حصہ سوم


محترمہ بھابی صاحبہ !الحمد للہ !صحابہ اکرام حاجتمندوں کی ضروریا ت کو پورا کرنے کی اہمیت کو سمجھتے تھے۔ اس ضمن میں ایک واقعہ ہے جس کا اللہ کے کلام میں ذکر ہے:

حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے صاحبزادے حضرت حسن رضی اللہ تعالٰی عنہا اور حضرت حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ بیمار ہو گئے تھے۔

حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے اللہ کی توفیق سے نذر مانی کہ جب اللہ تعالٰی اپنے فضل وکرم سے صاحبزادوں کو شفا عطا فرمائیں گے تو وہ اللہ کی توفیق سے تین روزے رکھیں گی۔

الحمد للہ! اللہ تعالٰی نے اپنے فضل و کرم سے صاحبزادوں کو شفا عطا فرمائی۔

تنگدستی کا زمانہ تھا۔ مختصر یہ کہ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ ایک یہودی سے اون کاتنے کے لئے لے آئے۔

حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی نے اللہ کی توفیق سے روزہ رکھا، اون کاتی، شام کو حضرت علی رضی اللہ تعالٰی نے یہودی سے اجرت لی اور کھانے پینے کا سامان لے کر آ گئے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی نے کھانا پکایا۔ روزہ افطار کرنے کا وقت قریب تھا کہ دروازے پر سے ایک سائل کی آواز آئی جس کا مفہوم ہے:

اے نبی کے گھر والو محتاج ہوں،

بھوکا ہوں۔ اللہ کے واسطے سرپرستی فرمائیں۔

حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی طرف دیکھا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سمجھ گئے اور تمام کھانا محتاج کے حوالے کر دیا اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے پانی سے روزہ افطار کیا۔

دوسرے دن پھر اون کاتی اور حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ یہودی سے اجرت لے کر کھانے پینے کا سامان لے کر آئے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی نے کھانا پکایا۔ روزہ افطار کا وقت قریب تھا کہ دروازے پر سے سائل کی آواز آئی جس کا مفہوم ہے

اے نبی کے گھر والو یتیم ہوں، بھوکا ہوں،

اللہ کے واسطے سر پرستی فرمائیں۔

حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی نے حضرت علی کی طرف دیکھا۔ حضرتت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے تمام کھانا یتیم کو دے دیا۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی نے روزہ پانی سے افطار کیا۔

تیسرے روز پھر حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی نے اون کاتی۔ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے یہودی سے اجرت لی اور کھانے پینے کا سامان لے کر آئے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہن نے کھانا پکایا۔ روزہ افطار کرنے کا وقت قریب تھا کہ دروازے سے سائل کی آواز آئی جس کا مفہوم ہے:

اے نبی کے گھر والو قیدی ہوں،

بھوکا ہوں، اللہ کے واسطے سرپرستی فرمائیں۔

حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی طرف دیکھا اور انہوں نے کھانا قیدی کے حوالے کر دیا۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے روزہ پانی سے افطار کیا۔


محترمہ بھابی صاحبہ بیشک اللہ تعالٰی علیم ہیں۔ لیکن بظاہر حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا اور حضرت علی رضی اللہ تعالٰی کی قربانی دیکھ کر اپنے کلام سے مندرجہ ذیل آیات کا نزول فرمایا:

ترجمہ سورۃالدھر آیت نمبر 8 – 7

بسم اللہ الرحمن الرحیم

پورا کرتے ہیں منت کو اور ڈرتے ہیں اس دن سے کہ اس کی برائی پھیل پڑے گی۔ اور کھلاتے ہیں کھانا اس کی محبت پر محتاج کو اور یتیم کو اورقیدی کو۔

محترمہ بھابی صاحبہ !علماۓ کرام فرماتے ہیں اگر نیک کام کی منت مانی جائے تو اس کا پورا کرنا ضروی ہوتا۔ لیکن اگر برے کام کی منت مانی جائے تو اسے پورا نہ کیا جائے۔

        مولانا شبیر احمد عثمانی رحمتہ اللہ علیہ نے حاشیہ میں خاص طور پر قیدیوں کے ضمن میں لکھا ہے

