علم کے حصول کی دعائیں

بسم اللہ الرحمن الرحیم

امن کی پکار

علم کے حصول کے لئے دعائیں

بھائیو اور بہنو

السّلام علیکم

قرآن اللہ کا کلام ہے اور علم کا خزانہ ہے۔ اس لئے جو علم حاصل ہو سکتا ہے وہ اللہ سے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔ علم کے حصول کے لئے کوئی بھی ذریعہ استعمال کیا جائے مثلاً
کتاب کا مطالعہ کرنا، دینی خطبات سننا اور کسی بھی موضوع پر تحریر کرنا خواہ وہ دینی ہو یا

Artistic and Scientific

مندرجہ ذیل دعائیں پڑھنے کے بعد شروع کیا جائے۔

 

بھائیو اور بہنودعاؤں کا ذکر کرنے سے پیشتر یہ جان لینا بھی اہمیت کا حامل ہے کہ علم کیا ہے، علم کہاں سے حاصل ہوتا ہے اور علم کس لئے استعمال ہوتا ہے اور علم سے کیا حاصل ہوتا ہے۔

بھائیو اور بہنوعلم کا منبع جاننے کے لئے ہمیں بنی نوع انسان کی تخلیق کا جائزہ لینا ہو گاکیونکہ تمام بنی نوع انسان حضرت آدم علیہ السّلام کی ذریت ہے اور انہی سے یہ علم انسان کے دل و دماغ میں ودیعت ہوا چلا آ رہا ہے۔

 

بھائیو اور بہنواب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے دادا حضرت آدم علیہ السّلام نے علم کہاں سے حاصل کیا تھا؟

بھائیو اور بہنومختصر یہ کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السّلام کا مٹی سے پتلا بنایا اور اس میں اپنی روح پھونک دی تو للہ تعالیٰ کی صفت چونکہ عالم ہونا بھی ہے تو علم بھی حضرت آدم علیہ السلام کے دل و دماغ میں سرایت کر گیا تھا۔

بھائیو اور بہنوقرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جتنی بھی مخلوقات کی تخلیق کیں ان میں اپنی روح کو پھونکا گیا تھا جس بنأ پر ان کی سرشت میں بھی علم سرایت کر گیا تھا۔جمادات، نباتات، حیوانات میں کس طرح سے علم کا مادہ ودیعت ہے اس کو جاننے کے لئے آپ مضمون: قرآن ہر ذرے میں موجود ہے کا مطالعہ کریں۔

بھائیو اور بہنویہ قدرتی امر ہے کہ ہر مخلوق کی علم کو محفوظ کرنے کی استعداد مختلف ہوتی ہے۔ اسے اس مثال سے سمجھا جا سکتا ہے کہ ایک کلاس میں ساٹھ طالب علم ہیں۔ استاد لیکچر دیتا ہے جو سب طالب علم سنتے ہیں۔ لیکن جب امتحان ہوتا ہے تو کوئی طالب علم فیل ہو جاتا ہے اور کچھ طالب علموں کے نمبر کم آتے ہیں اور ایک طالب علم سو فیصد نمبر لے کر اول آتا ہے۔

بھائیو اور بہنوجب حضرت آدم علیہ السّلام کی تخلیق ہوئی تو سوال نے جنم لیا کہ ان کا درجہ کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے علیم ہونے کے ناطے سے جواب دیا کہ حضرت آدم اشرف المخلوقات ہیں اور تمام مخلوقات کو ان کی خدمت بجا لانی ہے۔ بھائیو اور بہنو یہ قدرتی امر ہے کہ ہر دعویٰ کی دلیل ہوتی ہے۔ قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس بات کو ثابت کرنے کیلئے اللہ نے تمام مخلوقات کے علم کا امتحان لیا جس میں حضرت آدم علیہ السّلام اول آئے۔ جب یہ ثابت کر دیا گیا کہ حضرت آدم علیہ السّلام اشرف المخلوقات ہیں تو اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات کو حکم دیا کہ وہ اس کا اقرار کریں کہ وہ ان کی خدمت بجا لائیں گے اور اس اقرار کی نشانی یہ ہے کہ وہ انہیں سجدہ کریں۔

بھائیو اور بہنومندرجہ بالا تمہید سے یہ معلوم ہو گیا کہ علم کا منبع اللہ کی ذات ہے جس نے علم کو تمام مخلوقات کی سرشت میں ودیعت کیا تاکہ وہ اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو بجا لائے۔

