تجدید ایمان/نکاح

بسم اللہ الرحمن الرحیم


امن کی پکار

تجدید ایمان اور تجدید نکاح

بھائیو اور بہنو

السّلام علیکم

بھائیو اور بہنو تجدید ایمان اور تجدید نکاح کا عنوان آپ کے لئے حیران کن بھی ہو سکتا ہے کیونکہ جب بندہ اللہ کے فضل وکرم سے اللہ تعالٰی کی ذات یکتا پر ایمان رکھتے ہوئے نیک اعمال کرتا ہے تو تجدید ایمان کی کیوں ضرورت پیش آتی ہے۔ تاہم چونکہ ایک مسلمان نفس اور شیطان کے زیر اثر اللہ تعالٰی کی نافرمانی کا مرتکب ہو جاتا ہے تو اس کے لئے اللہ تعالٰی نے اپنے فضل و کرم سے توبہ و استغفار کا دروازہ کھلا رکھا ہے۔قرآن و حدیث کی روشنی میں مسلمان اللہ تعالٰی کا نافرمان ہونے کی وجہ سے گنہگار تو ہوتا ہے لیکن دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا۔ اسی طرح قاری صاحب جب مرد اور عورت کو ان کی باہمی رضامندی سے نکاح کے بندھن میں باندھ دیتے ہیں تو یہ عمر بھر کا بندھن ہوتا ہے تو اس کے لئے تجدید نکاح کی کیوں ضرورت ہے۔ تاہم اگر شوہر اور بیوی میں کسی وجہ سے نباہ نہ ہو سکے تو طلاق کے ذریعے نکاح کا بندھن ٹوٹ جاتا ہے۔

بھائیو اور بہنو علمائے کرام فرماتے ہیں کہ شیطان انسان کا دشمن ہے۔ چونکہ اللہ تعالٰی نے اسے کافر قرار دے دیا ہے تو اس کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ مسلمان بھی نہ جانتے ہوئے دائرہ اسلام سے نکل جائیں جس کی وجہ سے اگر وہ نیک اعمال کرتے بھی ہوں گے تو وہ اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں قبول نہیں ہوں گے اور وہ بھی اس کے ساتھ جہنم کا ایندھن بنیں گے جس کا ذکر قرآن پاک میں ہے جو اللہ کا کلام ہے۔

ترجمہ سورۃالاعراف آیت نمبر 18

بسم اللہ الرحمن الرحیم

کہا نکل یہاں سے برے حال سے مردود ہو کر ط جو کوئی ان میں سے تیری راہ پر چلے گا تو میں ضرور بھر دوں گا دوزخ کو تم سب سے۔

بھائیو اور بہنو علمائے کرام فرماتے ہیں کہ مسلمان رسم و واج، ماحول، فضا اور اللہ تعالٰی سے لا شعوری طور پر بے خوف ہوتے ہوئے ایسے الفاظ یا ایسا کلمہ بول دیتا ہے جو اسے دائرہ اسلام سے باہر کر دیتا ہے جس کی وجہ سے اس کے نیک اعمال یعنی حقوق اللہ اور حقوق العباد اللہ کی بارگاہ میں قبول نہیں ہوتے۔ اگر زندگی کے کسی موڑ پر اسے اپنے دائرہ اسلام سے باہر ہونے کا احساس نہیں ہوتا تو اس کا ٹھکانہ ہمیشہ کے لئے جہنم قرار پاتا ہے۔ تاہم اگر اسے احساس ہو جاتا ہے کہ فلاں وقت اس کی زبان سے جو کلمہ نکلا تھا اس کی وجہ سے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو چکا ہے تو اگر وہ غیر شادی شدہ ہے تو اسے تجدید ایمان کرنا لازم ہوتا ہے اور اگر وہ شادی شدہ ہے تو شوہر اور بیوی کو تجدید ایمان اور تجدید نکاح کرنا لازم ہوتا ہے۔

بھائیو اور بہنو سوال جنم لیتا ہے کہ کون سے ایسے کلمات اور اعمال ہیں جو مسلمان کو دائرہ اسلام سے خارج کر دیتے ہیں؟

بھائیو اور بہنو ذیل میں شیخ ذوالفقار احمد دامت برکاتہ کے بیان کا اقتباس پیش خدمت ہے۔ آپ سے گزارش ہے کہ اس اقتباس کا غور وخوض سے مطالعہ کریں اور جائزہ لیں کہ ایسا تو نہیں کہ آپ دائرہ اسلام سے خارج ہو چکے ہیں۔ علمائے کرام فرماتے ہیں کہ جب انسان دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے توشادی شدہ لوگوں کے نکاح فسخ ہو جاتے ہیں۔

اقتباس

دائرہ اسلام سے خارج ہو جانا

۔۔۔۔۔۔۔ایسا ایمان ہو، جو انسان اپنے آپ کو اللہ کے عرش کے سامنے دیکھے اوریہ دیکھے کہ اچھے اعمال کروں گا تو جنت میں جاؤں گا اور برے اعمال کروں گا تو بالآخر جہنم کے اندر جلوں گا۔ آج یہ ایمان گنوا دینا بہت آسان ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں سے انسان اپنا ایمان گنوا بیٹھتا ہے۔ یہ بات توجہ سے سن لیں چونکہ جب چیز کی اہمیت سامنے ہو پھر انسان اسے ضائع ہونے سے بچا لیتا ہے۔ اور اگر اس چیز کی اہمیت سامنے نہ ہو تو پھر انسان اس چیز کو ضائع کر بیٹھتا ہے۔ تو ہمارے دلوں میں ایمان کی ایک اہمیت ہونی چاہیے پھر ہم اس کو ضائع ہونے سے محتاط رہیں گے۔اور پتہ ہے ایمان ضائع ہونے کے بعض ایسے کلمات ہیں جو آجکل کئی لوگ بول جاتے ہیں اور ان کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ ہم کیا کہہ رہے ہیں۔ چنانچہ نقل کفر کفر نہ باشد۔ وہ چند کلمات جن سے انسان دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے، سن لیں۔

