا دعا کی تلاوت کر لینا چاہیے۔

حضرت یونس علیہ السّلام

بھائیو اور بہنوحضرت یونس علیہ السّلام سے جب اجتہادی بھول ہو گئی تھی تو اس پاداش میں اللہ کے حکم سے مچھلی نے ان کو نگل لیا تھا جس پر وہ نادم ہوئے اور اللہ کے حضور معافی کی درخواست کی۔ بھائیو اور بہنوذیل میں اس واقعے کا پس منظر قرآن کی زبان میں پیش کیا جاتا ہے


سورۃ الا نبیأ آیت نمبر 88 – 87


بسم اللہ الرحمن الرحیم

وذاالنون اذ ذھب مغاضباً فظن ان لن نقدر علیہ فنادیٰ فی الظلمٰت ان

لا الہ الا انت سبحٰاٰنک ق انی کنت من الظالمین۔ ج فا ستجبنا لہ لا

ونجینٰہ من الغم ط و کذٰلک نجی المؤمنین۔

اور مچھلی والے کو جب چلا گیا غصہ ہو کر پھر سمجھا کہ ہم نہ پکڑ سکیں گے اس کو

پھر پکارا ان اندھیروں میں کہ کوئی حاکم نہیں سوائے تیرے تو بے عیب ہے
ق

میں تھا گنہگااروں سے۔
ج

پھر سن لی ہم نے اس کی فریاد اور بچا دیا اس کو اس گھٹنے سے ط
اور یونہی ہم بچا دیتے ہیں ایمان والوں کو۔


حاشیہ از مولانا شبیر احمد عثمانیؒ

دوستو“مچھلی والا” فرمایا حضرت یونس علیہ السّلام کو۔ ان کا مختصر قصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو شہر نینویٰ کی طرف (جو موصل کے مضافات میں سے ہے) مبعوث فرمایا تھا۔ یونس علیہ السّلام نے ان کو بت پرستی سے روکا اور حق کی طرف بلایا۔ وہ ماننے والے کہاں تھے، روز بروز ان کا عناد و تمرد ترقی کرتا رہا۔ آخر بد دعا کی اور قوم کی حرکات سے خفا ہو کر غصہ میں بھرے ہوئے شہر سے نکل گئے حکم الہی کا انتظار نہ کیا اور وعدہ کر گئے کہ تین دن تم پر اللہ کا عذاب آئے گا۔

دوستوان کے نکل جانے کے بعد قوم کو یقین ہوا کہ نبی کی بد دعا خالی نہیں جائے گی، کچھ آثار بھی عذاب کے دیکھے ہوں گے۔ گھبرا کر سب لوگ بچوں اور جانوروں سمیت باہر جنگل میں چلے گئے اورماؤں کو بچوں سے جدا کر دیا۔ میدان میں پہنچ کر سب نے رونا چلانا شروع کیا۔ بچے اور مائیں اور آدی سب شور مچا رہے تھے کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ تمام بستی والوں نے سچے دل سے توبہ کی، بت توڑ ڈالے۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا عہد باندھا اور حضرت یونس علیہ السّلام کو تلاش کرنے لگے کہ ملیں تو ان کے ارشاد پر کار بند ہوں۔

دوستوحق تعالیٰ نے آنے والا عذاب ان پر سے اٹھا لیا


ترجمہ سورۃ یونس آیت نمبر 98

بسم اللہ الرحمن الرحیم

فلولا کانت قریۃ اٰمنت فنفعھا ایمانھا الا قوم یونس ط

لما اٰمنو کشفنا عنھم عذاب الخزی فی الحیٰوۃ الدنیا و متعنٰھم الٰی حین۔

سو کیوں نہ ہوئی کوئی بستی کہ ایمان لاتی پھر کام آتا ان کو ایمان لانا مگر یونس کی قوم ط

جب وہ ایمان لائی اٹھا لیا ہم نے ان پر سے ذلت کا عذاب دنیا کی زندگانی میں

اور فائدہ پہنچایا ہم نے ان کو ایک وقت تک۔


دوستوادھر یونس علیہ السّلام بستی سے نکل کر ایک جماعت کے ساتھ کشتی پر سوار ہو ئے۔ وہ کشتی غرق ہونے لگی۔ کشتی والوں نے بوجھ ہلکا کرنے کے لئے ارادہ کیا کہ ایک آدمی کو نیچے پھینک دیا جائے (یا اپنے مفروضات کے موافق سمجھے کہ کشتی میں کوئی غلام مولا سے بھاگا ہوا ہے)۔ بہر حال اس آدی کی تعین کے لئے قرعہ نکالا ڈالا۔ حضرت یونس علیہ السّلام کا نام نکلا۔ دو تین مرتبہ قرع اندازی کی، ہر دفعہ حضرت یونس علیہ السّلام کے نام پر نکلتا رہا۔ یہ دیکھ کر حضرت یونس علیہ السّلام دریا میں کود پڑے، فوراً ایک مچھلی آکر نگل گئی۔