بھائیو اور بہنواب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اب جبکہ علم سرشت میں ودیعت ہو چکا ہے تو پھر تعلیم حاصل کرنے کی کیا ضرورت ہے؟

بھائیو اور بہنویہ قدرتی امر ہے کہ علم کے استعمال کو سیکھنا بھی پڑتا ہے۔ مختصر یہ کہ اللہ تعالیٰ کی صفت عالم ہونا بھی ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہی علم کو مخلوقات کی سرشت میں ودیعت کیا ہے اس لئے اللہ سے ہی علم کو سیکھنا ہوتا ہے۔ انسان اللہ کا خلیفہ ہے اور خلیفہ کو پرنسپل کی طرف رجوع کرنا ہوتا ہے۔ مثلاً: کالج میں پرنسپل ہوتا ہے اور وائس پرنسپل ہوتا ہے۔ وائس پرنسپل کو کالج کا نظام چلانے کے لئے پرنسپل کی طرف رجوع کرنا ہوتا ہے۔

بھائیو اور بہنواس بات کو ثابت کرنے کے لئے کہ بندہ اللہ سے ہی علم سیکھتا ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں متعدد بار ذکر کیا ہے۔

سورۃ البقرۃ آیت نمبر 239

بسم اللہ الرحمن الرحیم

فان خفتم فرجالاً او رکبا نا ج فاذا امنتم فاذکروااللہ

کما علمکم ما لم تکونو تعلمون۔

پھر اگر تم کو ڈر ہو کسی کا تو پیادہ پڑھ لو یا سوار ج

پھر جس وقت تم امن پاؤ تو یاد کرو اللہ کو جس طرح

کہ تم کو سکھایا ہے جس کو تم نہ جانتے تھے۔

سورۃ البقرۃ آیت نمبر 282

بسم اللہ الرحمن الرحیم

۔۔۔ والیکتب بینکم کاتب بالعدل ص

ولا یا ب کاتب ان یکتب کما علمہ اللہ فلیکتب ج

اور چاہیے کہ لکھ دے تمہارے درمیان کوئی لکھنے والا انصاف سے ص

اور انکار نہ کرے لکھنے والا اس سے کہ لکھ دیوے جیسا سکھایا اس اللہ نے

سو اس کو چاہیے کے لکھ دے ج ۔۔۔۔۔

سورۃ النسأ آیت نمبر 113

بسم اللہ الرحمن الرحیم

و انزل اللہ علیک الکتب والحکمۃ و علمک ما لم تکن تعلم ط

و کان فضل اللہ علیک عظیما۔

اور اللہ نے اتاری تجھ پر کتاب اور حکمت اور تجھ کو سکھائیں وہ باتیں جو تو نہ جانتا تھا ط

اور اللہ کا فضل تجھ پر بہت بڑا ہے۔

سورۃ الانعام آیت نمبر 46

بسم اللہ الرحمن الرحیم


قل اریتم ان اخذ اللہ سمعکم و ابصار کم وختم علیٰ قلوبکم من الہ غیر اللہ یا تیکم بہ ط

انظر کیف نصرف الایات ثم ھم یصد فون۔

تو کہہ! دیکھو تو اگر چھین لے اللہ تمہارے کان اور آنکھیں اور مہر کردے تمہارے دلوں پر

تو کون ایسا رب ہے اللہ کے سوا جو تم کو یہ چیزیں لا دیوے ط

دیکھ ہم کیونکر طرح طرح سے بیان کرتے ہیں باتیں پھر بھی وہ کنارہ کرتے ہیں۔

سورۃ الانعام آیت نمبر 105

بسم اللہ الرحمن الرحیم

و کذٰلک نصرف الایات ولیقولوادرست ولنبینہ لقوم یعلمون۔

اور یوں طرح طرح سے سمجھاتے ہیں ہم آیتیں اور تاکہ وہ کہیں کہ تو نے کس سے پڑھا ہے

اور تاکہ واضح کر دیں سمجھ والوں کو۔

سورۃ الاعراف آیت نمبر 203

بسم اللہ الرحمن الرحیم

و اذا لم تاتھم باٰیۃ قالوا لو لا اجتبیتہا ط قل انما اتبع ما یوحیٰ الی من ربی ج

ھذا بصائر من ربکم و ھدی و رحمۃ لقوم یؤمنون۔

اور جب تو لے کر نہ جائے ان کے پاس نشانی تو کہتے ہیں کیوں نہ چھانٹ لایا تو کچھ اپنی طرف سے ط