قیدی عام ہے، مسلم ہو یا غیر مسلم ہو یا کافر۔ حدیث میں ہے کہ جنگ بدر کی قیدیوں کے متعلق حضور صل اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ جس مسلمان کے پاس کوئی قیدی رہے اس کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے۔

چنانچہ اس حکم کی تعمیل میں قیدیوں کو اپنے سے بہتر کھانا کھلاتے تھے حالانکہ وہ قیدی مسلمان نہ تھے۔مسلمان بھائی کا حق تو اس سے بھی زیادہ ہے۔ اور اگر لفظ ‘اسیر’ میں ذرا تو سع کیا جائے تب تو یہ آیت غلام اور مدیون کو بھی شامل ہو سکتی ہے کہ وہ بھی ایک طرح سے قید میں ہیں۔

محترمہ بھابی صاحبہ !علمائے کرام فرماتے ہیں کہ اللہ تعالٰی نے سرپرستی کرنے والوں کو ارشاد فرمایا جس کا مفہوم ہے کہ سر پرستی صرف خلوص دل سے اللہ تعالٰی کی رضا کے لئے ہونی چاہیے اور جس کی سرپرستی کی جائے اس سے شکریہ یا کسی بدلہ کی توقع نہیں رکھنی چاہیے:

ترجمہ سورۃالدھر آیت نمبر 9

بسم اللہ الرحمن الرحیم


ہم جو تم کو کھلاتے ہیں سو خالص اللہ کی خوشی چاہنے کو نہ تم سے ہم چاہیں بدلہ اور نہ چاہیں شکرگزاری۔

محترمہ بھابی صاحبہ !تاہم !حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ بندے کو اللہ کا بھی خلوص دل سے شکر گزار ہونا چاہیے اور اپنے محسن کا بھی شکر گزار ہونا چاہیے۔ بندے کو چاہیے کہ وہ محسن کوشکریہ زبانی طور پر بھی کرے اور اسے کے لئے اس کے رزق میں برکت کی دعا بھی کرتا رہے۔

محترمہ بھابی صاحبہ !علمائے کرام فرماتے ہیں کہ خلوص دل سے سرپرستی کرنے والوں کا بدلہ اللہ کے پاس ہے کہ اللہ تعالٰی اپنے فضل و کرم سے دنیا میں بھی مصائب سے مامون رکھیں گے اور آخرت میں ان کے ‘صبر’ کے بدلے ہمیشہ کے لئے اپنی نعمتوں سے نوازے رہیں گے جو کسی آنکھ نے نہ دیکھی نہ کسی کان نے سنی اور نہ کسی کے وہم و گمان میں آ سکتی ہیں:

ترجمہ سورۃالدھر آیت نمبر 12 – 10

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ہم ڈرتے ہیں اپنے رب سے ایک دن اداسی والے کی سختی سے۔ پھر بچا لیا اللہ نے برائی سے اس دن کی اورملا دی ان کو تازگی اور خوش وقتی۔ ج اور بدلہ دیا ان کو ان کے صبر پر باغ اور پوشاک ریشمی۔

صفائی، پاکی اور پاکیزگی

محترمہ بھابی صاحبہ !صفائی، پاکی اور پاکیزگی کی اہمیت اس بات سے ظاہر ہوتی ہے کہ اللہ تعالٰی نے اپنے فضل و کرم سے اپنے کلام میں آیات کا نزول فرمایا ہے:

ترجمہ سورۃالتوبہ آیت نمبر 108

بسم اللہ الرحمن الرحیم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فیہ رجال یحبون ان یتطھرو ط واللہ یحب المطھرین۔

۔۔۔۔۔۔۔۔ اس میں ایسے لوگ ہیں جو دوست رکھتے ہیں پاک رہنے کوط اور اللہ دوست رکھتا ہے پاک رہنے والوں کو۔

محترمہ بھابی صاحبہ !اس آیت کا پس منظر یہ ہے کہ چودہ سو سال پیشتر رفع حاجت کرنے کے بعد لوگ مقعدکو مٹی کے ڈھیلوں سے صاف کرتے تھے۔ غالباً پانی کی کمی کی وجہ سے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو غالباً اس وقت آپ صل اللہ علیہ وسلم مسجد قبا میں تشریف فرما تھے۔ آپ صل اللہ علیہ وسلم نے قبا والوں سے دریافت فرمایا جس کا مفہوم ہے کہ وہ رفع حاجت کے بعد مقعد کو کس طرح صاف کرتے ہیں؟ قبیلہ والوں نے بتلایا کہ وہ مقعد کو مٹی کے ڈھیلوں سے صاف کرنے کے بعد مقعد کو پانی سے بھی دھوتے ہیں۔ حضور صل اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس کا مفہوم ہے اللہ کا شکر ادا کرو یہ آیت تمہاری شان میں نازل ہوئی ہے۔

