خط بنام صدر پاکستان

بسم اللہ الرحمن الرحیم

امن کی پکار

اسلامی ریاست کے سربراہ کے لئے لمحہ فکر

تجدید ایمان اور تجدید نکاح

عارف علوی

صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان

السّلام علیکم

صدرپاکستان! حدیث پاک کا مفہوم ہے

Khatim ul Anbiyya Muhammad Ibne Abdullah (SAW) said to the effect:

خاتم الانبیأ محمد ابن عبداللہ صل اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس کا مفہوم ہے

“There are seven whom Allah will shade in His Shade on the Day when there is no shade except His Shade:

روز محشر میں جب اللہ کے عرش کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا، اس سایہ کے نیچے سات مؤمنین ہوں گے۔

a just ruler;

عادل حکمران

A youth who grew up in the worship of Allah, the Mighty and Majestic;

نوجوان جس کی زندگی اللہ عظیم و برتر کی کی عبادت کرتے ہوئے گزری۔

A man whose heart is attached to the Masjids;

وہ مسلمان جس کا دل مسجد سے جڑا ہوا ہو۔

Two men who love each other for Allah’s sake, meeting for that and parting upon that;

دو مسلمان جو اللہ کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کرتے ہوں، جب آپس میں ملتے ہوں اور جدا ہوتے ہوں۔

A man who is called by a woman of beauty and position (for illegal intercourse), but be says: ‘I fear Allah’,

وہ مسلمان جس کو ایک خوبصورت عورت اپھی طرف مائل کرے اور وہ معذرت کرے کہ وہ اللہ سے ڈرتا ہے۔

A man who gives in charity and hides it, such that his left hand does not know what his right hand gives in charity;

وہ مسلمان جو اللہ کے راستے میں اس طرح چھپا کر دائیں ہاتھ سے خرچ کرے کہ اس کے بائیں ہاتھ کو معلوم نہ ہو۔

And a man who remembered Allah in private and so his eyes shed tears.’

وہ مسلمان جو تنہائی میں اللہ کا ذکر کرے اور اللہ کے خوف سے اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوں۔

صدرپاکستان !حدیث پاک میں جس شخصیت کا نام سب سے پہلے ہے وہ عادل حکمران کا ہے جو روز محشر میں اللہ تعالٰی کے عرش کے سائے میں ہوگا۔ سوال جنم لیتا ہے کہ کیوں عادل حکمران کا نام سب سے پہلے حدیث پاک میں ذکر کیا گیا ہے؟

صدرپاکستان !علمائے کرام فرماتے ہیں کہ اسلامی ریاست کا سربراہ خاتم الانبیأ محمد ابن عبداللہ صل اللہ علیہ وسلم کا قائم مقام ہے اور اس کی یہ اولین ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ دین اسلام کی اشاعت کرے۔ دین اسلام کی اشاعت کرنے کا ایک یہ جز بھی ہے کہ مسلمانوں کو مسلمان بننے میں مدد کرے اور ایسا نہ ہو کہ مسلمان کوئی ایسا کلمہ بول دے یا ایسا عمل کر لے جس کی وجہ سے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جائے اور اسے علم بھی نہ ہو اور اس کے تمام نیک اعمال بے معنی ہو جائیں اور آخرت میں وہ کفار کے گروہ میں شامل ہو اور ہمیشہ کے لئے اللہ کے قہر کا موجب ہو جائے۔

صدرپاکستان !تاریخ بتلاتی ہے کہ خاتم الانبیأ محمد ابن عبد اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالٰی کے فضل و کرم سے اس بات کا اہتمام رکھا کہ بندہ دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد مسلمان بننے کی کوشش کرتا رہے اور اس ضمن میں اللہ تعالٰی نے قرآن پاک میں آیت کا نزول فرمایا ہے:

ترجمہ سورۃ الحجرات آیت نمبر 14

بسم اللہ الرحمن الرحیم

کہتے ہیں گنوار کہ ہم ایمان لائے، تو کہہ دے تم ایمان نہیں لائے پر تم کہو ہم مسلمان ہوئے اور ابھی نہیں گھسا ایمان تمہارے دلوں میں ط اور اگر حکم پر چلو گے اللہ کے اور اس کے رسول کے کاٹ نہ لے گا تمہارے کاموں میں سے کچھ ط اللہ بخشتا ہے مہربان ہے۔

صدرپاکستان !مسلمان کس طرح مسلمان بن سکتا ہے اس ضمن میں اللہ تعالٰی اپنے کلام قرآن پاک میں ہدایت فرمائی

ترجمہ سورۃ النسأآیت نمبر136

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اے ایمان والو! ایمان (یقین) لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو نازل کی ہے اپنے رسول پر اور اس کتاب پر جو نازل کی تھی پہلے اور جو کوئی یقین نہ رکھے اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور کتابوں پر اور قیامت کے دن پر وہ بہک کر دور جا پڑا۔

صدرپاکستان !مختصر یہ کہ خلفائے راشدین نے جو خاتم الانبیأ محمد ابن عبداللہ صل اللہ علیہ وسلم کے پروردہ تھے انہوں نے مسلمانوں کو مسلمان بننے کے لئے پالیسیاں مرتب کیں۔ ذیل میں کتاب، الفاروق از مولانا شبلی نعمانی رحمتہ اللہ علیہ کا اقتباس پیش خدمت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ مسلمانوں کو مسلمان بننے کے لئے کیا قدم اٹھائے تھے

مسائل فقہ کی اشاعت

جہاں تک وقت اور فرصت مساعدت کر سکتی تھی(حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ) خود بالمشافہ احکام مذہبی کی تعلیم کرتے تھے۔ جمعہ کے دن جو خطبہ پڑھتے تھے اس میں تمام ضروری احکام اور مسائل بیان کرتے تھے۔ حج کے خطبہ میں حج کے مناسک اور احکام بیان فرماتے تھے۔ موطا امام محمد (موطا امام محمد صفحہ 227) میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرفات میں خطبہ پڑھا اور حج کے تمام مسائل تعلیم کئے اسی طرح شام وبیت المقدس وغیرہ کے سفر میں وقتاً فوقتاً جو مشہور اور پر اثر خطبے پڑھے۔ ان میں سے اسلام کے تمام مہمات اصول اور ارکان بیان کئے اور چونکہ ان موقعوں پر بے انتہا مجمع ہوتا تھا اس لئے ان مسائل کا اس قدر اعلان ہو جاتا تھا کہ اور کسی تدبیر سے ممکن نہ تھا۔ دمشق میں بمقام جابیہ جو مشہور خطبہ پڑھا۔ فقہاء نے اس کو بہت سے مسائل فقیہ کے حوالے میں جا بجا نقل کیا ہے۔

ایک دفعہ مجمع عام میں خطبہ دیا ٗجس میں یہ الفاظ تھے۔ انی اشھد کم علی امر الا مصار انی لم ابعثھم الا لیفقھوا الناس فی دینھم یعنی تم لوگوں کو گواہ کرتا ہوں کہ میں نے افسروں کو اس لئے بھیجا ہے کہ لوگوں کو مسائل اور احکام بتائیں۔

تمام ممالک محروسہ میں فقہا اور معلم متعین کئے کہ لوگوں کو مذہبی احکام کی تعلیم دیں۔ مورخین نے اگرچہ اس امر کو کسی خاص عنوان کے نیچے نہیں لکھا اور اس وجہ سے ان معلموں کی صحیح تعداد معلوم نہیں ہوسکتی۔

فقہ کی تعلیم کا انتظام

تاہم جستہ جستہ تصریحات سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ ہر شہر میں متعدد فقہا اس کام پر مامور تھے۔ مثلا

عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کے حالات میں صاحب اسد الغابہ نے لکھا ہے کہ یہ منجملہ ان دس بزرگوں کے ہیں جن کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بصرہ میں بھیجا تھا کہ فقہ کی تعلیم دیں۔(اصل عبارت یہ ہے کان احد العشرۃ الذین عثھم عمر الی البصرۃ یفقھون من الناس)

عمران بن الحصین رضی اللہ عنہ جو بڑی رتبہ کے صحابی تھے ان کی نسبت علامہ ذہبی تذکرۃ الحفاظمیں لکھتے ہیں۔وکان ممن بعثھم عمر بن الخطاب الی اھل البصرۃ لیفقھم