تو کہہ دے میں چلتا ہوں اس پر جو حکم آئے میری طرف میرے رب سے ج


یہ سوجھ کی باتیں ہیں تمہارے رب کی طرف سے اور

ہدایت اور رحمت ہے ان لوگوں کو جو مؤمن ہیں۔

سورۃ یوسف آیت نمبر 3

بسم اللہ الرحمن الرحیم

نحن نقص علیک احسن القصص بما او حیناالیک ھذاا لقراٰن ق

و ان کنت من قبلہ لمن الغافلین۔

ہم بیان کرتے ہیں تیرے پاس بہت اچھا بیان اس واسطے کہ بھیجا ہم نے تیری طرف یہ قرآن

اور تو تھا اس سے پہلے بے خبروں میں۔

سورۃ النور آیت نمبر 58

بسم اللہ الرحمن الرحیم

۔۔۔ کذٰلک یبین اللہ لکم الایات ط واللہ علیم حکیم۔

یوں کھولتا ہے اللہ تمہارے آگے باتیں
ط

اور اللہ سب کچھ جاننے والا حکمت والا ہے۔

سورۃ الشوریٰ آیت نمبر 52

و کذٰ لک او حینا الیک روحاً من امرنا ط

ما کنت تدری ما الکتٰب ولا الایمان ولٰکن جعلنٰہ نوراً نھدی بہ من نشاء من عبادنا ط

و انک لتھدی الٰی صراط مستقیم۔

اور اسی طرح بھیجا ہم نے تیری طرف فرشتہ اپنے حکم سے
ط

تو نہ جانتا تھا کہ کیا ہے کتاب اور نہ ایمان ولیکن ہم نے رکھی ہے یہ روشنی اس سے راہ سجھاتے

دیتے ہیں جس کو چاہیں اپنے بندوں میں ط اور بے شک تو سجھاتا ہے سیدھی راہ۔

سورۃ رحمٰن

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الرحمٰن۔ لا علم القراٰن۔ ط خلق الانسان۔ لا علمہ البیان۔

رحمٰن نے سکھلایا قرآن۔ ط بنایا آدمی۔ لا پھر سکھلایا اس کو بات کرنا۔

سورۃ العلق

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اقرا باسم ربک الذی خلق۔ ج خلق الانسان من علق۔ ج

اقرا و ربک الاکرم۔ لا الذی علم بالقلم۔ لا علم الانسان ما لم یعلم۔ ط

پڑھ! اپنے رب کے نام سے جو سب کا بنانے والا ہے۔ ج

بنایا آدمی کو جمے ہوئے لہو سے۔ ج
پڑھ! اور تیرا رب کریم ہے۔

لا

جس نے علم سکھایا قلم سے۔ لا سکھلایا آدمی کو جو وہ نہ جانتا تھا۔ ط

 

بھائیو اور بہنوآپ نے ملاحظہ کیا کہ اللہ تعالیٰ علیم ہیں اور عالم ہونے کے ناطے اپنی مخلوقات کو سکھلاتے ہیں۔ اس لئے علم کا حصول کرنے سے پیشتر اللہ سے رابطہ قائم کر لینا ضروری ہے۔ مثال کے طور پر طلبأ کو جب علم کا حصول کرنا ہوتا ہے تو وہ استاد کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ آئیے اب ان آیات کا جائزہ لیں جو کہ علم کے حصول کی شروعات سے پیشتر تلاوت کر لینی چاہیں اور اللہ کے ساتھ رابطہ قائم ہو جائے۔

 

نمبر1سورہ فاتحہ


سورۃ الفاتحہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم
شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔

الحمد للہ رب العالمین۔لاالرحمٰن الرحیم۔لاٰلک یوم الدین۔ ط
ایاک نعبد وایا ک نستعین۔
ط اھد نا الصراط المستقیم۔لا
صراط الذبن انعمت علیھم
لا غیر المغضوب علیھم ولا الضالین۔

سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جو پالنے والا ہے سارے جہان کا۔لا
بے حد مہربان نہایت رحم والا۔
لامالک روز جزا کا۔ ط
تیری ہی ہم بندگی کرتے ہیں اور تجھی سے مدد چاہتے ہیں۔ ط
بتلا ہم کو راہ سیدھی۔
لاراہ ان لوگوں کی جن پر تو نے فضل فرمایالا
جن پر نہ تیرا غصہ ہوا اور نہ وہ گمراہ ہوئے۔

 

نمبر2سورۃ اخلاص تین مرتبہ

سورۃ الاخلاص

بسم اللہ الرحمن الرحیم
شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔

قل ھواللہ احد۔ج اللہ الصمد۔ ج

لم یلد لا و لم یو لد لا ولم یکن لہ کفواً احد۔

تو کہہ!
وہ اللہ ایک ہے۔ ج اللہ بے نیاز ہے۔ ج

نہ کسی کو جنا لا نہ کسی سے جنا ۔ لا اور نہیں اس کے جوڑ کا کوئی۔

 

نمبر3سورۃ رحمٰن کی پہلی چار آیات

سورۃ رحمٰن

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الرحمٰن۔ لا علم القراٰن۔ ط خلق الانسان۔ لا علمہ البیان۔

رحمٰن نے سکھلایا قرآن۔ ط بنایا آدمی۔ لا
پھر
سکھلایا اس کو بات کرنا۔

 

نمبر4سورۃ الم نشرح


سورۃ الم نشرح


بسم اللہ الرحمن الرحیم

الم نشرح لک صدرک۔ لا وو ضعنا عنک وزرک۔ لا

الذی انقض ظھرک۔ لا و رفعنا لک ذکرک۔ ط فان مع العسر یسرا۔ لا

ان مع العسر یسرا۔ ط فاذا فرغت فانصب۔ لا و الیٰ ربک فارغب۔

کیا ہم نے نہیں کھول دیا تیرا سینہ اور اتار رکھا ہم نے تجھ پر سے بوجھ تیرا۔ لا

جس نے جھکا دی تھی تیری پیٹھ۔ لا
اور بلند کیا ہم نے مذکور تیرا۔ ط

سو البتہ مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ لا
البتہ مشکل کے ساتھ آسانی
ہے۔
ط پھر جب فارغ ہو تو محنت کر۔ لا
ور اپنے رب کی طرف دل لگا۔

 

نمبر5سورۃ العلق


سورۃ العلق آیت نمبر 5 – 1


بسم اللہ الرحمن الرحیم

اقرا باسم ربک الذی خلق۔ ج خلق الانسان من علق۔ ج

اقرا و ربک الاکرم۔ لا الذی علم بالقلم۔ لا علم الانسان ما لم یعلم۔ ط


پڑھ اپنے رب کے نام سے جو سب کا بنانے والا ہے۔

ج

بنایا آدمی کو جمے ہوئے لہو سے۔ ج پڑھ اور تیرا رب کریم ہے۔ لا

جس نے علم سکھایا قلم سے۔ لا
سکھلایا آدمی کو جو وہ نہ جانتا تھا۔ط

 

بھائیو اور بہنوآئیے اب جائزہ لیتے ہیں کہ ان آیات کے تلاوت کرنے میں علم کے حصول کے لئے کیا کیا حکمتیں پنہاں ہیں۔

سورۃ الفاتحہ

بھائیو اور بہنوسورۃ الفاتحہ کی خصوصیت یہ ہے کہ احادیث کے مفہوم کی رو سے جو کچھ پورے قرآن میں ہے وہ سورۃ الفاتحہ میں سمویا ہوا ہے اور نماز ادا کرتے ہوئے سورۃ الفاتحہ کی تلاوت لازم ہے۔بھائیو اور بہنوسورۃ الفاتحہ کی نماز میں تلاوت کرنے کی حکمت سمجھ میں آتی ہے کہ پورے قرآن میں روزمرہ کی زندگی کے لئے ہدایات موجود ہیں جن کا علم حاصل کرنے سے نماز ادا کی جاتی ہے اور نماز کو قائم کیا جاتا ہے۔

سورۃ اخلاص

بھائیو اور بہنواللہ کی ذات یکتا ہے۔ جب بندہ سورۃ اخلاص کی تلاوت کرتا ہے تو وہ شرک کی نفی کرتا ہے۔ چونکہ اللہ کی ذات یکتا ہے اس لئے اللہ سے ہی علم کا حصول ہو سکتا ہے۔