محترمہ بھابی صاحبہ! علمائے کرام فرماتے ہیں کہ آج کے دور میں رفع حاجت کے بعداولاً مقعد کو پانی سے اچھی طرح دھویا جائے اور دوم مقعد کو ٹیشو پیپر سے خشک کر لیا جائے۔ اسی طرح چھوٹا استنجا کرنے کے بعد عضو کو پانی سے دھویا جائے اور ٹیشو پیپر سے خشک کر لیا جائے۔

محترمہ بھابی صاحبہ! علمائے کرام فرماتے ہیں کہ رفع حاجت اور بلیڈر کو خالی کرنا ہر انسان کا روزمرہ کا معمول ہے۔ اس لئے مقعد اور عضو کو پانی سے دھویا جائے اور اگر ہو سکے تو ٹیشو پیپر سے خشک کر لیا جائے کیونکہ اگر ذرا سی بھی نجاست مقعد میں یا پانی کی قطرہ عضو میں رہ جائے گا تو بندہ پاک نہیں ہوگا۔ اگر وہ وضو یا غسل کرے گا تو جسم تو ترو تازہ ہو سکتا ہے لیکن وضو اور غسل کا عمل وائڈ ہو گا۔

محترمہ بھابی صاحبہ! علمائے کرام فرماتے ہیں کہ نماز ادا کرنے کی یہ شرط ہے کہ بندہ اگر بغیر وضو ہے تو وہ اولاً وضو کرے اور جو عام طور پر کھلے ہوئے جسم کے اعضأ ہوتے ہیں ان کو دھو لے۔ وضو کی ترکیب اللہ تعالٰی نے اپنے فضل و کرم سے بتلا دی ہے

ترجمہ سورۃ المائدہ آیت نمبر۶

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اے ایمان والو! جب تم اٹھو نماز کوتو دھو لو اپنے منہ اور ہاتھ کہنیوں تک اور مل لو اپنے سر کو اور پاؤں ٹخنوں تک ط

محترمہ بھابی صاحبہ!علمائے کرام فرماتے ہیں کہ جنابت کی حالت وہ ہوتی ہے جب احتلام ہو جائے، یا شوہر اوربیوی نے آپس میں ہمبستری کی ہو یا مردوعورت نے بغیر نکاح کئے ہمبستری کی ہو، یا مشت زنی کی ہو۔ منی کے اخراج ہونے سے غسل لازمی ہو جاتا ہے اس لئے جسم کو پاک کرنا لازمی ہے۔

ترجمہ سورۃ المائدہ آیت نمبر۶

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اے ایمان والو! اور اگر تم کوجنابت ہو تو خوب پاک ہو ط۔۔۔۔۔۔۔۔

محترمہ بھابی صاحبہ! علمائے کرام فرماتے ہیں کہ جسم کا پاک ہونا اتنا ضروری ہے کہ اگر پانی میسر نہ ہو تو پاک مٹی سے تیمم بھی کیا جا سکتا ہے جس کا ذکر اللہ کے کلام میں ہے۔

ترجمہ سورۃ المائدہ آیت نمبر۶

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اے ایمان والو!۔۔۔۔۔اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں یا کوئی تم میں

آیا ہے جائے ضروریہ سے

یا پاس گئے ہو عورتوں کے پھر نہ پاؤ تم پانی تو

قصد کرو پاک مٹی کا اور مل لو اپنے منہ اور ہاتھ اس سے ط

محترمہ بھابی صاحبہ! علمائے کرام فرماتے ہیں کہ اللہ تعالٰی نے اپنے فضل وکرم سے اپنے بندوں پر ایسی کوئی چیز لازم نہیں کہ بندوں کو تکلیف ہو اور بندے پاک و صاف بھی رہیں۔ یعنی اگر پانی نہیں ہے یا کم ہے تو زمین سے پاک مٹی لے کر چہرے اور ہاتھوں کو مل لیا جائے، جس کا ذکر قرآن میں ہے:

ترجمہ سورۃ المائدہ آیت نمبر۶

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اے ایمان والو!۔۔۔۔۔ اللہ نہیں چاہتا کہ تم پر تنگی کرے ولیکن چاہتا ہے

کہ تم کو پاک کرے اور پورا کرے احسان اپنا تم پر تا کہ تم احسان مانو۔

محترمہ بھابی صاحبہ! اللہ تعالٰی اپنے فضل و کرم سے بندے کو پاک ہونے کی تاکید کرتے ہیں اور سورۃ النسأ میں انہی اعمال کو دہرا دیا ہے جس کا سورۃ المائدہ میں ذکر کیا ہے:

ترجمہ سورۃ النسأ آیت نمبر43

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اے ایمان والو!۔۔۔۔۔ اور نہ اس وقت کہ غسل کی حاجت ہو

مگر راہ چلتے ہوئے یہاں تک غسل کر لو ط اور اگر تم مریض ہو یا سفر میں ہو

یا آیا ہے کوئی شخص تم میں جائے ضروریہ سے یا پاس گئے ہو عورتوں کے پھر نہ ملا

تم کو پانی تو ارادہ کرو زمین پاک کا پھر ملو اپنے منہ کو اور ہاتھوں کو ط

بیشک اللہ ہے معاف کرنے والا بخشنے والا ہے۔

محترمہ بھابی صاحبہ! نماز کی اہمیت کو جتلانے کے لئے اللہ تعالٰی ایمان والوں کو ہدایت فرماتے ہیں کہ اگر کوئی مسلمان شراب پینے کا عادی ہو جائے تو اسے بھی چاہیے کہ نشہ کی حالت میں نماز ادا نہ کرے۔ علمائے کرام فرماتے ہیں کہ گو شراب حرام ہے اور پینے والا گناہ کا مرتکب ہو رہا ہے لیکن نماز فرض ہے:

ترجمہ سورۃ النسأ آیت نمبر43

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اے ایمان والو! نزدیک نہ جاؤ نماز کے جس وقت کہ تم نشہ میں ہو

یہاں تک کہ سمجھنے لگو جو کہتے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محترمہ بھابی صاحبہ! مختصر یہ کہ روزمرہ کی زندگی میں ہر مرد و عورت کا پاک و صاف رہنا ضروری ہے۔ علمائے کرام فرماتے ہیں کہ پاک و صاف رہنے سے اللہ تعالٰی کی رحمتوں کا نزول ہوتا رہتا ہے اور بندہ دن و رات کے اکثر حصہ میں باوضو بھی رہ سکتا ہے۔

وہ کس طرح؟

محترمہ بھابی صاحبہ!اللہ تعالٰی نے دن و رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ بندہ ہر نماز ادا کرنے کے لئے تازہ وضو کرتا ہے جو اگلی نماز کا وقت آنے تلک قائم رہ سکتا ہے۔ عشأ کی نماز کے بعد بندہ سو جاتا ہے۔ یعنی بندہ با وضو سو جاتا ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ فجر کی نماز تک وضو قائم رہے۔ اس طرح سے بندہ اللہ تعالٰی کے فضل و کرم سے دن ورات میں ہر لحظہ باوضو رہ سکتا ہے اور اللہ تعالٰی کی رحمتوں کو سمیٹ سکتا ہے۔

محترمہ بھابی صاحبہ!علمائے کرام فرماتے ہیں کہ جب بندہ وضو کرتا ہے تو اس کے گرد، اللہ کے فضل وکرم سے، ایک حصار قائم ہو جاتا ہے جو اس کی حفاظت کرتا رہتا ہے۔

محترمہ بھابی صاحبہ!مختصر یہ کہ اکثریت کو غسل جنابت کے آداب معلوم نہیں ہوتے جس کی وجہ سے پاکی حاصل نہیں ہوتی اور بندہ ناپاکی کی حالت میں ہی عبادات کرتا رہتا ہے۔ شیخ ذوالفقار احمد نے ایک بیان میں ذکر کیا تھا کہ ایک لڑکی جس کی شادی ہونے والی تھی ان کی اہلیہ کے پاس آئی اور اس نے دریافت کیاغسل جنابت کے کیا آداب ہیں۔ ان کی اہلیہ نے پوچھا کہ جب اس کو حیض آتا تھا تو وہ کیا کرتی تھی۔ اس نے بتایا کہ وہ نہا لیتی تھی۔مختصر یہ کہ ان کی اہلیہ نے بتلایا کہ صرف نہانے سے حیض او رجنابت سے پاکی حاصل نہیں ہوتی۔