یعنی یہ ان لوگوں میں ہیں جن کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بصرہ میں فقہ کی تعلیم کے لئے
شام بھیجا تھا اور صاحب اسد الغابہ نے انہی کے حالات میں لکھا کہ یہی وہ شخص ہیں کہ جنہوں نے شام میں تابعین کو فقہ سکھائی۔ عبادہ بن صامت کے حال میں لکھا ہے کہ جب شام فتح ہوا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اور ابو دردا کو شام میں بھیجا تاکہ لوگوں کو قرآن مجید پڑھائیں اور فقہ سکھائیں۔ جلال الدین سیوطی نے حسن المحاضرہ فی اخبار مصر القاہرہ میں جان بن ابی جبلہ کی نسبت لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو مصر میں فقہ کی تعلیم پر مامور کیا تھا۔

ان فقہا کے درس کا یہ طریقہ تھا کہ مساجد کے صحن میں ایک طرف بیٹھ جاتے تھے اور شائقین نہایت کثرت سے ان کے گرد حلقہ کی صورت میں جمع ہوکر فقہی مسائل پوچھتے جاتے تھے اور وہ جواب دیتے جاتے تھے۔ ابو مسلم خولانی رحمتہ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ میں حمص کی مسجد میں داخل ہوا تو دیکھا کہ 30بڑے بڑے صحابہ وہاں تشریف رکھتے تھے اور مسائل پر گفتگو کرتے تھے لیکن جب کبھی کسی مسئلے پر شک پڑتا تھا تو ایک نوجوان شخص کی طرف رجوع کرتے تھے میں نے لوگوں سے اس نوجوان کا نام پوچھا تو معلوم ہوا کہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ہیں۔ (تذکرۃ الحفاظ ترجمہ معاذ بن جبل) لیث بن سعد کا بیان ہے کہ ابو دردا رضی اللہ عنہ جب مسجد میں آتے تھے تو ا ن کے ساتھ لوگوں کا اس قدر ہجوم ہوتا ھا جیسے بادشاہ کے ساتھ ہوتا ہے اور یہ سب لوگ ان سے مسائل دریافت کرتے تھے۔ (تذکرۃ الحفاظ ذکر ابو دردا)

صدرپاکستان !تاریخ بتلاتی ہے کہ مسلمان بننا آسان نہیں ہے۔ مسلمان بننے کے ضمن میں حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں دعا کی تھی۔ اس دعا کی پس منظر یہ ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السّلام اور حضرت اسماعیل علیہ السّلام نے بیت اللہ کی تعمیر کی تو اللہ تعالٰی نے حضرت ابراہیم علیہ السّلام سے پوچھا جس کا مفہوم ہے کہ بیت اللہ کی تعمیر کی اجرت میں کیا مانگتے ہیں۔ روایت میں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ بہت سی دعائیں کیں جن میں ایک دعا یہ بھی تھی:

یا اللہ!

ہمیں مسلمان بننے میں مدد فرما۔

صدرپاکستان !حضرت ابراہیم علیہ السّلام انبیائے کرام کے جد امجد ہیں۔حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی دعا سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مسلمان بننا آسان نہیں ہے جسے علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے ایک شعر میں سمو دیا ہے

یہ شہادت گۂ الفت میں قدم رکھنا ہے

لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا

صدرپاکستان !مختصر یہ کہ سال 2016 میں شیخ ذوالفقار احمد نقشبندی دامت برکاتہ نے اپنے ایک بیان میں ان چند کلمات کی نشاندہی فرمائی جن کے بول دینے سے مسلمان دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ مثلاً

نمبر 1:جیسے کسی بندے نے پوچھا: کہاں رہتے ہو؟ دوسرے نے جواب دیا، وہ فلاں جگہ۔ پہلے نے کہا: خدا کے پچھواڑے؟ جس نے یہ کہا: خدا کے پچھواڑے۔ ان الفاظ کے کہنے سے وہ بندہ کافر ہو گیا۔خدا کا پچھواڑہ تو کہیں ہو نہیں سکتا۔ تو بات کرنا آسان ہے۔ اس لئے شیطان ایسے الفاظ زبان سے نکلوا دیتا ہے، کہیں غصے میں کہیں تکبر سے۔

نمبر 2 :بندگی بندگی ہے۔ شریعت کا احترام اپنی جگہ۔ اس لئے علمأ نے لکھا کسی نے کہا کہ یہ شریعت کی بات ہے۔ اگلے نے آگے سے کہا کہ رکھ پرے شریعت کو۔ کہنے والا کافر ہو گیا۔

نمبر 3:اگر مال حرام سے صدقہ کیا اور ثواب کی امید رکھی۔ کافر ہو گیا۔

نمبر 4:اگر کسی کے پیٹ میں درد ہوا اور اسے کہا کہ آنتیں قل ھواللہ۔۔۔ پڑھ رہی ہیں، کافر ہو گیا۔

صدرپاکستان !سال 2016 کے رمضان المبارک میں دوست احباب کو رمضان مبارک کو پیغام ای میل کے ذریعے بھیجا تھا۔ اس پیغام میں ان تمام کلمات کا ذکر کیا گیا تھا جن کے بول دینے مسلمان دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے تاکہ وہ اپنا محاسبہ کرلیں اور اگر وہ لا علمی کی بنأ پر دائرہ اسلام سے خارج ہو گئے ہیں تو تجدید ایمان کر لیں اور اگر شادی شدہ ہیں تو تجدید ایمان کرنے کے ساتھ تجدید نکاح بھی کر لیں وگرنہ حدیث پاک کے مفہوم کے پیش نظر شوہر اور بیوی زنا کرنے کے مرتکب ہوتے رہیں گے۔ شوہر اور بیوی کے زنا کرنے کے ضمن میں بیان کا اقتباس نقل کیا جا رہا ہے

بیان

Very Beautiful Message For Muslims And Heart touching I

slamic Story In Urdu 2018 By Pak Madina

www.youtube.com

بسم اللہ الرحمن الرحیم

السّلام علیکم

قرب قیامت میں لوگ بیویوں کے ساتھ زنا کریں گے۔

دوستو! ایک بہت ہی اہم موضوع ہے۔ ایک بار ضرور سنیں۔

معروف مذہبی سکالر شیخ ذوالفقار احمد نقشبندی دامت برکاتہ فرماتے ہیں کہ کہ حضور صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کا مفہوم ہے کہ قرب قیامت میں لوگ اپنی بیویوں کے ساتھ زنا کریں گے فرماتے ہیں کہ ہم نے حدیث پڑھی تو ہمیں سمجھ میں نہ آئی۔ ہم نے اپنے استاد سے پوچھا کہ اس حدیث کا کیا مطلب ہے کہ لوگ اپنی بیویوں کے ساتھ زنا کریں گے؟

انہوں نے فرمایا کہ ہاں! اس کی کئی صورتیں ہیں۔ ایک صورت تو اس کی یہ ہے کہ مردا عورت کوئی کفریہ بول بول دے اور نکاح ٹوٹ جائے اور ان کو اس کا پتہ ہی نہیں کہ نکاح ٹوٹ گیا ہے یا نہیں۔ اور آجکل یہ عام بات ہے۔ لوگوں کا اس بات کا علم ہی نہیں۔

صدرپاکستان !سال 2019 میں ویب سائٹ یو ٹیوب پر پروگرام احکام شریعت سننے کی سعادت حاصل ہوئی۔ اس پروگرام نے مفتی اکمل دامت برکاتہ سے تجدید ایمان اور تجدید نکاح کا طریقہ دریافت کیا جو کہ موصوف مفتی صاحب نے بتلایا جو کہ مضمون: تجدید ایمان اور تجدید نکاح میں نقل کیا جا چکا ہے۔ نہایت آسان طریقہ ہے تجدید نکاح کے لئے کسی عالم دین کی ضرورت نہیں۔ شوہر بیوی اور دو گواہ ہونے چاہیں۔

صدرپاکستان !دور حاضر میں گمراہی کا دور دورہ ہے اور جزیرۃ العرب جہاں سے دین اسلام کا اجرأ ہوا تھا وہاں پر برائی کے محوروں کی اشاعت کی جا رہی ہے مثلا: متحدہ امارات میں سوئر کے گوشت کی دکانیں بھی ہیں، شراب خانے بھی ہیں، جوأ خانے بھی ہیں، نائٹ کلب بھی ہیں اور عریانی اور بے حیائی بھی ہے۔ سعودی عرب میں ایک شہرنیون کی تعمیر کی جا رہی ہے جہاں پر اسلامی قانون لاگو نہیں ہوں گے اور عیش و عشرت کے سامان مہیا کئے جائیں گے۔ سر دست سعودی عرب میں عورتوں کو حجاب اور نقاب سے مبرا کر دیا گیا ہے، عورتیں کار چلا سکتی ہیں، عورتیں بغیر شوہر کی اجازت کے بیرون ملک جا سکتی ہیں، وغیرہ۔ صدرپاکستان! منصوبہ امن کی پکار نے تقاضا کیا کہ ان کلمات اور اعمال کی نشاندہی کی جائے تاکہ اسلامی ریاستوں کے سربراہان اپنا محاسبہ کریں کہ گو خود کو مسلمان تصور کرتے ہیں لیکن ایسا تو نہیں کہ وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو چکے ہوں۔