دوستو اللہ تعالیٰ نے مچھلی کو حکم دیا کہ حضرت یونس علیہ السّلام کو اپنے پیٹ میں رکھ، اس کا ایک بال بیکا نہ ہو۔ یہ تیری روزی نہیں بلکہ تیرا پیٹ ہم نے اس کا قید خانہ بنایا ہے، اس کو اپنے اندر حفاظت سے رکھنا۔ اس وقت حضرت یونس علیہ السّلا م نے اللہ کو پکارا


لا الہ الا انت سبحٰاٰنک ق انی کنت من الظالمین۔
کہ کوئی حاکم نہیں سوائے تیرے تو بے عیب ہے ق
میں تھا گنہگااروں سے


دوستواپنی خطا کا اعتراف کیا کہ بیشک میں نے جلدی کی کہ تیرے حکم کا انتظار کئے بدون بستی والوں کو چھوڑ کر نکل کھڑا ہوا۔

دوستوگو کہ حضرت یونس علیہ السّلام کی یہ غلطی اجتہادی تھی جو امت کے حق میں معاف ہے، مگر انبیأ کی تربیت و تہذیب دوسرے لوگوں سے ممتاز ہوتی ہے۔ جس معاملہ میں وحی آنے کی امید ہو، بدون انتظار کئے قوم کو چھوڑ کر چلا جانا ایک نبی کا شان کے لائق نہ تھا۔ اسی نامناسب بات پر دارو گیر شروع ہو گئی۔

دوستوآخر توبہ کے بعد نجات ملی۔ مچھلی نے کنارہ پر آ کراگل دیا اور اسی بستی کی طرف صحیح سالم واپس چلے گئے۔

دوستویعنی یہ خیال کر لیا کہ ہم سے اس حرکت پر کوئی داروگیر نہ کریں گے یا ایسی طرح نکل بھاگا جیسے کوئی یوں سمجھ کر جائے کہ اب ہم اس کو پکڑ کر واپس نہیں لا سکیں گے، گویا بستی سے نکل کر ہماری قدرت سے ہی نکل گیا۔ یہ مطلب نہیں معاذ اللہ حضرت یونس علیہ السّلام فی الواقعہ ایسا سمجھتے تھے۔ ایسا خیال تو ایک ادنی مؤمن بھی نہیں کر سکتا بلکہ غرض یہ ہے کہ صورت حال ایسی تھی جس سے یوں منتزع ہو سکتا تھا۔ حق تعالیٰ کی عادت ہے کہ وہ کاملین کی ادنیٰ ترین لغزش کو بہت سخت پیرایہ ایں ادا کرتا ہے جیسا کہ ہم کئی جگہ لکھ چکے ہیں اور اس سے کاملین کی تنقیص نہیں ہوتی بلکہ جلالت شان ظاہر ہوتی ہے کہ اتنے بڑے ہو کر ایسی چھوٹی فرو گذاشت بھی کیوں کرتے ہیں۔

 

یعنی دریا کی گہرائی، مچھلی کے پیٹ اور شب تاریک کے اندھیروں میں۔

یعنی میری خطا معاف فرمائیے بیشک مجھ سے غلطی ہوئی۔

یعنی حضرت یونس علیہ السّلام کے ساتھ مخصوص نہیں۔ جو ایماندار لوگ ہم کو اس طرح پکاریں گے ہم ان کو بلاؤں سے نجات دیں گے۔ احادیث میں اس دعا کی بہت فضیلت آئی ہے اور امت نے شدائد و نوائب میں ہمیشہ اس کو مجرب پایا ہے۔


حاشیہ تما م ہوا


بھائیو اور بہنوعلمائے کرام فرماتے ہیں کہ مؤمنین کو چاہیے کہ حضرت یونس علیہ السّلام کی دعا کا ورد کرتے رہنا جاہیے اورنماز ادا کرتے ہوئے درود شریف کے بعد اس آیت کی تلاوت کر لینی چاہیے


