خط بنام بھابی صاحبہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

امن کی پکار

 

محترمہ بھابھی صاحبہ

 

السّلام علیکم

 

محترمہ بھابی صاحبہ!واللہ اعلم! آپ کے شوہر نے آپ کو میرے متعلق آپ کو تفصیل سے مطلع کیا ہے کہ گزشتہ، کم و بیش، چالیس سال سے میری زندگی کا مقصد، اللہ کے فضل و کرم اور توفیق سے بین الاقوامی سطح پر، بحیثیت امتی خاتم الانبیأ محمد ابن عبداللہ صل اللہ علیہ وسلم، اللہ کا پیغام، دین اسلام پہنچانا ہے اور خود کو اور ہر مسلمان کو مسلمان بننے کی کوشش کرتے رہنا ہے جسے شاعر مشرق علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے، اللہ تعالٰی کی توفیق سے، ایک شعر میں سمو دیا ہے

 

یہ شہادت گۂ الفت میں قدم رکھنا ہے

لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا

 

محترمہ بھابی صاحبہ!مختصر یہ کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السّلام اور حضرت اسماعیل علیہ السّلام نے بیت اللہ کی تعمیر مکمل کر لی تو اللہ تعالٰی نے حضرت ابراہیم علیہ السّلام سے دریافت کیا، جس کا مفہوم ہے، کہ بیت اللہ کی تعمیر کی لئے کیا اجرت درکار ہے؟

 

محترمہ بھابی صاحبہ!حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے عرض کی جس کا مفہوم ہے،

 

اے اللہ! ہمیں مسلمان بننے میں مدد فرما

 

محترمہ بھابی صاحبہ! علمائے کرام کے بیانات کی روشنی میں، مسلمان بننے کو، ایک مثال سے سمجھا جا سکتا ہے۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! کسی کالج میں داخلہ لینے کے لئے اس کالج کے میرٹ پر اترنا ضروری ہے۔ مثلاً میٹرک کے امتحان میں فرسٹ ڈویژن یا ہائر سیکنڈ ڈویژن۔اس مفروضہ کے تحت اگر کالج میں داخلہ مل جاتا ہے تو طالب علم مندرجہ ذیل معلومات کا حاصل کرنا لازمی ہوتا ہے تاکہ وہ خلوص دلی سے ان پر عمل کر سکے اور ایک اچھا طالب علم بن سکے اور زندگی کے ہر موڑ پر کامیاب ہو سکے۔

 

٭کالج کا یونیفارم کیا ہے؟

 

٭ہائر ایجوکیشن، مثلاً ایف اے، بی اے، ایم کا سلیبس کیا ہے؟

 

٭کالج کا آئین کیا ہے؟

 

٭کن حرکات کی وجہ سے کالج سے نکالا جا سکتا ہے؟

 

٭طلبأ کی تعلیمی استعداد جاننے کے لئے امتحانات کتنے عرصہ کے بعد لئے جاتے ہیں؟

 

٭فائنل امتحان میں کامیاب ہونے کا کیا معیار ہے تاکہ طلبأ اگلے درجہ میں منتقل ہو سکیں؟

 