صدرپاکستان! سر دست مضمون تجدید ایمان اور تجدید نکاح اردو زبان میں اللہ کی توفیق اور فضل و کرم سے لکھا گیا ہے۔ انشأ اللہ! اس کا انگریزی زبان میں بھی ترجمہ کیا جائے گا۔

صدرپاکستان !مختصر یہ کہ سائنس وہ علم ہے جس کا مقصد بنی نوع انسان کو اللہ کے قریب کرنا ہے۔ سائنس کے علم سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات کا تجریہ کیا جاتا ہے تاکہ اللہ تعالٰی کی عظمت و بڑائی دل و دماغ میں سما سکے اور بندہ اللہ سے قریب سے قریب تر ہوتا چلا جائے اور اللہ کے ولیوں میں اس کا شمار ہو جائے۔ لیکن سائنسدانوں نے مخلوقات کے تجزیہ کو ذاتی علم سمجھا جبکہ یہ اللہ کا عطا کردہ علم تھا اور سائنسدانوں کی اکثریت نے اللہ تعالٰی کی ذات یکتا کا انکار کر دیا۔ چونکہ اسلامی ریاستوں کے سربراہان نے عوام کی تعلیم کے لئے پالیسیاں اختیار نہیں کیں تھیں اس لئے عوام دین اسلام کی تعلیمات سے بے بہرہ رہی اور اللہ تعالٰی سے دور ہوتے چلی گئی۔

صدرپاکستان !مختصر یہ کہ امت مسلمہ کو احساس دلانے کے لئے کہ وہ اپنے ایمان کا محاسبہ کرے، الحمد للہ! علمائے کرام، دارالعلوم وغیرہ کو خطوط لکھے گئے ہیں اور ان سے درخواست کی گئی ہے کہ تجدید ایمان اور تجدید نکاح کو اپنے بیانات اور تقاریر کا حصہ بنائیں تاکہ ہر مسلمان اپنا محاسبہ کر سکے کہ آیا وہ دائرہ اسلام سے خارج تو نہیں ہو چکا۔ علمائے کرام، دارالعلوم، امت مسلمہ کو خطوط اللہ کی توفیق سے لکھے گئے ہیں ان کو بھی مندرجہ ذیل ویب سائٹس پر شائع کر دیا گیا ہے تاکہ تجدیں ایمان اور تجدید نکاح کا پیغام پوری دنیا میں پہنچ جائے

www.cfpislam.co.uk

www.amankipuakr.co.uk

صدرپاکستان !آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اگر خاتمہ ایمان پر ہو لیکن اللہ کی بارگاہ میں توبہ و استغفار کرنے کی توفیق نہ ملی ہو تو جہنم میں سزا بھگتنے کے بعد اللہ کی رحمت اور فضل و کرم سے جنت کا پروانہ مل سکتا ہے۔ اس ضمن میں مولانا منظور یوسف دامت برکاتہ کا بیان نقل کیا جاتا ہے جو اس مسلمان کے متعلق ہے جس کے نامہ اعمال میں کوئی نیکی نہیں تھی بجز اس بات کے کہ اس کے دل میں کلمہ: لا الہ الاللہ محمد الرسول اللہ موجود تھا۔

جہنم کا آخری بندہ

Website: www.youtube.com

Jahannum Ka Akhri Banda

By Maulana Manzoor Yousuf Sahab

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کی ایک روایت ہے اور مسند اعظم کی روایت ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صل اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آئے اور انہوں نے آ کر سوال کیا جس کا مفہوم ہے کہ اے رسول اللہ! کیا جن لوگوں کے دلوں میں کلمہ: لا الہ الاللہ محمد الرسول اللہ ہو گا، ان میں سے کوئی ایسا بھی ہے کہ جو آخر تک، ایک زمانے تک جہنم میں رہے گا اپنے گناہوں کی وجہ سے     نافرمانیوں کی وجہ سے؟ یعنی ہوگا تو مؤمن، کلمہ پڑھ رہا ہوگا، لیکن گناہوں کی زندگی میں کوئی خیر کا عمل نہیں کیا ہوگا، لیکن صرف لا الہ الاللہ محمد الرسول اللہ کی دولت اس کے پاس موجود ہوگی۔ کیا ایسا کوئی آدمی ہے جو طویل زمانے تک جہنم میں پڑا رہے گا؟

آپ صل اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس کا مفہوم ہے ہاں ایک آدمی ہوگا جو جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں نیچے کہیں ہوگا اور وہ اللہ تبارک و تعالٰی کو پکار رہا ہوگا اور اللہ کے ناموں میں سے حنان منان دو نام ہیں، یہ نام لے کر پکار رہا ہوگا


یا حنان یا منان
۔ اللہ اکبر

یا حنان اے محبت کرنے والے، یا منان اے احسان کرنے والے۔

یہ آوازیں وہ کہہ رہا ہوگا، اس قسم کی آوازوں سے ندائیں دے رہا ہوگا۔ حضرت جبرئیل علیہ السّلام اس کی آواز کو     سنیں گے اور حضرت جبرئیل علیہ السّلام کو اس آواز سے تعجب ہوگا۔ فوراً کہیں گے، عجیب ہے! یہ کس کی آواز ہے؟ اور صبر نہیں کر سکیں گے حضرت جبرئیل علیہ السّلام، اس لئے کہ اس کی آواز ایسی درد ناک ہوگی۔ فوراً اللہ کے پاس دوڑتے ہوئے جائیں گے۔ اللہ کے پاس پہنچیں گے،سجدہ کریں گے۔ اللہ تعالٰی ارشادفرمائیں گے جس کا مفہوم ہے ہاں جبرئیل! سر اٹھاؤ۔ کیوں آئے ہو؟ کیا معاملہ ہے؟ عجیب تو نے دیکھا ہے، سنا ہے؟ اللہ پاک تو جانتے ہوں گے۔ لیکن پھر بھی پوچھیں گے کہ کیا عجیب چیز تو نے د یکھی؟

حضرت جبرئیل علیہ السّلام عرض کریں گے جس کا مفہوم ہے: اے اللہ! میں نے ایک آواز سنی ہے جو جہنم کے نیچے سے آ رہی ہے، تہ سے آرہی ہے۔ اور وہ پکارنے والا یا حنان یا منان کہہ کر پکار رہا ہے۔ مجھے اس کی آواز سے بڑا تعجب ہوا کہ اس قدر پریشان ہے آواز ہے۔ میرا جی چاہا کہ جا کر اس کی مدد کروں۔ آپ سے اجازت لینے آیا ہوں۔

اللہ تبارک و تعالٰی ارشاد فرمائیں گے جس کا مفہوم ہے اچھاجبرئیل! تم چلے جاؤ مالک کے پاس۔ مالک داروغہ جہنم جو ہے اس کے پاس چلے جاؤ اور اسے جا کر کہو کہ جو بندہ یا حنان یا منان کہہ کر مجھے پکار رہا ہے اس کو نکال کر لے آؤ۔

حضرت جبرئیل علیہ السّلام جاتے ہیں۔ وہ جہنم کے دروازوں کے پاس پہنچتے ہیں اور جا کر دروازہ کھٹکھٹایا۔ اور حضرت مالک جو جہنم کا داروغہ ہے، انہوں نے دروازہ کھولا اور پوچھا کون؟ کہا جبرئیل۔ کیسے آنا ہوا؟ اللہ پاک نے بھیجا ہے۔ کیوں آئے ہو؟ اس قسم کی ندا دینے والا آدمی ہے اس آدمی کو اللہ پاک نے نکالنے کا حکم دیا ہے۔