نمبر1جیسے کسی بندے نے پوچھا کہاں رہتے ہو۔ دوسرے نے جواب دیا، وہ فلاں جگہ۔ پہلے نے کہا خدا کے پچھواڑے۔ جس نے یہ کہا خدا کے پچھواڑے۔ ان الفاظ کے کہنے سے وہ بندہ کافر ہو گیا۔خدا کا پچھواڑہ تو کہیں ہو نہیں سکتا۔ توبات کرنا آسان ہے۔ اس لئے شیطان ایسے الفاظ زبان سے نکلوا دیتا ہے، کہیں غصے میں کہیں تکبر سے۔

نمبر2حضرت قاضی ثنأ پانی پتی رحمتہ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں۔ اگر کسی نے کہا کہ حضرت آدم علیہ السّلام گندم نہ کھاتے تو میں بد بخت نہ ہوتا۔ ایسے کہنے سے بندہ کافر ہو جاتا ہے۔

نمبر3کسی نے کہا نماز پڑھ۔اس نے آگے سے جواب دیا۔ نماز اکیلی (یعنی نماز اکیلے پڑھنا، نہ کہ جماعت کے ساتھ)۔ کافر ہو گیا۔ کیونکہ اس نے قرآن کی آیت کا غلط مطلب لیا۔

ترجمہ سورۃالعنکبوت آیت نمبر45

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ان الصلٰواۃ تنھٰی عن الفحشاء والمنکر ط

بیشک نماز روکتی ہے بے حیائی اور بری بات سے ط

نمبر4اگر ایک آدمی نے دوسرے پر ظلم کیا۔ مظلوم نے کہا کہ اے اللہ تو اس بندے سی انتقام لے۔ اس کو معاف نہ کر۔ اللہ تو اسے معاف کرے گا، میں معاف نہیں کروں گا۔ یہ کہنے سے بندہ کافر ہو گیا۔

نمبر5اگر کہا میں ثواب اور عذاب سے بیزار ہوں۔ کہنے والا کافر ہو گیا۔

نمبر6اگر کسی نے بسم اللہ پڑھ کر شراب پی، زنا کیا۔ کافر ہو گیا۔

نمبر7اگر رمضان کا مہینہ آیا اس نے کہا مصیبت سر پر آگئی، کافر ہو گیا۔

نمبر8اگر کسی نے کسی کو بتایا کہ اللہ کا حکم ایسے ہے اور دوسرے نے آگے سے کہا کہ میں خدا کے حکم کو کیا جانتا ہوں۔ کافر ہو گیا۔

نمبر9اگر کسی نے آرزو کی اور یہ بات کہی کہ کاش زنا حلال ہوتا اور قتل کرنا حلال ہو۔ کہنے والا کافر ہو گیا۔

نمبر10بندگی بندگی ہے۔ شریعت کا احترام اپنی جگہ۔اس لئے علمأ نے لکھا کہ کسی نے کہا کہ یہ شریعت کی بات ہے۔ اگلے نے آگے سے کہا کہ رکھ پرے شریعت کو۔ کہنے والا کافر ہو گیا۔

نمبر11اگر کسی نہ کہا کہ اگر فلاں نبی ہوتا تو ایمان نہ لاتا۔ کافر ہو گیا۔ کوئی آسان کام نہیں کہ نبوت کوہم اتناہلکا سمجھیں۔

نمبر12اگر مال حرام سے صدقہ کیا اور ثواب کی امید رکھی۔ کافر ہو گیا۔

نمبر13اگر فقیر کو پتہ ہے کہ اس نے مال حرام سے مجھے دیا ہے۔ صدقہ دینے والے کے لئے فقیر نے دعا کی۔فقیر کافر ہو گیا۔

نمبر14اگرکسی مرد نے عورت سے کہا کہ تو مرتد ہو جا تو شوہر سے خود بخود تجھے طلاق ہوجائیگی۔ کافر ہو گیا۔

نمبر15اگر کہامجھے علمی مجالس سے کیا سرو کار۔ کافر ہو گیا۔علمأ کا استخفاف کرنا علم کا استخفاف ہے۔ اور علم کا استخفاف کرنا دین کا استخفاف ہے۔

نمبر16اگر کسی نے کہاکہ پیسہ چاہیے، علم کس کام کا۔ کافرہو گیا۔

نمبر17اگر کہاکہ یہ جو علم سکھاتے ہیں مدارس میں یہ تو داستانیں ہیں۔ کافر ہو گیا۔

نمبر18ایک بندے کو کسی نے قرض دیا تھا۔ اس نے کہا مجھے میرا پیسہ یہیں دے دو۔ مجھے آخرت میں نہیں چاہیے۔ اس نے جواب میں کہا کہ اور بھی ہے تو دے دو آخرت میں لے لینا۔ کافر ہو گیا۔ یہ آخرت کے عذاب کو اتنا ہلکہ سمجھتا ہے کہ کہتا ہے کہ میں آخرت کا عذاب بھگت لوں گا۔

نمبر19حرام قطعی کو حلال کہا تو کافر ہو گیا۔

نمبر20اگر کوئی کہے میں مسلمان ہوں اور آگے سے جواب دیا کہ تجھ پر اور مسلمانوں پر لعنت۔ کافر ہوگیا۔

نمبر21ایک شخص نے اذان دی۔ دوسرے نے کہا جھوٹ بولتا ہے۔ کافر ہو گیا۔

نمبر22اگر پیغمبر اسلام پر کسی نے چھوٹا سا عیب بھی نکالا، کافر ہو گیا۔ (انبیائے کرام معصوم ہوتےہیں)

نمبر23اگر کسی نے کسی کو کہا کہ کافر ہو جا۔ اس نے جواب دیا، ہاں،میں کافر ہو گیا۔ یہ کہنے سے کافرہو گیا۔

نمبر24اگر کہا کہ یہ لڑکی، یہ عورت یا بیوی اللہ سے بھی زیادہ محبوب ہے۔ کافر ہو گیا۔