لا الہ الا انت سبحٰاٰنک ق انی کنت من الظالمین۔

کہ کوئی حاکم نہیں سوائے تیرے تو بے عیب ہے ق
میں تھا گنہگااروں سے


بھائیو اور بہنواللہ سے مغفرت طلب کرنے کا بہترین طریقہ ہے کہ اچھے کام کرے اور برے کام سے رکے۔ علمائے کرام فرماتے ہیں کہ جب بندہ خلوص دل سے اچھے کام کرتا ہے تو اچھے کام دعا بن کر اللہ تعالیٰ سے بندے کی مغفرت طلب کرتے ہیں اور جب وہ برے کام سے رکتا ہے تو یہ عنصر بھی اللہ تعالیٰ سے بندے کی مغفرت طلب کرتا ہے۔بھائیو اور بہنواس کے ساتھ ساتھ جب بندہ اللہ کے حضور اپنے لئے مغفرت کی دعا کرتا ہے تو سونے پر سہاگہ کا عنصر جنم لیتا ہے اور بندہ پاک و صاف رہتا ہے اور اس کے درجات کی بلندی ہوتی رہتی ہے۔

بھائیو اور بہنوبلا شبہ ہر مؤمن روز مرہ کی زندگی اللہ کی ہدایت کے مطابق گزارنے کی کوشش کر تا ہے لیکن اسے اس بات کا احساس نہیں ہو پاتا کہ کیا واقعی اس نے اپنی زندگی اللہ کی ہدایت کے مطابق گزاری ہے۔ مختصر یہ کہ ہر مؤمن کو چاہیے کہ وہ جس وقت یاد آ جائے یا پھر کم از کم نماز میں درود شریف پڑھنے کے بعد مندرجہ ذیل دعائیں پڑھ لے


سورۃ الاعراف آیت نمبر 23


بسم اللہ الرحمن الرحیم

قال ربنا ظلمنا انفسنا سکتہ و ان لم تغفرلنا و ترحمنا لنکو نن من الخٰسرین۔

بولے وہ دونوں اے رب ہمارے ظلم کیا ہم نے اپنی جان پر

اور اگر تو ہم کو نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم ضرور تباہ ہو جائیں گے۔


سورۃ الا نبیأ آیت نمبر 88 – 87


بسم اللہ الرحمن الرحیم

۔۔۔۔ لا الہ الا انت سبحٰٰنک ق انی کنت من الظالمین۔ ج۔۔۔۔۔۔
۔۔۔ کوئی حاکم نہیں سوائے تیرے تو بے عیب ہے
ق
میں تھا گنہگااروں سے
۔ ج ۔۔۔۔


بھائیو اور بہنویہ قدرتی امر ہے کہ جب انسان کسی چیز کا طالب ہوتا ہے تو اس کی کوشش ہوتی ہے وہ اسے وہ چیز مل جائے۔ اگر طالب دینے والے کو خوش کر دے تو اسے امید ہو سکتی ہے کہ اس کی طلب پوری ہو جائے گی۔ بھائیو اور بہنو طالب کا اللہ سے سوال چونکہ مغفرت کا ہے اور اس مغفرت کی وجہ سے وہ ہمیشہ کے لئے جنت کی نعمتوں سے سرفرازہوتا رہے گا اس لئے اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے کی ضرورت ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں اللہ کو خوش کرنے کا طریقہ اللہ کا ذکر کرتے رہنا ہے اور اس کی ترغیب قرآن پاک میں دی گئی ہے


سورۃ الاحزاب آیت نمبر 44 – 41

بسم اللہ الرحمن الرحیم

یایھاالذین اٰمنوااذکروااللہ ذکراً کثیرا۔ لا وہ سبحوہ بکرۃواصیلا۔

ھوالذی یصلی علیکم و ملٰئکتہ لیخرجکم من الظلمٰت الی النور ط

و کان بالمؤمنین رحیما۔ تحیتھم یوم یلقونہ سلٰم ج واعد لھم اجراً کریما۔

اے ایمان والو
یاد کرو اللہ کی بہت سی یاد۔ لا اور پاکی بولتے رہو اس کی صبح اور شام۔

وہی ہے جو رحمت بھیجتا ہے تم پر اور اس کے فرشتے تاکہ نکالے تم کو اندھیروں سے اجالے میں ط

اور ہے ایمان والوں پر مہربان۔ دعا ان کی جس دن اس سے ملیں گے سلام سے ج
اور تیار کر رکھا ہے ان کے واسطے ثواب عزت کا۔


بھائیو اور بہنواس لئے توبہ و استغفار کرنے سے پیشتر اللہ کا ذکر کرنا ضروری ہے۔ اس لئے نماز میں درود شریف پڑھنے کے بعد مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کی جائے