محترمہ بھابی صاحبہ!ذیل میں کتاب غنیتہ الطالبین کا اقتباس نقل کیا جا رہا ہے۔ بہتر ہے کہ آپ کسی عالمہ سے رجوع کریں اور جو اس کی تشریح کر دے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کے لئے سمجھنا آسان نہ ہو۔

اقتباس کتاب غنیتہ الطالبین از شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ علیہ

غسل کا طریقہ اور احکام

     کامل اور

    بقدر ضرورت

کامل غسل

کامل یہ ہے کہ جنابت یا حدث اکبر دور کرنے کی نیت کے ساتھ کیا جائے۔ دل سے نیت کرنے کے بعد زبان سے بھی کہہ لے تو افضل ہے۔

پانی لینے کے وقت بسم اللہ کہے، تین بار دونوں ہاتھ دھوئے۔ بدن پر جو نجاست لگی ہو اس کو دھو ڈالے۔ پھر فوراً وضو کرے۔ پاؤں اس جگہ سے ہٹ کر دھوئے۔ تین لپ پانی سر پر ڈالے کہ بالوں کی جڑیں تر ہو جائیں۔ تین مرتبہ سارے بدن پر پانی بہائے۔ دونوں ہاتھوں سے بدن بھی ملتا جائے۔ رانوں کے گوشے اور بدن کی کھال کی شکنیں بھی دھوئے۔ یقینی طور پر ان مقامات پر پانی پہنچنا چاہیے۔

حضور اقدس صل اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے بالوں کو تر کرو، جلد کو خوب صاف کرو کیونکہ ہر بال کی جڑ میں نجاست ہوتی ہے۔

دائیں جانب سے غسل شروع کرے۔ غسل کی جگہ سے ہٹ کر پاؤں دھوئے۔ دوران وضو میں اگر کوئی فعل وضو شکن نہ ہوا ہو تو اس غسل سے نماز پڑھنی جائز ہے۔ مزید وضو کی ضرورت نہیں کیونکہ ہم اس غسل کو حدث اصغر اور حدث اکبر دونوں کو دور کرنے کے لئے کافی قرار دیں گے۔

اگر دوران غسل میں کوئی وضو شکن فعل ہو گیا ہو تو غسل کے بعد پھر وضو کرے۔ اس تفصیل کا اصل ثبوت اس روایت سے ملتا ہے جو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے بیان کی ہے کہ جب رسول صل اللہ علیہ وسلم غسل جنابت کرنا چاہتے تو تین پار دونوں ہاتھ دھوتے، پھر دائیں ہاتھ سے لے کر الٹے ہاتھ پر پانی بہاتے، پھر کلی کرتے اور ناک میں پانی ڈالتے۔ تین بار منہ اور تین بار دونوں ہاتھ دھوتے۔پھر تین بار سر پر پانی ڈالتے اور دھوتے۔ جب غسل کر کے نکلتے تو دونوں پاؤں دھوتے۔

بقدر ضرورت غسل

بقدر ضرورت غسل کی کیفیت یہ ہے کہ پیشاب گاہ کو دھوئے، نیت کرے، بسم اللہ پڑھے۔ تمام بدن کو دھوئے۔ کلی بھی کرے اور ناک میں بھی پانی ڈال۔ کیونکہ دونوں واجب ہیں۔ وضو اور غسل میں کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے کے متعلق متضاد روایات آئی ہیں۔ایک روایت سے دونوں کا وجوب ثات ہوتا ہے اور ایک سے صرف غسل میں وجوب ثابت ہوتا ہے۔ صحیح ترین وہ روایت ہے جس سے دونوں کا وجوب وضو ثابت ہوتا ہے۔ (احناف کے نزدیک صرف غسل کامل میں واجب ہے)

اس غسل میں اگو وضو کی نیت نہ کرے تو اس سے (جنابت دور ہو جائے گی مگر دوبارہ) وضو کئے بغیر نماز نہیں ہوگی۔ اگر نیت کر لی ہے تو باقی ارکان وضو غسل میں آ جائیں گے۔ نیت وضو نہیں کی تو وضو نہیں ہوگا اور نماز درست نہیں ہوگی۔

رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس کا وضو نہیں اس کی نماز نہیں۔ غسل کامل کی حالت اس کے مخالف ہے۔ اس میں وضو کامل ہو چکتا ہے۔

ضروت سے زائد پانی کا استعمال مستحب نہیں۔ درمیانی طور پر کرنا اچھا بھی ہے اور مستحب بھی۔ اگر غسل اور وضو کی ضروریات پوری ہو جائیں تو اسراف کے مقابلہ میں کم پانی استعمال کرنا بہتر ہے۔ روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے ایک مد پانی سے وضو اور ایک صاع سے غسل کیا۔ مد کی مقدار ڈیڑھ ارطل ہوتی ہے اور صاع چار مد کا ہوتا ہے۔

محترمہ بھابی صاحبہ !اللہ کی توفیق سے کتاب: وضو نماز کا حصہ کیوں ہے؟کی تصنیف کیے اس میں سے غسل جنابت کا باب نقل کیا جا رہا ہے:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

جنابت

اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السّلام کی ذریّت کے جنم لینے کا نظام عورت و مرد کے ملنے میں رکھا ہے۔ اس کے علاوہ کنوار پن کی حالت میں جب جسم میں مادہ کی بہتات ہو جاتی ہے تو وہ سوتے وقت احتلام کے ذریعہ سے خارج ہو جاتی ہے، اور انسان جنبی ہونے کی صف میں داخل ہو جاتا ہے۔

قرآن پاک میں اللہ پاک کا ارشاد ہے، جس کا مفہوم ہے کہ اگر مومن جنبی ہے تو اس کے لیے لازم ہے کہ وہ خود کو اچھی طرح سے پاک کرے۔

اطباء کا کہنا ہے کہ انزال کے وقت جو سفید رطوبت عضو تناسل سے نکلتی ہے، وہ انسان کے سارے جسم میں محیط ہوتی ہے۔ جس طرح ہینڈ پمپ کے ذریعہ سے زمین سے پانی نکالا جاتاہے، اسی طرح سفید رطوبت عضو تناسل سے نکلتی ہے تو اس کے اثرات جسم کے ہر حصّہ کے مساموں سے باہر نکل آتے ہیں جس سے جسم کا ہر حصّہ حتیٰ کے بال، دانت، زبان، مسوڑھے، حلق تمام ناپاک ہو جاتے ہیں۔

اسی لئے علمائے اکرام کا کہنا ہے کہ جب جنابت کا غسل کیا جائے تو دانتوں، مسوڑھوں وغیرہ کو اچھی طرح صاف کیا جائے۔ اگر دانتوں کے اندر کھانے کی کسی شئے کا ذراّت پھنس گئے ہوں تو ان کا نکال کر منہ کے اندرونی حصّہ کو اچھی طرح کلّی کرتے ہوئے دھونا چاہیے۔

علماء کا یہ بھی کہنا ہے کہ حلق میں پانی ڈال کر اسے باہر نکالا جائے، کیونکہ وہ حصّہ بھی ناپاک ہو چکا ہوتا ہے، تا کہ اگر کوئی شئے کھائی جائے تو وہ حلق سے گذرتے ہوئے ناپاک نہ ہو جائے اور پیٹ میں پہنچ جائے۔

نیز عورتیں جب حیض اور نفاس کے دنوں سے فارغ ہو جاتی ہیں تو ان کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ اچھی طرح سے غسل کریں اور ہر طرح سے پاک و صاف ہو جائیں۔

لب لباب

محترمہ بھابی صاحبہ!اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور نعمتوں پر قربان جایا جاہے کہ عبادت کے ہر عمل میں جسمانی اور روحانی پاکیزگی کا خیال رکھا گیا ہے جو کہ ایک مومن کی جسمانی اور روحانی صحت کا حصول بھی ہے۔