نمبر25اگر کسی نے کہا کہ آسمان پر میرا خدا اللہ ہے اورزمین پر تو ہے۔ کافر ہو گیا۔

نمبر26اگر کسی نے کہا کہ پہلے تو خدا جلد دعائیں سن لیتا تھا۔ اب معلوم نہیں کہاں گیا۔ میں نے بھی نمازیں پڑھنی چھوڑ دیں۔ کافر ہو گیا۔

نمبر27اگر کسی کے پیٹ میں درد ہوا اور اسے کہا کہ آنتیں قل ھواللہ۔۔۔ پڑھ رہی ہیں، کافر ہو گیا۔

بھائیو اور بہنو اس سے معلوم ہوا کہ ایمان کی اہمیت جن کے دل میں بیٹھ جائے گی وہ بہت محتاط گفتگو کرنے والے لوگ ہوں گے۔ کوئی ایسی بات نہیں کریں گے جس سے ایمان کے اندر کوخلل آ جائے۔

اقتباس تمام ہوا۔

بھائیو اور بہنو مندرجہ بالا اعمال اور کلمات میں مندرجہ ذیل اعمال بہت اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ امت مسلمہ ان پر توجہ نہیں دیتی۔

نمبر1اگر مال حرام سے صدقہ کیا اور ثواب کی امید رکھی۔ کافر ہو گیا۔

  نمبر2اگر فقیر کو پتہ ہے کہ اس نے مال حرام سے مجھے دیا ہے۔ صدقہ دینے والے کے لئے فقیر نےدعا کی۔ فقیر کافر ہو گیا۔

بھائیو اور بہنو آج کے دور میں حرام آمدنی کے ذرائع کی بہتات ہے۔مثلاً سودکاری، ملاوٹ، دھوکہ دہی، رشوت، جوأ کاری، وغیرہ وغیرہ۔ لوگ ان آمدنی کے ذرائع میں سے اللہ کے راستے میں بھی خرچ کرتے ہیں، زکواۃ دیتے ہیں، حج کرتے ہیں، وغیرہ اور شعوری یا لاشعوری طور پر اللہ تعالٰی سے اجرو ثواب کی امید بھی رکھتے ہیں۔

بھائیو اور بہنو علمائے کرام کے بیانات کی روشنی میں جو کہ قرآن اور حدیث کی تعلیمات پر مبنی ہوتے ہیں مندرجہ ذیل عقائد اور نظریات کے پیش نظر مسلمان دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔

نمبر1اللہ تعالٰی کی ایک صفت کا انکار کرنے سے مسلمان دائرہ اسلام سے نکل جاتا ہے۔

نمبر2الحمد للہ اللہ تعالٰی نے بنی نوع انسان کو گمراہی کے راستے سیدھے راستے کی طرف لانے کے لئے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرام مبعوث فرمائے ہیں جن میں سے صرف 25 انبیائے کرام کا ناموں کا قرآن پاک میں ذکر ہے۔ اگر کوئی مسلمان یہ کہتا ہے کہ میں ایک نبی پر ایمان نہیں لاتا جس کا نام قرآن پاک میں مذکور نہیں ہے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔

نمبر3قرآن پاک کی ایک آیت کا انکار کرنا مسلمان کو دائرہ اسلام سے خارج کر دیتا ہے۔

مشاہدہ

بھائیو اور بہنو علمائے کرام اس بات کی دلیل دیتے ہیں کہ کس طرح سے اللہ کی ایک صفت کا انکار، ایک نبی کی نبوت پر ایمان نہ لانا اور قرآن پاک کی ایک آیت کا انکار کرنا کس طرح مسلمان کو دائرہ اسلام سے خارج کردیتا ہے۔ دلیل ایک مثال پر مبنی ہے۔

نمبر1اعداد و شمار ہیں 0,1,2,3,4,5,6,7,8,9,10

نمبر2اگر ان میں سے ایک بھی عدد، مثلاً، 3 کو حذف کر دیا جائے گا تو باقی اعداد بے معنی ہو جائیں گے۔

بھائیو اور بہنو اسی طرح اگر اللہ کی ایک صفت کا بھی انکار کیا جائے، ایک نبی کی بعثت کا انکار کیا جائے، قرآن پاک کی ایک آیت کا انکار کیا جائے تو ایمان نامکمل ہو جاتا ہے۔ جس مسلمان کا ایمان نا مکمل ہو جاتا ہے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔

بھائیو اور بہنو علمائے کرام فرماتے ہیں کہ الحمد للہ دین اسلام مکمل ہو چکا ہے۔

سورۃ المائدہ آیت نمبر 3

بسم اللہ الرحمن الرحیم

۔۔۔۔۔۔۔الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دین ط۔۔۔۔۔۔۔

آج میں پورا کر چکا تمہارے لئے دین تمہارا اور پورا کیا تم پر میں نے احسان اپنا اور پسند کیا میں نے تمہارے واسطے اسلام کو دین۔

بھائیو اور بہنو علمائے کرام فرماتے ہیں کہ چونکہ اللہ تعالٰی نے اپنے فضل و کرم سے دین اسلام کو مکمل کر دیا ہے اس لئے اگر کوئی مسلمان ذرہ برابر بھی دین اسلام میں ہیر پھیر کرتا ہے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ اس ضمن میں اللہ تعالٰی نے قرآن پاک میں اہل یہود کا ذکر کیا ہے کہ وہ نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے اللہ کی کتاب میں تحریف کر دیا کرتے تھے۔

ترجمہ سورۃ البقرۃ آیت نمبر 79

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سو خرابی ہے ان کو جو لکھتے ہیں کتاب اپنے ہاتھ سے پھر کہہ دیتے ہیں یہ خدا کی طرف سے ہے تاکہ لیویں اس پر تھوڑا سا مول ط سو خرابی ہے ان کو اپنے ہاتھ کے لکھے سے اور خرابی ہے ان کو اپنی کمائی سے۔

