دعائیں

بسم اللہ الرحمن الرحیم


امن کی پکار


دعائیں


تعارف


بھائیو اور بہنو


السّلام علیکم


دعا کے لغوی معنی ہیں اللہ سے مانگنا، التجا، التماس، استدعا، دعا کی عبارت، مناجات، کسی کی بہتری کی خواہش، مراد، سلام، مبارک، شیر باد


بھائیو اور بہنو! لفظ دعا صرف اللہ تعالٰی کے لئے ہی مخصوص ہے گو کہ لغوی معنوں میں انسان ایک دوسرے سے اپنی حاجت روائی کے لئے استعمال کر سکتا ہے۔ مثلاً

 

آپ سے التجا ہے کہ میری حاجت پوری کر دیں

آپ سے التماس ہے کہ میری حاجت پوری کر دیں

میں نے فلاں سے التجا کی کہ میری حاجت روائی کریں

 

بھائیو اور بہنو!لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ

 

آپ سے دعا ہے کہ میری حاجت پوری کر دیں

میں نے فلاں سے دعا کی کہ میری حاجت روائی کریں

 

بھائیو اور بہنو!اس لئے جس طرح اللہ کی ذات واحد ہے اسی طرح دعا کا لفظ بھی اللہ تعالٰی سے حاجت روائی کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

بھائیو اور بہنو!اللہ تعالٰی نے انسان کو آخرت کی زندگی بنانے کے لئے اس دنیا میں بہت ہی تھوڑے وقت کے لئے بھیجا ہے۔ یہ دنیا دراصل امتحان گاہ ہے۔ اس امتحان میں کامیاب ہونے کے لئے انسان کو ذمہ داریوں کا مکلف بنایا ہے۔ ان ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہوئے مشکلات اور مصائب پیش آتے ہیں۔ جب مشکلات اور مصائب درپیش آتے ہیں تو اللہ تعالٰی کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے اور اللہ تعالٰی سے رجوع کرنے کا طریقہ دعا ہے۔ جب حضرت آدم علیہ السّلام سے جنت میں بھول ہو گئی اور اللہ تعالٰی کا حکم ٹوٹ گیا تھا تو اللہ تعالٰی نے ان کو دعا سکھلائی


سورۃ الاعراف آیت نمبر 23

قالا ربنا ظلمنا انفسناسکتہ و ان لم تغفرلنا

و ترحمنا لنکونن من الخٰسرین۔

بولے وہ دونوں اے رب ہمارے ظلم کیا ہم نے اپنی جان پراور اگر تو ہم کو نہ بخشے

اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم ضرور تباہ ہو جائیں گے۔


بھائیو اور بہنو!حضرت یونس علیہ السّلام کو مچھلی نے اللہ تعالٰی کے حکم سے نگل لیا تو اللہ تعالٰی نے انہیں اپنی طرف رجوع کرنے کے لئے دعا سکھلائی


سورۃ الانبیأ آیت نمبر 87

وذاالنون اذ ذھب مغا ضباً فظن ان لن نقدر علیہ فنادٰی فی الظلمٰت

ان لا الہ الا انت سبحٰنک ق انی کنت من الظٰلمین۔

اور مچھلی والے کو جب چلا گیا غصہ ہو کر پھر سمجھا کہ ہم نہ پکڑ سکیں گے

اس کو پھر پکارا اندھیروں میں کہ کوئی حاکم نہیں سوائے تیرے

تو بے عیب ہے ق میں تھا گنہگاروں میں سے۔


بھائیو اور بہنو!دنیاوی زندگی میں ہر انسان کو ہرلمحہ کسی نہ کسی ذمہ داری سے عہدہ برا ہونا ہوتا ہے اور ذمہ داری کو پورا کرتے ہوئے جد و جہد کی ضرورت ہوتی ہے۔ گہرائی میں دیکھا جائے تو جب تک کائنات کا ذرہ ذرہ اس جد و جہد میں شامل نہیں ہو گا تو جد و جہد کے نتائج سامنے نہیں آ سکتے۔ کائنات کا ذرہ ذرہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے تابع ہے۔ اس لئے جب تلک ذرے ذرے کی جدو جہد میں شمولیت نہیں ہوگی ذمہ داری ادا نہیں ہوگی۔

بھائیو اور بہنو!انسان کا اپنی حاجات اور ضروریات پوری کرنے کے لئے اللہ تعالٰی کے حضور دعا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اپنی ضروریات کو پوری کرنے کے لئے جب وہ عملی طور پر قدم اٹھائے گا تو اسے کائنات کی مخلوق کے ساتھ کی ضرورت ہے، تاکہ اللہ تعالٰی اپنی اس تمام مخلوق کو حکم دے دے کہ اس کی مدد کی جائے۔ جب اس تمام مخلوق کو امر ربی مل جاتا ہے تو اس کی دعا قبول ہو جائے گی۔

بھائیو اور بہنو!ایک مؤمن کی دعا صرف حق کے لئے ہی قبول ہو گی اور اللہ تعالٰی کی مدد حق کے حصول کے لئے ہی شامل حال ہوتی ہے۔ انسان کی جد و جہد جو حق کے لئے نہیں ہوتی اور اس سے نتائج برآمد ہوتے ہیں تو اس میں اللہ تعالٰی کی مدد نہیں ہوتی بلکہ وہ اس نظام کے تحت ہوتے ہیں جو اللہ تعالٰی نے بنی نوع انسان کے لئے اس دنیا میں زندگی گزارنے کے لئے بنایا ہے۔