مالک داروغہ جہنم کے نیچے جائیں گے اور جا کر اسے تلاش کریں گے۔ وہ نہیں پائیں گے اس کو۔ نہیں ملے گا انہیں۔ باوجود یہ کہ داروغہ جہنم جہنمیوں کو ایسے پہچانتے ہوں گے جس طرح ماں اپنی اولاد کو پہچانتی ہے۔ اس سے بھی زیادہ پہچان رہا ہوگا۔ لیکن یہ بندہ نہیں ملے گا اورجبرئیل علیہ السّلام کو آ کر کہیں گے کہ جہنم نے ایک گرم سانس لیا ہے کہ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ پتھر کو سا ہے اور لوہا کون سا ہے۔ جس طرح سے لوہا گرم ہے اسی طرح سے پتھر بھی گرم ہے۔ جیسے لوہا سرخ ہے اسی طرح پتھر سرخ ہے، مجھے معلوم نہیں لوہا کون سا ہے اور آدمی کون ساہے؟ کوئی فرق پتہ نہیں چل رہا کہ پتہ نہیں کہاں ہے وہ آدمی۔

حضرت جبرئیل علیہ السّلام واپس جائیں گے۔ اللہ کے پاس پہنچیں گے۔ پھر دوبارہ سجدہ کریں گے اور پھر ارشاد فرمائیں گے اللہ پاک! اے جبرئیل! سر اٹھاؤ کہا کہتے ہو؟ حضرت جبرئیل علیہ السّلام عرض کریں گے جس کا مفہوم ہے کہ اے اللہ! تیرا بندہ ہمیں نہیں ملا جو حنان منان کہہ رہا ہے۔ آواز تو آرہی ہے مل نہیں رہا۔

اللہ پاک بتائیں گے جس کا مفہوم ہے کہ ایسا کرو، جاؤ جا کر مالک سے دوبارہ کہو کہ جہنم کے فلان طبقے میں چلے جاؤ اور فلاں پردوں کے اندر فلاں فلاں جگہ پر۔۔۔۔۔ پوری نشاندہی اللہ پاک فرمائیں گے کہ فلاں فلاں جگہ پر چلے جاؤ، وہ بندہ وہاں پر ہے۔

حضرت جبرئیل علیہ السّلام پھر آئیں گے۔ پھر آکر مالک کو ساری باتیں بتائیں گے کہ اس طرح کی جگہ ہے، فلاں فلاں جگہ ہے، اس کے اندر پڑا ہوا ہے۔ نکال کر لے آؤ۔

پھر مالک جائیں گے جہنم میں۔ دیکھیں گے۔ وہ دیکھیں گے کہ الٹا لٹکا ہوا ہے، بندا ہوا ہے۔ اس کی پیشانی کو پاؤں سے باندھا ہوا ہو گا، سر اور پاؤں آپس میں بندھے ہوئے ہوں گے، دونوں ہاتھ گردن کے پیچھے بندے ہوئے ہوں گیاور الٹا پڑا ہوا ہوگا۔ اور بچھو اور سانپ اسے چمٹے ہوئے ہوں گے۔ اللہ اکبر!

وہ مالک داروغہ جہنم اسے اٹھائے گا اور اسے ایسے جھاڑے گا جس طرح کسی چیز کو جھاڑتے ہیں۔ بچھو اور سانپ جھڑجائیں گے۔ پھر دوبارہ وہ ایک مرتبہ اسے اٹھائے گا، پھر جھاڑے گا۔ یہاں تک کہ جب دوبارہ جھاڑے گا تو وہ جو زنجیر اور طوق بندھے ہوئے ہوں گے وہ بھی سارے ٹوٹ جائیں گے۔ پھر جہنم سے اسے نکالے گا۔

جہنم سے نکال کر پھر جنت کے قریب ایک نہر ہو گی، اس نہر کے اندر اسے لے آئے گا۔ یہ وہ نہر ہوگی کہ جب جہنمیوں کو عذاب اور سزا بھگت لینے کے بعد اس نہر میں ڈالا جائے گا اور اس نہر میں دوبارہ پاک اور صاف ہوکر پھرجنت میں جائیں گے۔ تو اس نہر کے پاس لایا جائے گا اس آدمی کو اور یہاں سے جب اس کو نکالیں گے تو پھر مالک اسے جبرئیل علیہ السّلام کے سپرد کر دیں گے کہ لے جاؤ، اللہ پاک نے اسے بلایا ہے، اسے لے جاؤ۔

چنانچہ حضرت جبرئیل علیہ السّلام اس کو لے کر آئیں گے اور نہلانے کے بعد صفائی کر لینے کے بعد جہنم کی حرارت     تپش دور ہو گئی۔ اب حضرت جبرئیل علیہ السّلام جہاں جہاں سے اس کو لے کر گزریں گے سارے ملائکہ دیکھ کر تعجب کریں گے کہ یہ کیسا ظالم انسان تھا جس نے اپنے اوپر     اتنا ظلم کیا، اتنے گناہ کر کے پھر ظلم کیا اور اس کی ایسی حالت ہو گئی ۔جہنم میں جل جل کر اور جسم پر گوشت نہیں رہا، سارا بچھوؤں اور سانپوں نے کھا لیا ہے، ہڈیاں ہی ہڈیاں نظر آ رہی ہیں۔ کیا اس کے جرائم تھے، کیا اس کے گناہ تھے، کتنا ظلم اس نے کیا۔

پھر یہ بندہ جب آئے گا اللہ کے پاس اور اللہ پاک کو سجدہ کرے گا۔ پھر اللہ پاک پوچھیں گے جس کا مفہوم ہے، ہاں! سر اٹھاؤ۔ پھر اللہ تعالٰی کا اس سے کلام ہو گا۔

اللہ پاک پوچھیں گے جس کا مفہوم ہے، اے میرے بندے! مجھے یہ بتاؤ، کیا کتنی خوبصورتی تجھے زندگی میں ہم نے نہیں دی تھی؟ کہ ہم نے تجھے خوبصوت شکل عطا کی تھی یانہیں کی تھی؟ وہ کہ گا یا اللہ! شکل تو دی تھی۔ سب سے حسین و جمیل تجھے بنایا تھا۔ انسان سب مخلوق سے افضل ہے۔ پھر اللہ پاک پوچھیں گے جس کا مفہوم ہے،بتاؤ! کیا تمہارے پاس رسول ہم نے نہیں بھیجے تھے؟ وہ کہے گا،جی اللہ! بھیجے تھے۔ پھر اللہ پوچھیں گے جس کا مفہوم ہے اچھا! ہماری جانب سے آیا ہوا پیغمبر، رسول نے تجھے نیکیوں کا حکم نہیں دیا تھا؟کہے گا، جی ہاں دیا تھا۔ نمازیں قائم کرنے کے لئے نہیں کہا تھا۔ جی کہا تھا۔ گناہوں سے تجھے نہیں روکا تھا؟ جی اللہ! اس نے گناہوں سے بھی مجھے روکا تھا، نافرمانیوں سے بھی ہمیں روکا تھا اور بندہ ان سب باتوں کا اقرار کرے گا۔ اس کے بعد اللہ پاک پوچھیں گے جس کا مفہوم ہے بتاؤ تو نے ایسا کیوں کیا؟

میرے عزیز دوستو اور بزرگو! بس یہ سوال ہم سب کے لئے بہت بڑا سوال ہے۔ کہ اللہ پاک اپنے سامنے لاکر پوچھیں گے پھر تو نے ایسا کیوں کیا؟ رسول بھی آ گئے، نیکی کی باتیں بھی تمہیں بتائی گئیں، سمجھایا بھی گیا، گناہوں سے تمہیں روکا بھی گیا، جس و جمال بھی اللہ نے دیا، مال بھی دیا، عقل بھی دی۔ ساری چیزیں اللہ پاک نے عطا فرمائیں تو پھر اللہ پاک پوچھیں گے کہ ان نعمتوں کی کیا کارگزاری لے کر آئے ہو؟ کیا کام کر کے لائے ہو۔

وہ بندہ یہی کہے گا۔ اے میرے پروردگار! بس اپنی جان پر میں نے ظلم ہی کیا تھا، ظلم ہی کرتا رہا، ایک زمانہ ہو گیاجہنم میں پڑے پڑے۔ سب لوگ جن کے دلوں میں لا الہ اللہ     محمد الرسول اللہ تھا وہ نکل گئے، میں رہ گیا۔ یہاں تک پڑا رہا۔ لیکن اے میرے پروردگار! میں پھر بھی مایوس تیری رحمت سے نہیں تھا۔ جہنم کے اس طبقے میں جا کر مجھے امید تھی کہ میرے پاس لا الہ اللہ محمد الرسول اللہ کا کلمہ تھا، تبھی میں تجھے حنان اور منان کے نام سے پکار رہا تھا۔