بھائیو اور بہنو
الحمد للہ آپ نے ایمانداری اور دیانتداری سے اپنا محاسبہ کیا ہوگا کہ آیا آپ کی زبان سے کوئی ایسا کلمہ تو نہیں نکل گیا جس کی وجہ سے آپ دائرہ اسلام سے خارج ہو گئے ہوں یا کوئی ایسا عمل سرزد ہوگیا ہو جس کی وجہ سے آپ دائرہ اسلام سے خارج ہو گئے ہوں۔ اللہ تعالٰی کی بارگاہ سے امید ہے کہ آپ کو تجدید ایمان اور تجدید نکاح کرنے کی توفیق مل گئی ہوگی۔

بھائیو اور بہنو علمائے کرام فرماتے ہیں کہ دائرہ اسلام سے خارج ہونے کے کے بعد اگر تجدید ایمان یا تجدید نکاح نہ کیا جائے گا تو ہمیشہ کے لئے جہنم ان کی مہمان نوازی کرتی رہے گی۔ لیکن چند اعمال ایسے ہیں جن کی وجہ سے نیک اعمال بھی اللہ کی بارگاہ میں قبولیت کے لئے پیش نہیں کئے جاتے۔ اگر ان اعمال پر توبہ و استغفار نہیں کئی گئی ہوگی تو تو نفس کے تزکیہ کے لئے ایک لمبے عرصہ تک جہنم میں جلتے رہنا ہوگا۔ اس ضمن میں مولانا منظور یوسف دامت برکاتہ کے بیان کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے۔ مولانا منظور یوسف کا بیان 45 منٹ پرمشتمل تھا۔ان کا بیان ویب سائٹ یو ٹیوب پر سنا جا سکتا ہے۔

خلاصہ بیان مولانا منظور یوسف دامت برکاتہ

سات لوگوں کے مردود عمل

Website: www.youtube.com

7 Logon Ke Amal Mardood By Maulana Manzoor Yousuf Sahab

محترم میرے بھائیو، دوستو، بزرگو اور میری ماؤں اور بہنو،انسان جو نیک اعمال کرتا ہے یہ نیک اعمال اللہ تبارک وتعالٰی کی طرف بلند ہوتے ہیں اور فرشتے عمل صالح کو یہاں سے لے کر اللہ تعالٰی کے پاس پہنچتے ہیں۔ چنانچہ قرآن پاک میں ارشاد ہے آیت۔۔۔۔۔ کہ انسان کے جسم سے جو نیک اعمال نکلتے ہیں وہ اللہ کی طرف بلند ہوتے ہیں اور آدمی کی زبان سے تسبیح کے، اللہ کی تعریف کے، اللہ کی تقدیس کے اور تمحید کے کلمات نکلتے ہیں یہ کلمات بھی اللہ کی طرف بلند ہوتے ہیں اور وہ فرشتے جو انسانوں کے اعمال پر مقرر ہیں وہ فرشتے انسانوں کے ان اعمال کو لے کر اللہ تبارک و تعالٰی کے پاس جاتے ہیں۔ لیکن کچھ لوگ ایسے ہیں جن لوگوں کے اعمال اللہ پاک کی طرف بلند نہیں ہوتے۔ فرشتے ان اعمال کو لے کر آسمانوں کی طرف لے جاتے ہیں لیکن آسمانوں پر روک دئیے جاتے ہیں اور وہ سارے کے سارے اعمال لپیٹ کر اس عمل کرنے والے انسان کے منہ پر مار دئیے جاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ تیرے اعمال کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں ہے اور تیرا عمل قابل قبول نہیں ہے۔

رسول اکرم صل اللہ علیہ وسلم کی ایک طویل حدیث ہے۔ اس حدیث کا ذکر کرتا ہوں۔

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس ایک آدمی آئے اور انہوں نے آ کر سوال کیا، آپ مجھے نبی صل اللہ علیہ وسلم کی کوئی ایسی حدیث سنائیں جو آپ نے نبی صل اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو۔

حضرت معاذ رضی اللہ تعالٰی عنہ رونے لگے۔ راوی کہتے ہیں کہ اس قدر روئے، اس قدر روئے کہ خیال ہو رہا تھا کہ اب تو چپ نہیں ہوں گے، اب تو خاموش نہیں ہوں گے۔ اتنا روئے کہ مجمعے کو بھی رلا دیا۔ خاموش ہوئے تو پھر رسول پاک صل اللہ علیہ وسلم کا ایک جملہ ایک فرمان نقل فرمایا اور ارشاد فرمایا جس کا مفہوم ہے۔ اے معاذمیں تجھے ایک ایسی بات بیان کرتا ہوں، اگر آپ نے اسے یاد کرلیا اور محفوظ کر لیا اور اس پر عمل کیا تو یاد رکھنا یہ تجھے فائدہ دے گی۔ اور اگر تو نے اسے یاد نہ کیا، عمل بھی نہ کیا، یاد رکھنا اللہ پاک کی حجت تیرے اوپر تمام ہو جائے گی۔ قیامت کے دن تو کوئی عذر نہیں کر سکے گا کہ مجھے کسی بات کا پتہ نہیں چلا تھا۔

پھر رسول پاک صل اللہ علیہ وسلم نے وہ بات ذکر فرمائی اور ارشاد فرمایا

اللہ پاک نے آسمان اور زمین کی تخلیق سے پہلے سات فرشتوں کو پیدا فرمایا اور اس کے بعد اللہ پاک نے آسمانوں کو پیدا فرمایا، زمینوں کو پیدا فرمایا۔ پھر ان سات فرشتوں میں سے ہر ایک فرشتے کو ایک ایک آسمان کا نگہبان مقرر فرمایا، محافظ مقرر فرمایا۔ یہ جو محافظ اور نگہبان ہے یہ کیا کرتا ہے۔ جب زمین سے اعمال اوپر بلند ہوتے ہیں اور دیگر فرشتے جو اعمال پر مقرر ہیں وہ انسانوں کے اعمال لے کر جب آسمانوں کی طرف جاتے ہیں تو یہ محافظ فرشتے ہر ہر آسمان پر ان اعمال کو چیک کرتے ہیں، دیکھتے ہیں، ان اعمال کی جانچ پڑتال کرتے ہیں، تفتیش کرتے ہیں کہ کس قسم کے اعمال لے کر آئے ہیں۔ وہ اعمال جانے دیتے ہیں جو اللہ کی رضا کے لئے کئے گئے ہوں۔ اور وہ اعمال نہیں جانے دیتے جو دکھلاوے کے لئے گئے کئے ہوں۔