ازواجی زندگی

محترمہ بھابی صاحبہ!مختصر یہ کہ اللہ تعالٰی نے حضرت آدم علیہ السّلام کی تخلیق کی اور حضرت حوا رضی اللہ تعالٰی عنہا کو حضرت آدم علیہ السّلام کی بائیں طرف کی پسلی جودل کے قریب ہوتی ہے، پیدا کیا، دونوں کا آپس میں نکاح کر دیا اور جنت میں ہمیشہ کے لئے عیش و عشرت کی زندگی بسر کرنے کے لئے بھیج دیا بشرطیکہ وہ ممنوع درخت کے قریب بھی نہ جائیں۔ شیطان نے انہیں ورغلایا اور ان کے ممنوع درخت کا پھل کھا نے سے ان پر سے تقوٰی کا لباس اتر گیا اور وہ برہنہ ہو گئے اور شرمگاہوں کو پتوں سے ڈھانپ لیا۔ اللہ کی نافرمانی کی پاداش میں ان کو زمین پر بھیج دیا کہ اگر زمین پر انہوں نے اوران کی اولاد نے اللہ کی ہدایت کے مطابق زندگی بسر کی تو موت کا جہاز ان کو جنت میں ہمیشہ کے لئے واپس لے آئے گا:

ترجمہ سورۃ البقرۃ آیت نمبر 35

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اور ہم نے کہا اے آدم رہا کر تو اور تیری عورت جنت میں

اور کھاؤ اس میں جو چاہو جہاں کہیں سے چاہو اور


پاس نہ جانا اس درخت کے پھر تم ہو جاؤ گے ظالم۔

ترجمہ سورۃ البقرۃ آیت نمبر 39 – 38

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ہم نے حکم دیا نیچے جاؤ یہاں سے تم سب ج پھر اگر تم کو پہنچے میری طرف سے کوئی ہدایت تو جو چلا میری ہدایت پر نہ خوف ہو گا ان پر اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔

اور جو لوگ منکر ہوئے اور جھٹلایا ہماری نشانیوں کو وہ ہیں دوزخ میں جانے والے ج وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔

محترمہ بھابی صاحبہ! اللہ تعالٰی نے اپنے فضل و کرم سے دستور طے کر دیا کو مرد اور عورت آپس میں مباشرت کریں گے، عورت کو حمل ٹہر جائے گا اور کم و بیش نو ماہ کے بعد لڑکے یا لڑکی کی پیدائش ہو گی:

ترجمہ سورۃالنسأ آیت نمبر 1

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اے لوگو! ڈرتے رہو اپنے رب سے جس نے پیدا کیا تم کو ایک جان سے اور اسی سے پیدا کیا ایک جوڑا اور پھیلائے ان دونوں سے مرد اور عورتیں ج اور ڈرتے رہو اللہ سے جس کے واسطہ سے سوال کرتے ہو آپس میں اور خبردار رہو قرابت والوں سے بیشک اللہ تم پر نگہبان ہے۔

محترمہ بھابی صاحبہ! مختصر یہ کہ جب مرد اور عورت کا آپس میں نکاح ہو جاتا ہے تو ان کی ازواجی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔

ازواجی زندگی میں کامیابی

محترمہ بھابی صاحبہ! علمائے کرام فرماتے ہیں کہ جنت میں جانے کے لئے ضروری ہے کہ ازواجی زندگی کامیاب ہو۔ ازواجی زندگی میں کامیابی کا انحصار مندرجہ ذیل عناصر پر ہے

٭شوہر اور بیوی کا آپس میں سمجھوتہ ہو اور عمر بھر ایک دوسرے کے وفادار رہیں،

٭بیوی گھر گرہستی اور اولاد کی پرورش اور تعلیم و تربیت کی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے بجا لائے،

٭ بیوی گھر گرہستی کے کاموں اور بچوں کی تعلیم و تربیت کے ضمن میں شوہر سے مشورہ کرتی رہے اور شوہر اللہ کے فضل کی تلاش کے ضمن میں اہلیہ سے مشورہ کرتا رہے۔

٭شوہر کا اللہ کا فضل تلاش کرنے بعد واپس گھر آنے کا وقت مقرر ہوتا ہے۔ اہلیہ کو چاہیے کہ شوہر کے گھر آنے سے پیشتر صاف ستھر ے کپڑے پہنے اور شرعیت کے مطابق سنگھار کرے۔

٭عام طور پر دستور یہ ہوتا ہے کہ شوہر جب گھر میں آتا ہے تو اگر دروازہ پر تالا لگا ہے تو تالا کھول کر گھر میں داخل ہو جاتا ہے۔ لیکن بہتر یہ ہے کہ شوہرگھنٹی بجائے یا دروازہ کھٹکھٹائے۔ اہلیہ آکر دروازہ کھولے اور شوہر کو سلام کرے، اس کے ہاتھ میں اگر بریف کیس ہے یا کوئی اور شئے ہے وہ لے لے۔