اللہ پاک ارشاد فرمائیں گے جس کا مفہوم ہے اچھا! پھر ملائکہ سے کہیں گے جس کا مفہوم ہے فرشتو! گواہ رہو میں نے اپنی رحمت اس پر ڈال دی ہے اور اس کو میں نے بخش دیا ہے اور اس کے لئے جنت کا فیصلہ میں نے لکھ دیاہے۔

عزیز دوستو اور بزرگو! اس سے پہلے اتنا طویل زمانہ جہنم میں جلے گا، بچھوؤں کا ساتھ چمٹنا، اور اسی طرح سے سانپوں کا چمٹے رہنا، پھر اس کے ہاتھوں کا گردن کے ساتھ بندھا ہوا ہونا، جہنم میں پڑا رہنا، یہ کیفیت کہ مالک داروغہ جہنم کو بھی نہ ملے جو پہچانتا ہے جہنم والوں کوجس طرح ماں پہچانتی ہے اپنی اولاد کو، اسے بھی نہیں ملے گا، پھر اللہ پاک رہنمائی فرمائی گے، پھر جا کر لے کر آئے گا۔ اس آدمی کا کیا حال ہوگا؟ اس جہنم کا کیا منظر ہوگا کہ جہاں یہ بتایا جا رہا ہو کہ آدمیوں اور لوہے میں فرق نہیں ہو سکے گا، نہ پتھروں میں اور لوہے میں فرق نہیں ہوسکے گا۔ سب سرخ سے سرخ ہوں گے۔ آدمی پر موت طاری نہیں ہوگی۔ موت خود موت مر جائے گی۔ موت پر موت خود طاری ہو جائے گی۔ آدمی زندہ ہے، جل رہا ہے،راکھ ہو گیا، کوئلے بن گئے۔ وہی کیفیت جیسا کہ پتھر ہے، جیسا کہ انسان ہے، کوئی فرق محسوس نہیں ہوگا۔ اتنا طویل زمانہ جو جہنم میں گزرے گا، پھر اللہ پاک اسے جنت کی طرف لے کر آئیں گے۔

میر ے عزیز دوستو اور بزرگو!جہنم کی تپش اور حرارت کا آپ اندازہ اس سے کر لیں کہ آپ صل اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس کا مفہوم ہے کہ ایک آدمی کو لایا جائے گاجس کو دنیا میں اللہ پاک نے نعمتیں ہی نعمتیں دیں، کبھی اس پر غم طاری نہیں ہوا۔ جہنم کے 500 سال کے فاصلے پر اس ے کھڑا کیا جائے گا، جہنم کی ایک ہوا چلے گی اور اللہ پاک پوچھیں گے جس کا مفہوم ہے: دنیا کے اندر تو نے کوئی خوشی کبھی دیکھی؟ سب بھول جائے گا۔ ساری زندگی خوشیاں دیکھیں، کوئی غم صدمہ اس پر طاری نہیں ہوا۔ لیکن اتنی حرات جہنم کی ہوگی کہ وہ سب خوشیاں بھول جائے گا۔

میرے عزیر دوستو اور بزرگو! پھر جو آدمی وہاں رہے گا، ایک طویل زمانہ، اس کا کیا حشر ہو گا۔ تو اللہ پاک پوچھیں گے جس کا مفہوم ہے کہ یہ ساری نعمتیں دی تھیں۔ کیا کارگزاری کر کے لائے ہو؟ میں بھی سوچوں آپ بھی سوچیں کہ اللہ پاک نے مجھ سے پوچھ لیا کہ ہاں! جوانی دی تھی۔ بتاؤ! کہاں خرچ کر کے آئے ہو؟ بتاؤ! نمازوں کا حکم دیا تھا، کتنی پڑھ کر آئے ہو؟ بتاؤ!تمہارے پاس قرآن آیاتھا۔ کتنا اس پر عمل کیا؟ یہ سوال ضرور ہوں گے۔ اور ایک بات اور بھی ہمیں پتہ چلی۔ کہ اللہ پاک کے جو پیارے نام ہیں حنان اور منان ان ناموں سے دعا کی جائے۔ اللہ پاک اس بندے کی دعا کو قبول فرماتا ہے۔ تو اپنی دعاؤں میں اس کلمے کو شامل کر لیا کریں۔ یا ذوالجلال والاکرام، یا بدیع السمٰوٰت والارض۔ یہ سارے کلمات حدیث پاک میں بتائے گئے ہیں کہ ان کلمات سے دعا اللہ کے فضل و کرم سے قبول ہوتی ہے۔

اور اللہ پاک کی رحمت سے امید بھی رکھا کریں۔ مایوس نہیں ہوں۔ اعمال کریں اور اللہ پاک سے امید رکھیں۔ اعمال کریں خیر کی امید رکھیں کہ انشأ اللہ! اللہ پاک میرے ساتھ عافیت والا، کرم والا معاملہ فرمائیں گے۔ اللہ مجھے بھی اور آپ سب کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین۔

صدر پاکستان! مندرجہ بالا حدیث کی رو سے لاکھوں، کروڑوں سال کی سزا کے بعد اللہ کی بارگاہ سے امید کی جاسکتی ہے کہ وقت آئے گا کہ جہنم سے چھٹکارا مل جائے گا۔ لیکن اگر مسلمان نہ جانتے ہوئے بھی دائرہ اسلام سے نکل گیا تو جہنم ہمیشہ کے لئے اس کی مہمانی کرتی رہے گی جس کا ذکر قرآن میں ہے:

ترجمہ سورۃ الواقعہ آیت نمبر56 – 50

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ایک دن مقرر کے وقت پر۔ پھر تم جو ہو اے بہکے ہوؤ جھٹلانے والو۔ لا البتہ کھاؤ گے ایک درخت سینڈ کے سے۔ پھر بھرو اس سے پیٹ۔ ج پھر پیو گے اس پر جلتا پانی ج پھر پیو گے جیسے پیئں اونٹ تونسے ہوئے۔ یہ مہمانی ہے ان کی انصاف کے دن کی۔

صدر پاکستان !نفس اور شیطان دل و دماغ میں یہ بات ڈالیں گے کہ اللہ تعالٰی تو رحمان اور رحیم ہیں تو جب ایک مسلمان کو علم ہی نہیں کہ فلاں کلمہ بولنے سے یا فلاں عمل کرنے سے مسلمان دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے، تو کیا اللہ تعالٰی رحمان اور رحیم ہونے کے پیش نظر نظر انداز نہیں کرسکتے اور مسلمان کو دائرہ اسلام سے خارج نہ کریں اور اس کے بول اور عمل کو گناہ قرار دے دیں؟

صدر پاکستان! محاورہ ہے

Ignorance of the law is no excuse

صدر پاکستان !جب بندہ مسلمان ہوتا ہے تو اس کے لئے جاننا ضروری ہوتا ہے کہ وہ کون سے کلمات اور اعمال ہیں جن کے بولنے سے یا کرنے سے مسلمان دائرہ اسلام سے خارج ہو سکتا ہے تاکہ وہ احتیاط کرے۔ تاہم! اللہ تعالٰی رحمان اور رحیم ہیں کہ اگر مسلمان نہ جانتے ہوئے دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے تو معلوم ہو جانے پر وہ تجدید ایمان کر لے اور اگر شادی شدہ ہے تو تجدید نکاح بھی کر لے۔ الحمد للہ! اللہ تعالٰی نے تجدید ایمان اور تجدید نکاح کا کرنا بھی آسان رکھا ہے۔ اس کے لئے کسی عالم کی ضرورت نہیں۔ تجدید ایمان اور تجدید نکاح کا طریقہ مفتی اکمل دامت برکاتہ نے اے آر وائی کے پروگرام احکام شریعت میں ایک سائل کے جواب میں بتلایا ہے

دیکھیں تجدید ایمان کا آسان طریقہ یہ ہے کہ آپ اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں الفاظ کیسے بھی ہوں، یوں کہہ دیں یا اوادہ کر لیں کہ یا رب کریم سابقہ زندگی میں مجھ سے اگرکوئی کلمہ کفر جان بوجھ کر یا غلطی سے سرزد ہو گیا ہو یا کوئی خطا یا گناہ ہو گیا ہو اور جس سے میرے ایمان میں خلل پیدا ہو گیا ہو تو میں صدق دل سے معافی مانگتا ہوں /مانگتی ہوں، میری توبہ کو اپنے فضل و کرم سے قبول فرما لیں اور آئندہ احتیاط کا وعدہ کرتا ہوں /کرتی ہوں۔ اس کے بعد پہلا یا دوسرا کلمہ پڑھ لیں۔ یہ تجدید     ایمان ہو گیا۔