پہلا آسمان

آپ صل اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا کہ حفظہ کی جماعت جب انسانوں کے اعمال لے کر آسمانوں کی طرف بلند ہوتی ہے، ایک انسان کے اعمال پہلے آسمان پر یہ جماعت پہنچتی ہے تو پہلے آسمان کے دروازے پر دستک دیتی ہے۔ پہلے آسمان کا جو نگہبان فرشتہ ہے وہ ان سے سوال کرتا ہے کہ یہ کس کے اعمال ہیں۔ تو فرشتے بتلاتے ہیں کہ یہ فلاں ابن فلاں کے اعمال ہیں۔ وہ نگہبان فرشتہ کہتا ہے کہ اللہ پاک نے اسے اس بات پر مقرر کیا ہے کہ میں ایسے انسان کے اعمال اوپر نہ جانے دوں جو لوگوں کی غیبت کیا کرتا تھا۔ہاں ان اعمال کو لے جاؤ اور جو اعمال کرنے والا ہے اس کے منہ پر مار دو اور اس کو کہہ دو کہ ان اعمال کی ضرورت نہیں ہے، یہ لوگوں کا گوشت کیوں کھایا تو نے، یہ لوگوں کی غیبت تو نے کیوں کی؟ نماز، تلاوت قرآن،صدقہ کی عبادت کی۔ اگر یہ گناہ تمہارے اندر موجود ہے، غیبت کرنا، تو یہ اعمال روک دئیے جائیں گے۔

میرے عزیز دوستو اور بزرگو ہر آدمی اپنی زندگی کا جائزہ لے کہ ہم سمجھتے رہے کہ کہ ہم نے بڑا ذخیرہ بھیچ دیا ہے، ہم تو خیال کرتے رہے کہ ہم نے بہت اعمال بھیج دئیے ہیں اور جب ہم خود آخرت میں پہنچے تو پتہ چلا کہ ہمارا تو کوئی عمل گیا ہی نہیں ہے۔

دوسرا آسمان

پھر رسول پاک نے بتلایا کہ ایک اور انسان کے اعمال فرشتے لے کر جاتے ہیں اور پہلے آسمان سے گزر جاتے ہیں۔ دوسرے آسمان کا محافظ فرشتہ روک لیتا ہے اور کہتا ہے کہ ان اعمال کو آگے لے جانے کی اجازت نہیں۔ وہ یہ اعلان کرتا ہے کہ اللہ پاک نے مجھے مقرر کیا ہے کہ میں ہر اس آدمی کے اعمال کو نہ جانے دوں جو اعمال صالحہ کے ذریعے سے دنیا کمایا کرتا تھا، دنیا کی شہرت طلب کیا کرتا تھا۔ ایسے انسان کے اعمال کو بھی اوپر نہیں جانے دیا جائے گا۔

تیسرا آسمان

پھر حدیث میں آتا ہے کہ فرشتے ایک انسان کے اعمال کو لے کر تیسرے آسمان پر پہنچتے ہیں۔ وہاں نگہبان فرشتہ یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالٰی نے مجھے اس بات پر مقرر کیا ہے کہ متکبر انسان کے اعمال کو آگے نہ جانے دیا جائے۔ یہ وہ انسان ہے جو اپنے آپ کو بڑا سمجھتا تھا اور دوسروں کو حقیر سمجھتا تھا۔ آپ صل اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے جس کا مفہوم ہے کہ جس کے دل میں رائی کے برابر بھی تکبر ہو گا اللہ تعالٰی اسے جنت میں داخل نہیں فرمائیں گے۔

چوتھا آسمان

پھر آپ صل اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس کا مفہوم ہے کہ فرشتے ایک انسان کے اعمال کو چوتھے آسمان پر لے کر جائیں گے تو نگہبان فرشتہ اس لئے روک دے گا کہ اس انسان کے اعمال آگے نہیں جا سکتے کیونکہ یہ غرور میں مبتلا تھا۔

غرور اور تکبر میں تھوڑا سا فرق ہے۔ تکبر یہ ہوتا ہے کہ آدمی اپنے آپ کو بڑا سمجھے اور دوسروں کو حقیر سمجھے۔ غرور یہ ہوتا ہے کہ انسان کے پاس اعمال صالحہ کا ذخیرہ ہوتا ہے اور وہ ان اعمال صالحہ پر اترانے لگتا ہے۔ اترانا چاہے مال کی بنیاد پر ہو، یا اعمال کی بنیاد پر ہو، یا حسب اور نسب کی بنیاد پر ہو۔

پانچواں آسمان

حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ فرشتے ایک انسان کے اعمال پانچویں آسمان پر لے کر پہنچیں گے تو نگہبان فرشتہ اس بنیاد پر اعمال کو آگے لے جانے سے روک دے گا کہ یہ انسان لوگوں سے حسد کیا کرتا تھا۔ آپ صل اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس کا مفہوم ہے کہ کسی مسلمان کی دل میں کھوٹ رکھنا اور کسی مسلمان سے حسد کرنا انسان کے اعمال کو برباد کر دیتا جس طرح آگ لکڑیوں کو برباد کر دیتی ہے۔

چھٹا آسمان

حدیث پاک میں آتا ہے کہ فرشتے ایک انسان کے اعمال کو لے کر چھٹے آسمان پر پہنچیں گے۔ نگہبان فرشتہ کہے گا کہ اس کے اعمال اس لئے روک دئیے گئے ہیں کہ یہ لوگوں پر رحم نہیں کیا کرتا تھا۔ کسی انسان پر بیماری آ جائے، کسی انسان پر دکھ درد اور مصیبت آجائے تو یہ مصیبت، دکھ، درد کو دور کرنے کی کوشش اور محنت نہیں کیا کرتا تھا۔ مشکل میں کسی کے کام نہ آنا بہت بڑا جرم ہے۔ فرشتہ کہے گا کہ اس کا دوسرا جرم یہ ہے جب مسلمان بھائیوں، رشتہداروں پر مصیبت آتی تھی تو یہ مصیبت دیکھ کر خوش ہوا کرتا تھا۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں کسی مسلمان کی تکلیف پر خوش ہونا نفاق کی علامت ہے۔