ترجمہ سورۃ الاحزاب آیت نمبر 44 – 41


بسم اللہ الرحمن الرحیم

یایھاالذین اٰمنوااذکروااللہ ذکراً کثیرا۔ لا وہ سبحوہ بکرۃواصیلا۔

اے ایمان والویاد کرو اللہ کی بہت سی یاد۔ لا
اور پاکی بولتے رہو اس کی صبح اور شام۔


بھائیو اور بہنواب جبکہ اللہ تعالیٰ کا ذکر بھی کرلیا اور توبہ و استغفار بھی کر لیا اور اللہ نے اپنے فضل و کرم سے معاف بھی کر دیا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ الحمد للہ بندہ کا ایمان سلامت ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ سے ایمان کی سلامتی کی دعا بھی کرنی چاہیے۔ بھائیو اور بہنو توبہ و استغفار کرنے کے بعد مندرجہ دیل دعا پڑھی جائے


سورۃ آل عمران آیت نمبر 9 – 8

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ربنا لا تزغ قلوبنا بعد اذ ھدیتنا وھب لنا من لدنک رحمۃ ج

انک انت الوھاب۔ ربنا انک جامع الناس لیوم لا ریب فیہ ط

ان اللہ لا یخلف المعیاد۔

اے رب نہ پھیر ہمارے دلوں کو جب تو ہم کو ہدایت کر چکا اور

عنایت کر ہم کو اپنے پاس سے رحمت تو ہی سب کچھ دینے والا۔ ج

اے رب تو جمع کرنے والا ہے لوگوں کو ایک دن جس میں کچھ شبہ نہیں ط

بیشک اللہ خلاف نہیں کرتا اپنا وعدہ۔


بھائیو اور بہنواللہ تعالیٰ سے اللہ کا ذکر کرنے کے بعد توبہ و استغفار کرنے کے بعد بندہ پاک و صاف ہو جاتا ہے اور اس پر گناہ کا کوئی شائبہ نہیں رہتا اور پھر ایمان کی سلامتی کی دعا بھی اللہ کے فضل سے قبول ہو جاتی ہے۔ جب بندے پر گناہ کا کوئی شائبہ نہیں رہتا تو اس کی منزل جنت ہو جاتی ہے۔ اس لئے آخر میں یہ دعا پڑھی جائے


سورۃ الفجرآیت نمبر 30 – 27

بسم اللہ الرحمن الرحیم

یا ایتھاالنفس المطمئنہ۔ ق ارجعی الیٰ ربک راضیتہ مرضیتہ۔ ج
فاد خلی فی عبادی۔ لا وادخلی جنتی۔

اے وہ جی (نفس) جس نے چین پکڑا۔ ق

پھر چل اپنے رب کی طرف تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی۔ ج

پھر شامل ہو میرے بندوں میں۔ لا
اور داخل ہو میری بہشت میں۔


بھائیو اور بہنومختصر یہ کہ چونکہ ہر انسان اللہ تعالیٰ سے مغفرت کا طالب ہے تو وہ کسی وقت بھی مندرجہ بالادعائیں پڑھ سکتا ہے۔ لیکن کوشش کرنی چاہیے کہ ہر نماز ادا کرتے ہوئے درود شریف پڑھنے کے بعد مندرجہ ذیل دعائیں پڑھ لے


سورۃ ابراہیم آیت نمبر 41 – 40

بسم اللہ الرحمن الرحیم

رب جعلنی مقیم الصلوۃ و من ذریتی ق ربنا و تقبل دعا۔

ربنااغفرلی ولوالدی و للمؤمنین یوم یقوم الحساب۔

اے رب میرے کر مجھ کو کہ قائم رکھوں نماز اور میری اولاد میں سے بھی ق

اے رب میرے اور قبول کر میری دعا۔اے ہمارے رب بخش مجھ کو

اور میرے ماں باپ کو اور سب ایمان والوں کو جس دن قائم ہو حساب۔

سورۃ الاحزاب آیت نمبر 44 – 41

بسم اللہ الرحمن الرحیم

یایھاالذین اٰمنوااذکروااللہ ذکراً کثیرا۔ لا وہ سبحوہ بکرۃواصیلا۔


اے ایمان والو
یاد کرو اللہ کی بہت سی یاد
۔ لا

اور پاکی بولتے رہو اس کی صبح اور شام۔

سورۃ الاعراف آیت نمبر 23

بسم اللہ الرحمن الرحیم

قال ربنا ظلمنا انفسنا سکتہ و ان لم تغفرلنا و ترحمنا لنکو نن من الخٰسرین۔

بولے وہ دونوں اے رب ہمارے ظلم کیا ہم نے اپنی جان پر
سکتہ
اور اگر تو ہم کو نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم ضرور تباہ ہو جائیں گے۔