تجدید نکاح کے لئے میاں بیوی کا موجود ہونا بہتر ہے اور دو گواہ عاقل و بالغ مسلمان مرد ہو یا ایک مرد اور دو عورتیں۔ یہ جوان بیٹے بھی بن سکتے ہیں، گھر کے بالغ افراد بھی بن سکتے ہیں، کسی قاری صاحب کی حاجت نہیں۔

میاں بیوی آمنے سامنے بیٹھ جائیں اور زوجہ شوہر سے کہے کہ میں آپ کو اجازت دیتی ہوں کہ آپ میرا نکاح اپنے ساتھ کرلیں۔ نئے مہر جدیدکی حاجت نہیں ہوتی۔ یہ کہہ دیں کہ میں آپ کو اجازت دیتی ہوں کہ آپ میرا نکاح اپنے ساتھ کرلیں۔

اور شوہر جواب میں یہ کہے: میں نے تمہارا نکاح اپنے ساتھ کیا۔ جیسے یہ کہیں گے، نکاح ہو گیا۔ ایک دفعہ کہنا کافی ہے، تین دفعہ کہہ لیں تو بہتر ہے۔ یہ نکاح ہو گیا۔ کسی بڑے اہتمام کی ضرورت نہیں۔

صدر پاکستان! ایک خبر شائع ہوئی ہے کہ کئی ممالک میں ایسے قانون بھی ہیں کہ ان کو توڑنے والا جیل میں جا سکتا ہے

Worlds most bizarre laws that could land you in jail – from feeding pigeons and accidentally touching a stranger to sitting on church steps

صدر پاکستان! ذیل میں ان اعمال کا ذکر کیا جاتا ہے جو بظاہر تو روزمرہ کی زندگی سے متعلق ہیں لیکن اگر ان کو کیا جائے گا تو ملک کے قوانین کے تحت کرنے والا مجرم قرار پائے گا اور سزا کا مستحق ہوگا۔

نمبر1 :دبئی میں اگر کسی نے کسی اجنبی کی پشت پر ہاتھ رکھ دیا۔

نمبر2:اومان میں اگر ایر پورٹ پر کسی نے گالی دی۔

نمبر3:مصر میں کسی پرانی یادگار کے اوپر چڑھ جانا۔

نمبر4 :انڈو نیشا میں مشت زنی کرنا

نمبر5: جرمنی میں ہائی وے پر پٹرول کا ختم ہو جانا

نمبر6: سعودی عرب میں سر عام اپنے جذبات کا اظہار کرنا

نمبر7 :جاپان میں سانس کی نالی کا استعمال کرنا  ا

نمبر8 :روم میں گرجا گھر کی سیڑھیوں پر بیٹھ جانا۔

نمبر9 :سان فرانسسکو میں کبوتروں کو دانہ ڈالنا

نمبر10: یونان میں تفریحی مقامات پر جنسی ملاپ کرنا

نمبر11: مالدیو میں بائیبل کا ہاتھ میں لے کر چلنا

نمبر12 :فلوریڈا میں بچوں کے سامنے ڈانس کرنا

نمبر13:جبرالٹر میں بچوں کے ساتھ نشے کی حالت میں ہونا

نمبر14 :تھائی لینڈ میں کرنسی پر پاؤں رکنا

نمبر15 :پرتگال میں سمندر کے اندر پیشاب کرنا

نمبر16 :سرلنکا میں بدھا کی تصویر جسم پر بنوانا

صدر پاکستان !سیاح اگر ایسے ممالک میں سیرو تفریح کے لئے جائیں اور اگر انہوں نے کوئی بھی ایسا عمل کیا جو ملک کے قانون کو توڑتا ہے وہ مجرم ٹہرایا جائے گا اور اسے قید کی سزا ہوگی۔ سیاحوں کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ کسی بھی ملک میں جانے سے پیشتر وہاں کے قوانین سے واقف ہوں۔ صدر پاکستان! اسی طرح ہر مسلمان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے کلمات اور اعمال سے باخبر رہے جو اسے دائرہ اسلام سے خارج کرتے ہوں۔

صدر پاکستان! چونکہ امت مسلمہ کی اکثریت اللہ تعالٰی کے سیدھے راستے سے گمراہ ہو چکی ہے اس لئے وہ اس پہلو سے لاپرواہ ہو چکی ہے کہ وہ کسی وقت بھی دائرہ اسلام سے خارج ہو سکتی ہے۔ اس کے دل و دماغ میں یہ خیال بستا ہے کہ وہ مسلمان ہے اور مسلمان جنت میں جائیں گے اور گناہوں کو اللہ تعالٰی اپنے فضل و کرم سے معاف فرما دیں گے۔

صدر پاکستان! اللہ تعالٰی رحمان اور رحیم ہیں۔ اللہ تعالٰی علیم ہونے کے ناطے سے جانتے ہیں کہ امت مسلمہ کی اکثریت کفریہ کلمات کہنے کی بنأ پر دائرہ اسلام سے خارج ہو چکی ہے۔ الحمد للہ!اللہ تعالٰی نے منصوبہ امن کی پکار کو تجدید ایمان اور تجدید نکاح پر مضمون لکھنے کی توفیق عطا فرمائی اور اس مضمون کو ویب سائٹس پر شائع کرنے کی توفیق فرمائی تاکہ پوری دنیا میں مسلمان اپنا محاسبہ کر سکیں اور احتیاطاً تجدید ایمان اور تجدید نکاح کر لیں۔ مفتی اکمل دامت برکاتہ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ وقتاً فوقتاً تجدید ایمان اور تجدید نکاح کرتے رہنا چاہیے:


کبھی کبھار یا روزانہ تجدید ایمان کرلیا کریں اور کبھی تین مہینے یا چھ مہینے میں تجدید نکاح ہو جائے۔ اسی طرح گھر میں رہتے ہوئے بہتر ہوتا ہے نادانستہ طور پو زبان سے کچھ کلمات ایسے نکل سکتے ہیں جن سے ایمان میں خلاپیدا ہو جائے۔

آپ صل اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بعض اوقات انسان اپنی زبان سے ایسے کلمات نکالتا ہے جس کی قباحت کااس کو احساس نہیں ہوتا۔ لیکن یہی کلمہ اس اس کے لئے جہنم میں جانے ک سببب بن جاتے ہیں۔ تو اس لئے کوشش کرنی چاہیے کہ یہ اپنی عادت میں شامل کرلیں، بہترہے۔

صدر پاکستان کی ذمہ داری

صدر پاکستان! الحمد للہ! آپ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر ہیں۔ پاکستان سال 1947 میں اللہ تعالٰی کی مشیت سے دنیا کے نقشہ کلمہ طیبہ: لا الہ الاللہ محمد الرسو ل اللہ کی بنیاد پر ابھرا تھا جس کا خواب مولانا اشرف علی تھانوی رحمتہ اللہ علیہ نے دیکھا تھا اور محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ نے اللہ کے فضل و کرم سے اس خواب کو پورا کیا تھا۔

پاکستان کا خاکہ

اقتباس صفحہ نمبر 46 – 48

تعمیر پاکستان اور علمائے ربانی

اس مرحلہ پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت تھانوی رحمتہ اللہ علیہ بھی ویسا ہی نظام پاکستان چاہتے تھے جس کا نقشہ علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ اور محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے خطبات اور اعلانات میں پیش کیا تھا اور جس کا قوم آج تک مطالبہ کر رہی ہے۔

اس سوال کا جواب حضرت مولانا عبدالماجد صاحب دریا بادی کی اس اوّلین ملاقات کی تفصیل سے ملتا ہے جو انہوں نے جون 1928 میں حضرت تھانوی رحمتہ اللہ علیہ کے ضمن میں انہوں نے لکھا کہ پاکستان کا تخیل، خالص اسلامی حکومت کا خیال، یہ سب آوازیں بہت بعد کی پہلے پہل اس قسم کی آوازیں کان میں پڑیں۔۔۔ حضرت کی گفتگو میں یہ جزو بالکل صاف تھا۔”(نقوش و تاثرات صفحہ23

ہماری درخواست پر اس “بالکل صاف جزو” کی وضاحت کرتے ہوئے مولانا دریا بادی اپنے گرامی نامہ مورخہ 12مئی 1955 میں لکھتے ہیں کہ:

حضرت کو بعض معاصر علمأ کی طرح جنگ آزادی، جنگ حقوق، آزادی وطن سے کوئی خاص دلحسپی نہیں تھی۔ ان کے سامنے مسئلہ سیاسی نہیں تمام تر دینی تھا۔ وہ صرف اسلام کی حکومت چاہتے تھے۔ سال 1928میں جب پہلی بار حاضری ہوئی تو اس ملاقات میں حضرت نے دارالاسلام کی اسکیم خاصی تفصیل سے بیان فرمائی تھی کہ جی یوں چاہتا ہے کہ ایک خطہ پر خالص اسلامی حکومت ہو۔ سارے قوانین تعزیرات وغیرہ کا اجرأ احکام شریعت کے مطابق ہو، بیت المال ہو، نظام زکواۃ رائج ہو، شرعی عدالتیں قائم ہوں و قس ہذا۔ دوسری قوموں کے ساتھ مل کر کام کرنے سے یہ نتائج کہاں حاصل ہوتے ہیں۔ اس مقصد کے لئے تو صرف مسلمانوں ہی کی جماعت ہونی چاہیے اور سب کو یہ کوشش کرنی چاہیے”۔

صدر پاکستان! محمد علی جناح رحمتہ علیہ کے پیش نظر بھی پاکستان کی سیاست کو قرآن اور حدیث کی تعلیمات کی بنأ پر استوار کرنا تھا۔

اقتباس صفحہ نمبر 48

تعمیر پاکستان اور علمائے ربانی

چنانچہ اگست 1941 میں محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ حیدرآباد تشریف لے لئے تو ان سے “اسلامی حکومت” کی وضاحت چاہی گئی۔ انہوں نے اس سوال کے جواب میں نوجوان طلبأ کو بتلایا کہ:

اسلامی حکومت کا یہ امتیاز پیش نظر رکھنا چاہیے کہ اس میں اطاعت اور دہ کیشی کا مرجع اللہ کی ذات ہے جس کے لئے تعمیل کا مرکز قرآن مجید کے احکام اور اصول ہیں۔ اسلام میں اصلاً نہ کسی بادشاہ کی اطاعت ہ نہ کسی پارلیمان کی، نہ کسی اور شخص یا ادارہ کی۔ قرآن کریم کے احکام ہی سیاست و معاشرت میں ہماری آزادی و پابندی کی حدود متعین کرتے ہیں۔ اسلامی حکومت دوسرے الفاظ میں قرآی اصول اور احکام کی حکمرانی ہے۔ (حیات قائد اعظم صفحہ 428

صدر پاکستان محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ کی قرآن فہمی کا اندازہ مندرجہ ذیل اقتسابات سے لگایا جا سکتا ہے:

اقتباس کتاب” اسلام کا سفیر” صفحہ۹۴۱

11جولائی 1946کو حیدر آباد دکن کے ایک جلسہ عام میں تقریر کرتے ہوئے یہان تک فرمایا کہ:

ایک مسلمان کی حیثیت سے میں علی الاعلان کہہ سکتا ہوں کہ اگر ہم قرآن مجید کو اپنا” آخری “اور “قطعی رہبر “ بنا کر اس ارشاد خداوندی پر عمل کریں کہ تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں تو ہمیں دنیا کی کوئی ایک طاقت یا کئی طاقتیں مل کر مغلوب نہیں کر سکتیں۔

ہم تعداد میں کم ہونے کے باوجود فتح یاب ہوں گے، جس طرح مٹھی بھر مسلمانوں نے ایران اور روم کی سلطنتوں کے تختے الٹ دئیے تھے۔

اقتباس کتاب” اسلام کا سفیر” صفحہ941

میں نے قران مجید اور قوانین اسلامیہ کے مطالعہ کی اپنے طور پر کوشش کی ہے۔ اس عظیم اشان کتاب کی تعلیمات میں انسانی زندگی کے ہر باب کے متعلّق ہدایات موجود ہیں۔

زندگی کا روحانی پہلو ہو یا معاشرتی، سیاسی پہلو ہو یا معاشی، غرض کہ کوئی شعبہ ایسا نہیں جر قرآنی تعلیمات کے احاطہ سے باہر ہو۔

قران کریم کی اصولی ہدایت اور طریق کار نہ صرف مسلمانوں کے لئے بہترین ہے بلکہ اسلامی حکومت میں غیر مسلموں کے لئے حسن سلوک اور آئینی حقوق کا جو حصہ ہے اس سے بہتر تصور ناممکن ہے۔

اقتباس کتاب” اسلام کا سفیر” صفحہ150

مسلمانو!

ہمارا پروگرام قرآن پاک میں موجود ہے۔ ہم مسلمانوں کو لازم ہے کہ قرآن پاک کو غور سے پڑھیں۔ قرآنی تعلیم کے ہوتے ہوئے مسلم لیگ مسلمانوں کے سامنے کوئی دوسرا پروگرام پیش نہیں کر سکتی۔

اقتباس کتاب” اسلام کا سفیر” صفحہ150

مجھ سے اکثر سوال کیا جاتا ہے کہ پاکستان کا آئین کیا ہو گا؟

یہ کام پاکستان کے رہنے والوں کا ہے اور میرے خیال میں مسلمانوں کے طرز حکومت کا آج سے ساڑھے تیرہ سو سال قبل قرآن حکیم نے فیصلہ کر دیا تھا۔

صدر پاکستان ! مختصر یہ کہ قائد اعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ کی وفات اور قائد ملت لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد جن شخصیات نے پاکستان کی سربراہی کا منصب سنبھالا انہوں نے پاکستان کے قیام کو نفس کی آزادی سمجھا اور مال و دولت کو جمع کرنا زندگی کا مقصد سمجھا۔ مختصر یہ کہ پاکستان میں برائی کے محوروں کو فروغ دیا جاتا رہا اور تاجر حضرات اور ریاست کے سربراہوں نے پاکستان کی دولت کو بیرون ملک جمع کرنا شروع کر دیا اور ملکی معشیت کو چلانے کے لئے آئی ایم ایف سے قرض لینے شروع کر دئیے اور ترقی یافتہ ممالک سے جو امداد پاکستان کی ترقی کے لئے ملتی تھی اس میں سے بھی اپنا حصہ لینا شروع کر دیا جس کی وجہ سے پاکستان قرضوں میں ڈوب چکا ہے اور اس وقت آئی ایم ایف کے قرضوں کا سود ادا کرنے کے لئے بھی مزید قرضے لئے جاتے ہیں جبکہ خبر کے مطابق نواز شریف اور آصف علی زرداری کے پاس اتنی دولت ہے کہ پاکستان کے 90 فیصد قرضے ادا کئے جا سکتے ہیں۔

صدر پاکستان!موجودہ حکومت کی پالیسوں نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ بنیادی ضرورتوں: بجلی، گیس اور پانی کی قیمتیں اتنی بڑھا دی ہیں کہ عوام برداشت نہیں کر سکتی۔بجلی جو چوری ہوتی ہے موجودہ حکومت نے بھی اس چوری کو روکنے کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھائے۔ رشوت ستانی زوروں پر ہے بلکہ تمام محکمے برملا رشوت کا مطالبہ کرتے ہیں، وغیرہ۔

صدر پاکستان !کس وجہ سے پاکستان میں گمراہی کا دور دورہ ہے؟ صدر پاکستان!
پاکستان میں گمراہی کا دور دورہ اس وجہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ا مت مسلمہ کی اکثریت دائرہ اسلام سے خارج ہو چکی ہے اور اسے اس کا احساس بھی نہیں۔ قرآن پاک میں ایسے مسلمانوں کا ذکر بھی ہے جو دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتے ہیں اور ان کو اس کا علم بھی نہیں ہوتا۔

ترجمہ سورۃ النسأآیت نمبر137

بسم اللہ الرحمن الرحیم

جو لوگ مسلمان ہوئے پھر کافر ہوگئے پھر مسلمان ہوئے پھر کافر ہو گئے پھر بڑھتے رہے کفر میں تو اللہ ان کو ہر گز بخشنے والا نہیں اور نہ دکھلاوے ان کو راہ۔

صدر پاکستان !علمائے کرام اس آیت کی تفسیر فرماتے ہیں کہ اس آیت میں ان مسلمانوں کا بھی ذکر ہے جو کفریہ کلمات کہنے کی بنأ پر دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتے ہیں۔

صدر پاکستان! علمائے کرام فرماتے ہیں کہ اللہ تعالٰی کا یہ دستور ہے کہ جس ملک میں اللہ کی نافرمانیاں کی جاتی ہوں وہاں پر اللہ کی رحمتوں کا نزول نہیں ہوتا۔ قرائن کی رو سے چونکہ امت مسلمہ کی اکثریت دائرہ اسلام سے خارج ہو چکی ہے اور شوہر اور بیوی زنا کرنے کے مرتکب ہو رہے ہیں اس لئے ضروری ہے کہ تمام امت مسلمہ تجدید ایمان اور تجدید نکاح کرے۔