ساتواں آسمان

حدیث پاک کا مفہوم کے فرشتے ایک انسان کے اعمال تمام آسمانوں نے گزر کر ساتویں آسمان پر پہنچیں گے۔ گویا وہ انسان غیبت، اعمال صالحہ سے دنیا کمانا، تکبر، غرور، حسد، بے رحمی کے گناہوں سے مبرا ہے۔ ساتویں آسمان پر اس لئے روک دئیے جائیں کہ اس کے ہر عمل میں دکھلاوا ہوتا تھا، ریاکاری ہوتی تھی۔

ایک اور حدیث پاک کا مفہوم ہے پھر ایک ایسا انسان کے اعمال لے کر فرشتے ساتوں آسمانوں کی بلندیوں کو پار کر جائیں گے۔ ساتویں آسمان کے فرشتے بھی ان فرشتوں کے ساتھ مل جائیں گے اور لاکھوں کی تعداد میں فرشتے وہ اعمال لے کر چل رہے ہوں گے۔ اعمال نورانی ہوں گے کہ ان کا نور سورج کی چمک سے بھی زیادہ ہوگا۔ فرشتے جب اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں پہنچیں گے تر اللہ تعالٰی فرمائیں گے جس کا مفہوم ہے کو اس انسان کے اعمال کو رد کر دو۔

فرشتے عرض کریں گے یا اللہ! اس انسان نے تو اعمال تیری رضا کے لئے کئے ہیں۔


اللہ پاک ارشاد فرمائیں گے جس کا مفہوم ہے کہ اے فرشتو تمہیں تو میں نے مقررکیا تھا اس بندے کے اعمان لکھنے پر۔ تم نے لکھ لیا۔ لیکن میں خود نگہبان ہوں اس کے دل کا۔ دل کے حالات تو تمہیں معلوم نہیں کہ اس کے دل میں کیا ہے۔ اس کے دل میں ریاکاری موجود ہے، اس کے دل میں تکبر موجود ہے اور اس کے دل میں اعمال کا دکھلاوا موجود ہے۔ پھر اللہ پاک ارشاد فرمائیں گے جس کا مفہوم ہے کہ آج اس انسان پر لعنت ہو جس نے میری رضا کے علاوہ کسی اور کے لئے عمل کیا ہو۔ پھر وہ سارے فرشتے کہیں گے، اے اللہ جب تیری لعنت ہو تو ہماری جانب سے ایسوں پر لعنت ہو جن کے اعمال تیری رضا کے لئے نہیں، جن کے اعمال متکبرانہ ہیں۔

میرے عزیز دوستواور بزرگو، ہم دیکھیں کہیں یہ جرائم ہمارے اندر تو موجود نہیں کہ ہمارے اعمال بھی قبول نہ ہوں۔ ہم نے قرآن پاک کی تلاوتیں کیں، رمضان کے روزے رکھے، بڑے خیر کے اعمال کئے۔ لیکن اگر غیبت آئی ہمارے اعمال برباد ہوں گے، اگر حسد آیا ہمارے اعمال برباد ہوں گے۔ اگر لوگوں کے ساتھ ہمدردیاں نہ ہو ئیں، ہمارے اعمال برباد ہوں گے۔ تکبر ہوا ہمارے اعمال برباد ہوں گے۔، اپنے کو بڑا سمجھا، اعمال برباد ہو جائیں گے، ریا کاری کی ہمارے اعمال برباد ہو جائیں گے۔

میرے عزیز دوستو،ہر انسان کو یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ دنیا بہت مختصر سی جگہ ہے۔ بہت تھوڑی جگہ ہے جہاں وہ اپنے اللہ کو راضی کرنے کے لئے آیا ہے۔ اس تھوڑے وقت میں رہ کر ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی کی اگر کامیابی حاصل نہ کرلی تو وہ بڑا بدنصیب انسان ہے، بڑا ہی نامراد انسان ہے۔

بھائیو اور بہنو مولانا منظور یوسف دامت برکاتہ کے ایک اور بیان کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جس میں ان تین گناہوں کا ذکر کیا گیا ہے جو ایک مسلمان کو کفر تک پہنچا دیتے ہیں۔

بیان مولانا منظور یوسف دامت برکاتہ

تین گناہ انسان کو کفر تک پہنچا دیتے ہیں

Website: www.youtube.com

3 Gunah Insan Ko Kufar Tak Pohancha Detay Hein

By Maulana Manzoor Yousuf Sahab

آیت۔۔۔۔۔ بے شک صورت حال یہ ہے کہ اللہ کی رحمت سے وہی مایوس ہوتا ہے جو کفر کرنے والا ہے یعنی کافر لوگ ہی اللہ کی رحمت سے مایوس ہوتے ہیں۔

حضور صل اللہ علیہ وسلم نے تین بڑے گناہ ذکر فرمائے۔ یہ انتہائی بدترین گناہ ذکر فرمائے۔ وہ اتنے بڑے گناہ ہیں کہ مسلمان کو اسلام کی حدود سے نکال دیتے ہیں اورمسلمان کفر کی حدود کو چھونے لگتا ہے اگر ان تین گناہوں کا ارتکاب کر لیتا ہے۔