بھائیو اور بہنو!جو لوگ حق کی راہ سے بھٹک جاتے ہیں تو کلام پاک میں ان کا انجام بھی بتلا دیا گیا ہے


ترجمہ سورۃالنساء آیت نمبر 115

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اور جو کوئی مخالفت کرے رسول کی جبکہ کھل چکی اس پر سیدھی راہ اورچلے

سب مسلمانوں کے رستہ کے خلاف تو ہم حوالہ کر دیں گے اس کو وہی طرف

جو اس نے اختیار کی اور ڈالیں گے ہم اس کو دوزخ میں ط اور وہ بہت بری جگہ پہنچا۔

 

بھائیو اور بہنو!جب ایک مؤمن حق کے لئے قدم اٹھاتا ہے تو حق کے لئے قدم اٹھانا ہی دعا ہے کیونکہ حق کا حق یہی ہے کوئی بھی نیک کام کرنے سے پہلے دعا کی جائے۔ پھر جب اس کے قدم اٹھتے ہیں تو کائنات کی مخلوق، جیسا کہ احادیث میں روایت ہے، اس کے لئے دعا کرتی ہے۔ مثلاًملائکہ، مچھلیاں، بنی نوع انسان وغیرہ وغیرہ۔ اور جماداتی و نباتاتی مخلوق اس کے لئے بچھ بچھ جاتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا امر ہوتا ہے کہ اس نیک بندے کی دعا قبول ہو چکی ہے اس لئے اس کے راستے میں رکاوٹ نہ پیدا کی جائے۔ مثلاً: جب کوئی انسان نیک کام کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے تو اس کو دیکھنے والے کو اللہ تعالٰی کی طرف سے توفیق ہوتی ہے کہ وہ اس کے لئے دعائیہ کلمات کہے۔

بھائیو اور بہنو!اس کے برخلاف جب ایک انسان راہ حق سے بھٹک جاتا ہے تو وہ خود اپنے لئے بدعا کرتا ہے اور اللہ کی مخلوق کو دعوت دیتا ہے کہ اس کے لئے بدعا کی جائے۔ مثلاً: جب کوئی غلط کام کرتا نظر آتا ہے تو دیکھنے والے اسے لعنت و ملامت کرتے ہیں۔بھائیو اور بہنو! اس بنأ پر یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ انسان خود ہی اپنے لئے دعا کرتا ہے اور خود ہی بدعا کرتا ہے۔

بھائیو اور بہنو!ہر انسان کے لئے اس دنیا کی زندگی حقوق اللہ اور حقوق العباد سے مرکب ہے ۔ جب انسان حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کرتا ہے تو اللہ تعالٰی اس سے راضی ہو جاتے ہیں اور اپنی مخلوق کو اپنے بندے کے لئے دعا کرنے کی توفیق دیتے ہیں۔ لیکن جو انسان ان حقوق کی ادائیگی نہیں کرتا اور دوسروں کے حقوق غصب کرتا ہے تو مخلوق اس انسان کو کوستی
ہے۔

 

لب لباب

بھائیو اور بہنو!مختصر یہ کہ انسان کی زندگی دعا پر ہی محیط ہے۔ جب وہ کوئی کام کر رہا ہوتا ہے تو لاشعوری طور پر وہ دعا ہی کر رہا ہوتا ہے کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ کام مکمل ہو جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر وہ دعائیہ کلمات بھی اللہ کے حضور پیش کرتا رہتا ہے تو اس میں اللہ تعالٰی کی مدد شامل حال ہو جاتی ہے اور کام میں اللہ کی برکات کا شمول ہوتا رہتا ہے جو کہ ماحول اور فضا کا حصہ بنتا رہتا ہے اور ہر گزرنے والا اس سے مستفید ہوتا ہے۔ مثلاً: مساجد میں اللہ کا ذکر ہوتا رہتا ہے جو دیواروں میں پیوست ہوتا رہتا ہے اور پھر وہی ذکر نور کی شعائیں بن کر نکلتا ہے اور مساجد میں پھیلتا رہتا ہے اور جو بھی مسجد میں موجود ہوتا ہے اس سے مستفید ہوتا ہے۔ بھائیو اور بہنو! یہ سمجھ میں آنے والی بات ہے کیونکہ جب بندہ مسجد میں ہوتا ہے تو وہ لغو خیالات کو جھٹکتا رہتا ہے اور کوئی نامناسب بات منہ سے نہیں نکالتا، جھوٹ نہیں بولتا، حق تلفی نہیں کرتا اور اگر کوئی نفس اور شیطان کے فریب میں ہوتا ہے تو اس کو منع کرتا ہے۔


بھائیو اور بہنو


اللہ تعالٰی ہر بندے کی شاہ رگ سے بھی قریب ہیں۔

اس لئے بندے کو چاہیےکہ وہ شعوری لا شعوری طور پر ہر لمحہ اللہ سے دعا گو رہے

اور اللہ کی رحمتوں اور برکتوں کو سمیٹتا رہے۔


دعاؤں میں یاد رکھیں

والسّلام

نصیر عزیز

پرنسپل امن کی پکار

Leave a Comment