تجدید ایمان اور تجدید نکاح کے لئے لائحہ عمل

صدر پاکستان!
حدیث پاک کا مفہوم ہے

آپ صل اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بعض اوقات انسان اپنی زبان سے ایسے کلمات نکالتا ہے جس کی قباحت کااس کو احساس نہیں ہوتا۔ لیکن یہی کلمہ اس اس کے لئے جہنم میں جانے ک سببب بن جاتے ہیں۔ تو اس لئے کوشش کرنی چاہیے کہ یہ اپنی عادت میں شامل کرلیں، بہترہے۔

صدر پاکستان! مختصر یہ کہ آج کے سائنسی دور میں امت مسلمہ دین اسلام سے بہت دور ہو چکی ہے اور مسلمان ایسے کلمات زبان سے نکالتا ہے جو اس کے لئے ہمیشہ کے لئے جہنم میں جانے کی سبب بن جاتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ تمام امت مسلمہ تجدید ایمان اور تجدید نکاح کرے۔

صدر پاکستان! قرآن و حدیث کی روشنی میں اسلامی ریاست کا سربراہ اس بات کا ذمہ دار ہوتا ہے کہ امت مسلمہ کے ایمان کی حفاظت کرے۔ اگر وہ امت مسلمہ ے ایمان کی حفاظت کے لئے قدم نہیں اٹھاتا تو سب کا وبال اس کے سر پر ہوگا۔ ذیل میں اس خط کے ترجمہ پیش کیا جاتا ہے جو خط خاتم الانبیأ محمد ابن عبداللہ صل اللہ علیہ وسلم نے روم کے باشادہ ہر قل کو بھیجا تھا:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ تبارک و تعالٰی کے نام سے ابتدا کرتا ہوں جو بہت مہربان اور رحم کرنے والا ہے

یہ خط محمد ابن عبداللہ (صل اللہ علیہ وسلم) جو اللہ کے بندے اور رسول ہیں ان کی طرف سے ہرقل کے لئے جو عظیم روم ہے۔ سلامتی نازل ہو اس شخص پر جو ہدایت کی پیروی کرے۔ بیشک ہر قل میں تجھے اسلام کی دعوت دیتا ہوں۔ تو اسلام لا، سلامت رہے گا۔ اللہ تبارک تعالٰی تجھے تیرا اجر دو مرتبہ عطا فرمائے گا۔ پس اگر تو پھر گیا، تو نے اعراض کیا، تو نے میری دعوت کو قبول نہ کیا تو بے شک تجھ پر تیرے متبعین کا وبال ہوگا۔

صدر پاکستان! اس خط کا یہ جملہ غور طلب ہے

پس اگر تو پھر گیا، تو نے اعراض کیا، تو نے میری دعوت کو قبول نہ کیا تو بے شک تجھ پر تیرے متبعین کا وبال ہوگا۔

صدر پاکستان !آپ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر ہیں۔ منصوبہ امن کی پکار نے اللہ تعالٰی کی توفیق اور فضل و کرم سے آپ کو آگاہ کیا ہے کہ دور حاضر کے حالات کے مطابق امت مسلمہ کی اکثریت دائرہ اسلام سے خارج ہو چکی ہے اس لئے اگر آپ نے امت مسلمہ کے تجدید ایمان اور تجدید نکاح کے لئے قدم نہیں اٹھائے تو ان سب کا وبال آپ پر ہو گا۔

صدر پاکستان !آپ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سربراہ کے قائم مقام ہیں اور اسلامی ریاست کا سربراہ خاتم الانبیأ محمد ابن عبداللہ صل اللہ علیہ وسلم کا قائم مقام ہوتا ہے۔ اس لئے آپ کی مندرجہ ذیل ذمہ داریاں جنم لے چکی ہیں

    فوری طور پر مندرجہ ذیل مضامین اور خطوط کا مطالعہ کریں:

            خط بنام پاکستان ہائی کمشنر

        مضمون:تجدید ایمان اور تجدید نکاح

            علمأ کو پیغام

            خط بنام علمأ

            خط بنام مفتی اکمل

            خط بنام امت مسلمہ

صدر پاکستان! امت مسلمہ کو تجدید ایمان اور تجدید نکاح کے ضمن میں خبردار کرنے کے لئے ذیل میں چند تجاویز پیش خدمت ہیں:

نمبر1: آپ وزیر اعظم اور اس کی کابینہ کا اجلاس طلب کریں اور ان کو ہدایت دیں کہ مذکورہ ویب سائٹس پر تجدید ایمان اور تجدید نکاح کے مضامین کا غور وخوض سے مطالعہ کریں،

نمبر 2:ٹیلیویژن اور ریڈیو پر امت مسلمہ سے خطاب کریں اور ان کو احساس دلائیں کہ امت مسلمہ کی اکثریت دائرہ اسلام سے خارج ہو چکی معلوم ہوتی ہے اس لئے ہر مرد و عورت ویب سائٹس پر مضامین کا مطالعہ کرے،

نمبر3:خطاب میں علمائے کرام کو بھی خطاب کریں کہ وہ بھی تجدید ایمان اور تجدید نکاح کے مضامین کا مطالعہ کریں اور اپنے بیانات کا حصہ بنائیں،

نمبر 4:دارالعلوم، کالج، یونیورسٹی وغیرہ کو ہدایت دیں کہ تجدید ایمان اور تجدید نکاح کے مضامین کونصاب کا حصہ بنائیں

نمبر 5:وزیر اعظم بھی امت مسلمہ سے خطاب کریں۔

صدر پاکستان! الحمد للہ !پاکستان کلمہ طیبہ :لا الہ الاللہ محمد الرسول اللہ کی بنیاد پر وجود میں لایا گیا تھا۔ امت مسلمہ کی اکثریت کے دلوں میں کلمہ طیبہ :لا الہ الاللہ محمد الرسول اللہ سو چکا ہے چونکہ وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو چکی معلوم ہوتی ہے۔ تجدید ایمان اور تجدید نکاح سے کلمہ طیبہ: لا الہ الاللہ محمد الرسول اللہ اللہ کے فضل و کرم سے جاگ جائے گا اور امت مسلمہ کو اللہ کی طرف رجوع کرنے کے لئے اکسائے گا۔ اللہ تعالٰی رحمان اور رحیم ہیں۔ اللہ تعالٰی اپنے فضل و کرم سے معاف فرما دیں گے اور اللہ تعالٰی کی نعمتوں، رحمتوں اور برکتوں کو نزول شروع ہو جائے گا اور اللہ کی بارگاہ سے اس بات کی امید کی جا سکتی ہے کہ پاکستان اسلام کا قلعہ بن جائے جس کے لئے اللہ تعالٰی نے اپنے فضل وکرم سے پاکستان دنیا کے نقشہ کی زینت بنایا تھا۔

لب لباب

صدر پاکستان! ایمان کی حیثیت ایک رسّی کی ہے جس کا ایک سرا پیدائش سے شروع ہوتا ہے اور موت پر ختم ہوتا ہے۔ جب مسلمان دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے تو رسی ٹوٹ جاتی ہے۔ جب بندہ تجدید ایمان اور تجدید نکاح کرتا ہے تو پھر یہ رسّی جڑ جاتی ہے۔

صدر پاکستان !قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ امت مسلمہ کی اکثریت کے ایمان کی رسّی ٹوٹ چکی ہے اور اسے جوڑنے کی اشد ضرورت ہے وگرنہ ہمیشہ کے لئے جہنم کا مہمان بننا پڑے گا:

ترجمہ سورۃ الواقعہ آیت نمبر56 – 50

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ایک دن مقرر کے وقت پر۔ پھر تم جو ہو اے بہکے ہوؤجھٹلانے والو۔ لا البتہ کھاؤ گے ایک درخت سینڈ کے سے۔ پھر بھرو اس سے پیٹ۔ جپھر پیو گے اس پر جلتا پانیج پھر پیو گے جیسے پیئں اونٹ تونسے ہوئے۔ یہ مہمانی ہے ان کی انصاف کے دن کی۔

دعاؤں میں یاد رکھیں

والسّلام

نصیر عزیز

پرنسپل امن کی پکار

صدر پاکستان! آپ سے گزارش ہے کہ خط کی وصولی کی اطلاع مندرجہ ذیل ای میل پر دیں:

xxxxxxxxxx@gmail.com

Leave a Comment