پہلا گناہ

ایک گناہ تو شرک ہے۔ شرک مسلمان کے ہر عمل کو برباد کر دیتا ہے۔ شرک ایسا بدترین گناہ ہے جس کی وجہ سے مسلمان کا ایمان اندر سے کھوکلا ہو جاتا ہے۔ جس طرح دیمک لکڑی کو کھانا شروع کر دیتی ہے، لکڑی اندر سے کھوکھلی ہو جاتی ہے۔ بالکل اسی طرح سے شرک مسلمان کے ایمان کوخراب کر دیتا ہے۔ اور یوں سمجھیں کے شرک میں ریاکاری بھی بدترین شرک ہے جس کو رسول پاک صل اللہ علیہ وسلم نے شرک خفی قرار دیا ہے کہ یہ بہت باریک شرک ہے اس کا ادراک مسلمان کو کم ہی ہوتا ہے۔ اعمال میں دکھلاوا کرنا، ریاکاری کرنا، اللہ کی رضا مطلوب نہ ہو،دکھلاوا مقصود ہو اور یہ ریاکاری ہے جس کی وجہ سے مسلمان اسلام کی سرحدوں سے نکل جاتا ہے اور کفر تک پہنچ جاتا ہے۔ یہ بھی بدترین گناہ ہے۔

دوسرا گناہ

دوسرا گناہ کیا ہے؟ دوسرا گناہ اللہ تبارک و تعالٰی کے خوف سے بے خوف ہو جانا اور اللہ پاک کے عذاب سے مطمئن ہو کربیٹھ جانا کہ اللہ پاک مجرم کو سزا نہیں دے گا۔ یہ تصور، یہ نظریہ، یہ عقیدہ قائم کر لینا بڑا بد ترین گناہ ہے۔

آیت۔۔۔۔۔ کیا تم بے خبر ہو گئے ہو، تم مطمئن ہوکر بیٹھ گئے ہو اس اللہ سے جو آسمانوں میں ہے کہ وہ آسمان سے کوئی عذاب کا کوڑا برسائے اور تمہیں ہلاک کر دے؟ کیا تم مطمئن ہو گئے ہو کہ اللہ پاک زمین میں زلزلہ واقع کر دیاور تمہیں زمین میں غرق کر دے اپنے اندر، ڈبودے؟ کیا تم اس بات سے مطمئن ہو؟

تو اللہ تبارک وہ تعالٰی کے عذاب سے بے خوف ہو جانا،مطمئن ہو جانا کہ اللہ پاک مجر م کو سزا نہیں دیں گے،ظالموں کو سزا نہیں دیں گے، یہ بھی مسلمان کو کفر تک پہنچا دیتے ہیں۔ تو اس لئے انسان جری نہ ہو جائے کہ انسان کے اندر یہ کیفیت پیدا ہو جاتی ہے تو آدمی گناہوں پر جری ہو جاتاہے۔

تیسرا گناہ

اور تیسرا جو گناہ ہے جو مسلمان کو کفر تک پہنچا دیتا ہے وہ اللہ تعالٰی کی رحمت سے مایوسی ہے۔ ایک آدمی گناہ کرتا ہے، اتنے بڑے گناہ کر لئے، مایوس ہے کہ اب میری بخشش ممکن نہیں، مایوس ہو جائے کہ میں بخشا نہیں جاؤں گا، یہ بھی بڑا بدترین گناہ ہے۔ اس لئے جو آدمی اللہ پاک کی رحمت سے مایوس ہو جائے گویا کہ اس نے اللہ کی رحمت کو پہچانا ہی نہیں، اللہ پاک کی رحمت کو جانتا ہی نہیں۔ اور جو اللہ تبارک وتعالٰی کے عذاب سے بے خوف ہو گیا اس نے اللہ کی قدرت کوپہچانا ہی نہیں۔

تو عرض کیا ہے کہ یہ تین گناہ انسان کے اعمال کو برباد کر دیتے ہیں۔ ایک شرک ہے، اور دوسرا اللہ کے عذاب سے بے خوف ہو جانا اور تیسرا اللہ پاک کی رحمت سے مایوس ہو جانا۔

لیکن یاد رکھئیے یہ جو دوسرے دو گناہ بتلائے ہیں، بے خوف ہو جاتا اور مایوس ہو جانا، ایمان ان دونوں کے بیچ کا نام ہے۔ اتنا بھی انسان بے خوف نہ ہو جائے، اتنا بھی انسان اللہ ی ذات سے پر امید ہو جائے کہ عمل کرنا ہی چھوڑ دے، تکیہ لگائے بیٹھ جائے کہ اللہ معاف ہی کر دے گا، عمل کچھ نہ کرے، نہ نماز، نہ روزہ، نہ گناہوں سے بچنا، نہ نافرمانی سے بچنا۔ بس اللہ غفو رحیم ہے، اللہ مہربان ہے، اللہ غفار ہے۔ اللہ پاک کی تمام رحمت والی صفتوں پر عمل نہ کرنا یہ اچھی بات نہیں ہے۔ ایمان اس کا نام نہیں ہے۔ ایمان اس کا نام ہے کہ اللہ تبارک و تعالٰی کی ذات عالی سے پر امید بھی رہے اور ساتھ عمل بھی کرے۔

اور دوسری طرف انسان پر خوف خدا اتنا غالب آجائے کہ اللہ کی رحمت سے بالکل مایوس ہو کر بیٹھ جائے، ہر وقت مایوسی کی کیفیت چھائی رہے کہ میں نہیں بخشا جاؤں گا۔ یہ بات بھی ٹھیک نہیں ہے۔ اس لئے فرمایا، آیت۔۔۔۔ایمان امید اور خوف کے بیچ کی کیفیت کا نام ہے۔ لہٰذا فقہانے لکھا ہے کہ آدمی جوانی کے زمانے میں اللہ پاک کی ذات عالی کے خوف کو غالب رکھے اورجب بڑھاپا آ گیا، سفیدی آگئی تو اللہ پاک کی ذات عالی سے رحمت کو غالب رکھے کہ اللہ پاک مہربان ہے، اللہ بخش ہی دے گا۔ اسلام میں بوڑھا ہو گیا ہوں، سجدہ کرتے کرتے بڑھاپا آگیاہے، بال سفید ہو گئے ہیں۔ اب اللہ کی ذات سے امید ہے کہ اللہ پاک اپنے فضل و کرم سے بخش دے گا، امید رکھے اللہ پاک سے، مایوس نہ ہو۔ عرض کر رہا ہوں اس امید کے ساتھ اعمال صالحہ کو ترک نہ کرے۔