سورۃ الرحمٰن

بھائیو اور بہنوسورۃ الرحمٰن کی خصو صیت احادیث کے مفہوم کے مطابق یہ ہے کہ روز محشر میں جب تمام بنی نوع انسان کے فیصلے ہو چکے گے اور جنتی جنت میں آباد ہو جائیں گے تو اللہ کی ذات عالی کا دیدار ہوگا اور اللہ تعالیٰ سورہ الرحمٰن کی تلاوت فرمائیں گے۔بھائیو اور بہنو! علمائے کرام فرماتے ہیں کہ سورۃ الرحمٰن کا آغاز اللہ تعالیٰ کی صفت سے ہوتا ہے اور اللہ کے کلام یعنی قرآن پاک کا ذکر ہے اور پھر انسان کی تخلیق کا ذکر ہے اور اس کو علم سکھلانے کا ذکر ہے۔ اس لئے علم کا حصول شروع کرنے سے پیشتر سورۃ الرحمٰن کی پہلی چار آیتوں کی تلاوت کر لینی چاہیے جس سے کائنات کے راز افشاں ہوتے چلے جائیں گے۔

سورۃ الم نشرح

بھائیو اور بہنوقرآن پاک میں ذکر ہے کہ جب اللہ چاہتے ہیں کہ ان کا بندہ دین اسلام کی تعلیمات حاصل کرے تو اس کا سینہ کھول دیتے ہیں۔

سورۃ الانعام آیت نمبر 125

فمن یرد اللہ ان یھد یہ یشرح صدرہ للاسلام ج

سو جس کو اللہ چاہتا ہے کہ ہدایت کرے تو کھول دیتا ہے اس کے سینہ کو

واسطے قبول کرنے اسلام کے ج

 

بھائیو اور بہنوعلمائے کرام فرماتے ہیں کہ سورۃ الم نشرح کا شان نزول یہ ہے کہ چونکہ وحی کا دل و دماغ میں سمانا بہت بھاری ہوتا تھا کہ علوم اس میں سما سکیں تو اللہ تعالیٰ نے فضل و کرم کیا اور آپ صل اللہ علیہ وسلم کا سینہ کشادہ کر دیا کہ وحی الٰہی کے انوارات اس میں سما سکیں۔بھائیو اور بہنومؤمن جب بھی کائنات کا مشاہدہ کرتا ہے، کتب کا مطالعہ کرتا ہے، بحث میں حصہ لیتا ہے یا تقریر سنتا ہے تو اسے علم کو اپنے دل و دماغ میں سمونا ہوتا ہے جس کے لئے اسے سینہ کی کشادگی کی ضرورت ہوتی ہے۔

سورۃ العلق

بھائیو اور بہنوسورۃ العلق کی پہلی پانچ آیات وحی کا آغاز ہیں جن میں پڑھنے کا ذکر ہے جو کہ علم کے حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔



بھائیو اور بہنوآپ مندرجہ بالا آیات کا غور سے مطالعہ کریں تو آپ کو نظر آئے گا کہ علم کے حصول کے لئے یہ بہترین دعائیں ہیں۔ الحمد للہ
امن کا پکار کا سارا مواد مندرجہ بالا دعاؤں کا مرہون منت ہے۔بھائیو اور بہنویہ قدرتی امر ہے کہ کہ جب بندہ لکھ رہا ہوتا ہے تو ایسا مقام بھی آتا ہے کہ مواد کی آمد رک جاتی ہے۔ ایسے مقام پر ایک مرتبہ پھر مندرجہ بالا آیات کی تلاوت کی جائے۔ اگر تمام آیات نہیں تو کم از کم سورۃ رحمٰن، سورۃ الم نشرح اور سورۃ العلق کی آیات تلاوت کر لیں۔ بندہ ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے جہاں سورۃ العلق کی آیت نمبر 5 کی ضرورت ہوتی ہے

سکھلایا آدمی کو جو وہ نہ جانتا تھا

بھائیو اور بہنو

اس دعا کی اپنے رشتہ داروں اور دوستوں میں اشاعت کریں۔


دعاؤں میں یاد رکھیں

والسّلام

نصیر عزیز

پرنسپل امن کی پکار


Leave a Comment