٭شوہر تھکا ہوا ہوتا ہے۔ اہلیہ جب تروتازہ، صاف ستھرے کپڑے پہنے ہوئے، شرعیت کے مطابق سنگھار کئے ہوئے شوہر کا استقبال کرتی ہے توشوہر کی آدھی تھکن دور ہو جاتی ہے۔

٭کچھ دیر دونوں لاؤنج میں بیٹھ کر بات چیت کریں تاکہ دونوں کی دن بھر کی تھکاوٹ کو بھول جائیں۔ اہلیہ چونکہ شوہر کے استقبال کے لئے تروتازہ ہو چکی ہوتی ہے اس لئے شوہر بھی ترو تازہ ہونے کے لئے غسل کر لے اور کپڑے تبدیل کرلے۔ اس دوران اہلیہ چائے وغیرہ کا انتظام کر لے۔

٭جب شوہر تروتازہ ہو کر آجائے تو چائے پینے کے دوران دونوں ایک دوسرے کو دن بھر کی مختصر طور پر کارگزاری سنائیں تاکہ ایک دوسرے کے حالات سے باخبر رہیں۔

٭جب اللہ تعالٰی اپنے فضل وکرم سے اولاد سے نوازیں گے تو روزمرہ کی زندگی میں تبدیلی کرنی پڑتی ہے۔ دونوں شوہر اور بیوی کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

٭شوہر جب اللہ کا فضل تلاش کر کے گھر واپس آجائے تو اولاد کی دیکھ بھال میں اہلیہ کا ہاتھ بٹائے اور جب اولاد سکول جانے لگے تو شام کو اولاد سے ان کی تعلیم سے متعلق تبادلہ خیالات کرے۔

٭شوہر اور بیوی اب ایک دوسرے کو اولاد کے نام سے خطاب کریں۔ مثلاً:

        عمر کے ابو،

        عمر کی امی

٭جب دونوں اولاد کو خطاب کریں تو اپنے رشتہ کے ناطہ سے خطاب کریں۔ مثلاً :عمر بیٹے تو آپس میں پیارومحبت میں مضبوطی جنم لیتی رہے گی۔

٭علمائے کرام فرماتے ہیں کہ نام کے ساتھ رشتہ کو شامل کرنے سے لوگوں کو بھی ان کے رشتے معلوم ہو جاتے ہیں اور آپس میں پیار و محبت میں مضبوطی جنم لیتی رہتی ہے۔

٭مہمان نوازی احسن طریقے سے ہونی چاہیے۔

٭روزہ مرہ کی زندگی کو قرآن و حدیث کی روشنی میں ترتیب دینا چاہیے۔ مثلاً:

        حقوق اللہ: نماز، روزے، زکواۃ، حج اللہ تعالٰی کی ذات یکتا پر یقین کے ساتھ بروقت ادا کرنا،    

  • حقوق العباد کو احسن طریقے سے ادا کرتے رہنا۔ مثلاً:مصائب سے مامون رہنے کے لئے صدقہ و خیرات کرتے رہنا، مرحومین کے لئے دعائے مغفرت کرتے رہنا، تنگدستوں کی سرپرستی کرتے رہنا، وغیرہ۔

٭شرعیت نے جن تہواروں کو منانے کی رخصت دی ہے ان کو شرعیت کے دائرے میں رہ کر بجا لانا۔ مثلاً: عید الفطر، عید الضحٰے وغیرہ۔

٭علمائے کرام فرماتے ہیں کہ اولاد جب والدین کو احسن طریقے سے حقوق اللہ اور حقوق العباد کرتے ہوئے دیکھتی ہے تو اللہ تعالٰی کے فضل و کرم سے ان کی تعلیم و تربیت ہوتی رہتی ہے۔

٭ازواجی زندگی میں شوہر اور بیوی کے درمیان اختلافات کا ہو نا لازمی ہے۔ اختلافات کو اس انداز سے ختم کرنا کہ اولاد کی تعلیم و تربیت پر کوئی اثر نہ پڑے۔

٭وغیرہ۔

Leave a Comment