بھائیو اور بہنو،شیطان ہمیشہ سے ہی اس بات پر کار فرما رہا ہے کہ مسلمان دائرہ اسلام سے خارج ہو جائیں۔ لیکن آج کے سائنسی دور میں اللہ کے سیدھے راستے سے گمراہی عروج پر جا رہی ہے جس کی وجہ سے امت مسلمہ کی اکثریت بھی گمراہ ہو چکی ہے اور برملا شریعت کی تعلیمات کا انکار کیا جاتا ہے اور گناہ کو گناہ سمجھا ہی نہیں جاتا اور دین اسلام کے مطابق زندگی گزارنے والوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔

بھائیو اور بہنو،آپ سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ آپ اللہ تعالٰی کی توفیق سے خلوص دل سے اپنا محاسبہ ایمانداری اور دیانتداری سے کریں اور جائزہ لیں کہ آپ کی زبان سے کوئی ایسا کلمہ تو نہیں نکل گیا یا آپ سے کوئی ایسا عمل سرزد ہو گیا ہو جس کی وجہ سے آپ دائرہ اسلام سے خارج ہو چکے ہوں اور جہنم کی وادیوں میں گر رہے ہوں اورآپ کو اس کا احساس بھی نہ ہو۔

بھائیو اور بہنو آپ سے گزارش ہے ہے اس ای میل کو اپنے دوست احباب اور رشتہ داروں کو بھیج دیں اور ملاقات کے دوران ان کو خبردار کردیں کہ کس طرح سے مسلمان نہ جانتے ہوئے بھی دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے جس کے لئے تجدید ایمان اور تجدید نکاح کرنا لازم ہو جاتا ہے۔

تجدید ایمان اور تجدید نکاح کا طریقہ

بھائیو اور بہنو تجدید ایمان اور تجدید نکاح کے لئے کسی عالم دین کا ہونا ضروری نہیں ہے۔

بھائیو اور بہنو تجدید ایمان اور تجدید نکاح کا طریقہ مفتی اکمل دامت برکاتہ نے ٹی وی چینل اے آر وائی میں احکام شریعت کے سوال وجواب کے پروگرام میں بتلایا ہے۔ذیل میں مفتی اکمل دامت برکاتہ کا جواب سائل کے سوال کرنے کے ضمن میں نقل کیا جاتا ہے۔ سائل کا سوال یہ تھا کہ تجدید ایمان اور تجدید نکاح کسی طرح کیا جا سکتا ہے۔

تجدید ایمان اور تجدید نکاح

احکام شریعت

Website: www.youtube.com

Ahkam e Shariat – 28th January 2018 – ARY QTV

10.25 Minutes

سوال

ایک بہن نے یہ سوال میں کہا ہے کہ تجدید ایمان اور تجدید نکاح کا طریقہ بتلا دیں۔

جواب

دیکھیں تجدید ایمان کا آسان طریقہ یہ ہے کہ آپ اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں الفاظ کیسے بھی ہوں، یوں کہہ دیں یا ارادہ کر لیں کہ یا رب کریم سابقہ زندگی میں مجھ سے اگرکوئی کلمہ کفر جان بوجھ کر یا غلطی سے سرزد ہو گیا ہو یا کوئی خطا یا گناہ ہو گیا ہو اور جس سے میرے ایمان میں خلل پیدا ہو گیا ہو تو میں صدق دل سے معافی مانگتا ہوں /مانگتی ہوں، میری توبہ کو اپنے فضل و کرم سے قبول فرما لیں اور آئندہ احتیاط کاوعدہ کرتا ہوں /کرتی ہوں۔ اس کے بعد پہلا یا دوسرا کلمہ پڑھ لیں۔ یہ تجدید ایمان ہو گیا۔

تجدید نکاح کے لئے میاں بیوی کا موجود ہونا بہتر ہے اور دو گواہ عاقل و بالغ مسلمان مرد ہو یاایک مرد اور دو عورتیں۔ یہ جوان بیٹے بھی بن سکتے ہیں، گھر کے بالغ افراد بھی بن سکتے ہیں، کسی قاری صاحب کی حاجت نہیں۔

میاں بیوی آمنے سامنے بیٹھ جائیں اور زوجہ شوہر سے کہے کہ میں آپ کو اجازت دیتی ہوں کہ آپ میرا نکاح اپنے ساتھ کرلیں۔ نئے مہر جدیدکی حاجت نہیں ہوتی۔ یہ کہہ دیں کہ میں آپ کو اجازت دیتی ہوں کہ آپ میرا نکاح اپنے ساتھ کرلیں۔

اور شوہر جواب میں یہ کہے میں نے تمہارا نکاح اپنے ساتھ کیا۔ جیسے یہ کہیں گے، نکاح ہوگیا۔ایک دفعہ کہنا کافی ہے، تین دفعہ کہہ لیں تو بہتر ہے۔ یہ نکاح ہو گیا۔ کسی بڑے اہتمام کی ضرورت نہیں۔

کبھی کبھار یا روزانہ تجدید ایمان کرلیا کریں اور کبھی تین مہینے یا چھ مہینے میں تجدید نکاح ہو جائے۔ اسی طرح گھر میں رہتے ہوئے بہتر ہوتا ہے نادانستہ طور پو زبان سے کچھ کلمات ایسے نکل سکتے ہیں جن سے ایمان میں خلل پیدا ہو جائے۔

آپ صل اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بعض اوقات انسان اپنی زبان سے ایسے کلمات نکالتا ہے جس کی قباحت کااس کو احساس نہیں ہوتا۔ لیکن یہی کلمہ اس اس کے لئے جہنم میں جانے کاسببب بن جاتے ہیں۔ تو اس لئے کوشش کرنی چاہیے کہ یہ اپنی عادت میں شامل کرلیں، بہترہے۔

جواب تمام ہوا۔

دعاؤں میں یاد رکھیں

والسّلام

نصیر عزیز

پرنسپل امن کی پکار

 

Leave a Comment