سورۃ الا نبیأ آیت نمبر 88 – 87

بسم اللہ الرحمن الرحیم

۔۔۔۔ لا الہ الا انت سبحٰاٰنک ق انی کنت من الظالمین۔ ج۔۔۔۔۔۔
۔۔۔ کوئی حاکم نہیں سوائے تیرے تو بے عیب ہے
ق میں تھا گنہگااروں سے۔ ج ۔۔۔۔

سورۃ آل عمران آیت نمبر 9 – 8

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ربنا لا تزغ قلوبنا بعد اذ ھدیتنا وھب لنا من لدنک رحمۃ ج

انک انت الوھاب۔ ربنا انک جامع الناس لیوم لا ریب فیہ ط ان اللہ لا بخلف المعیاد۔

اے رب نہ پھیر ہمارے دلوں کو جب تو ہم کو ہدایت کر چکا اور عنایت کر

ہم کو اپنے پاس سے رحمت ج تو ہی سب کچھ دینے والا۔
اے ربتو جمع کرنے والا ہے لوگوں کو ایک دن جس میں کچھ شبہ نہیں
ط

بیشک اللہ خلاف نہیں کرتا اپنا وعدہ۔

سورۃ الفجرآیت نمبر 30 – 27

بسم اللہ الرحمن الرحیم

یا ایتھاالنفس المطمئنہ۔ ق ارجعی الیٰ ربک راضیتہ مرضیتہ۔ ج

فاد خلی فی عبادی۔ لا وادخلی جنتی۔

اے وہ جی (نفس) جس نے چین پکڑا۔ ق پھر چل اپنے رب کی طرف تو

اس سے راضی وہ تجھ سے راضی۔ ج پھر شامل ہو میرے بندوں میں۔ لا

اور داخل ہو میری بہشت میں۔


لب لباب

بھائیو اور بہنو اس دنیا کی زندگی مختصر ہے جو کہ آخرت کی زندگی کی تیاری ہے۔ دنیا کی زندگی محدود ہے اور آخرت کی زندگی لامحدود ہے اس لئے محدو اور لا محدود کے درمیان کوئی تناسب نہیں ہو سکتا۔ بھائیو اور بہنو کیا یہ بہتر نہیں اس محدود زندگی کو اللہ کی ہدایت کے مطابق گزاریں اور مندرجہ بالا دعاؤں کو زندگی کاحصہ بنا لیں تاکہ ہر لمحہ اللہ کا ذکر کرتے ہوئے توبہ و استغفار کرتے ہوئے اعمال نامہ میں صرف نیکیاں ہی نیکیاں ہوں اور جب اس دنیا سے رخصت ہونے کا وقت آئے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے خود ارشاد فرمائے


سورۃ الفجرآیت نمبر 30 – 27

بسم اللہ الرحمن الرحیم

یا ایتھاالنفس المطمئنہ۔ ق ارجعی الیٰ ربک راضیتہ مرضیتہ۔ ج

فاد خلی فی عبادی۔ لا وادخلی جنتی۔

اے وہ جی (نفس) جس نے چین پکڑا۔ ق پھر چل اپنے رب کی طرف تو
اس سے راضی وہ تجھ سے راضی
۔ ج پھر شامل ہو میرے بندوں میں۔ لا

اور داخل ہو میری بہشت میں۔


بھائیو اور بہنواس مضمون میں اللہ کا ذکر کرتے رہنے کہ کہا گیا جس سے اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہوتا ہے۔ آپ سے گزارش ہے کہ ویب سائٹ امن کی پکار پر مضمون اللہ کا ذکر کا مطالعہ کریں۔ مختصر یہ کہ قرآن پاک کا نام ذکر بھی ہے جس کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے لے رکھا ہے


سورۃ الحجر آیت نمبر9

بسم اللہ الرحمن الرحیم


انا نحن نزلنا الذکر و انا لحافظون۔
ہم نے آپ پر اتارا ہے یہ ذکر(نصیحت) اور ہم اس کے نگہبان ہیں۔


بھائیو اور بہنوچونکہ قرآن پاک ذکر ہے اس لئے قرآن پاک کی تعلیمات پر عمل کرنا ذکر ہی کرتے رہنا ہے۔تاہم ہر عمل کا ایک مخصوص طریقہ کار بھی ہوتا ہے جس سے متعلق مضمون کی تصنیف کی جائے گی، انشأاللہ


دعاؤں میں یاد رکھیں

والسّلام

نصیر عزیز

پرنسپل امن کی پکار


Leave a Comment