٭وغیرہ۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! طلبأ کو کالج میں تعلیم کے حصول کی غرض کے لئے صاف ستھرے کالج ینیفارم کا پہننا لازمی ہوتا ہے۔ جب طالب علم گھر سے روانہ ہوتا ہے تو کالج پہنچنے تلک راستے میں لوگ جب طالب علم کو کالج یونیفارم میں دیکھتے ہیں تو وہ پہچان جاتے ہیں کہ وہ فلاں کالج کا طالب علم ہے۔ اگر اس کالج کی پڑھائی کا معیار بلند ہے تو لوگ اس کالج کے طلبأ کو رشک بھری نظروں سے دیکھتے ہیں۔ جو طلبأ تعلیم کے حصول کے نچلے درجہ میں ہیں ان کی دلوں میں تمنا جنم لے گی کہ وہ ہائر ایجوکیشن کے حصول کے لئے اسی کالج میں داخلہ لیں گے۔ اور جن لوگوں کے بچے تعلیم کے نچلے درجے میں ہیں، ماں باپ کے دلوں میں یہ تمنا جنم لے گی وہ وہ اپنے بچوں کو اسی کالج میں داخلہ لے کر دیں گے۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! دوسرے الفاظ میں اس کالج سے ہو نہارطلبأ کا ظہور ہوتا رہے گا۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! علمائے کرام فرماتے ہیں کہ ہر موقعہ کے لئے لباس کا ترتیب دیا جاتا ہے۔ مثلاً اگر ایک لڑکی دلہن جیسا لباس پہن کر کالج جائے گی تو اس کے دل و دماغ میں لیکچر کے مضمون کی روح نہیں سما سکے گی بہ نسبت اس طالب علم کے جو کالج یونیفارم میں ہے۔ اس لئے ہر مسلمان کو ہروقت سنت لباس میں ملبوس ہونا چاہیے۔ علمائے کرام مزید فرماتے ہیں کہ ہر وہ لباس سنت لباس ہے جس میں ہر مرد اور ہر عورت مسلمان نظر آئے۔ اسی طرح بچوں کی پیدائش کے ساتھ ہی مسلمان نظر آنے والا لباس پہنایا جائے۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! کیئر ہوم میں آپ کے شوہر سے ملاقات ہوئی۔ مختصر یہ کہ منصوبہ امن کی پکار نے تقاضا کیا کیا کہ آپ کے شوہر اور ان کے اہل و عیال کی شخصیات کا ذہنی طور پر تجزیہ کیا جائے۔ الحمد للہ! تجزیہ کا لب لباب یہ سمجھ میں آیا کہ آپ کے شوہر، آپ کی اور آپ کے صاحبزادوں کی شخصیات شریف النفس ہیں۔ تاہم مغربیت کے اثرات بھی آپ کی فیملی کی شخصیات کا حصہ ہیں۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ!قرآن اور حدیث کی روشنی میں کسی کی اصلاح کے لئے اس سے سوالات نہیں کرنے چاہیں بلکہ اس کے سامنے حق بات کو باتوں باتوں میں پیش کرتے رہنا چاہیے تاکہ موصوف اپنی دین کے ضمن میں لا پرواہیوں کا احساس کر سکے۔ذیل میں آپ کے شوہر کی اصلاح کے لئے مندرجہ ذیل قدم اٹھائے گئے۔

 

٭الحمد للہ! اللہ تعالٰی اپنے فضل وکرم سے اس گنہگار کو پانچ وقت کی نماز ادا کرنے کی توفیق فرماتے ہیں۔ آپ کے شوہر کو نماز ادا کرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ ان سے دریافت نہیں کیا گیا کہ وہ نماز کیوں ادا نہیں کرتے۔ کچھ دنوں کے بعد انہوں نے، اللہ کے فضل و کرم سے، ظہر کی نماز ادا کرنی شروع کر دی۔ پھر انہوں نے چند دنوں کے بعد ظہر کی نماز ادا کرنی چھوڑ دی۔آپ کے شوہر ظہر کی نماز کے صرف فرض ادا کرتے تھے۔ ذہن میں خیال جنم لیا کہ غالباً ان کا تعلق اہل حدیث کے مکتب فکر سے ہے۔ ان سے دریافت نہیں کیا گیا کہ انہوں نے نماز ادا کرنی کیوں چھوڑ دی۔

 

٭ الحمد للہ رمضان المبارک کی آمد تھی۔ آپ کے شوہر سے عرض کی تھی کے انشأاللہ آپ کو ماہ رمضان کی آمد میں جائے نمازکا تحفہ دیا جائے گا۔ انہوں نے فرمایا کہ اس سے اچھا کیا تحفہ ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کئیر ہوم میں نماز ادا نہ کرنے کی یہ تاویل پیش کی کہ مریضوں کی خدمت کرتے ہوئے کپڑے ناپاک ہو جاتے ہیں اس لئے اس لئے نماز ادا نہیں کی جاتی۔ اس وقت انہوں نے یہ نہیں بتلایا کہ وہ گھر میں پانچ وقت کی نماز ادا کرتے ہیں۔ کسی دوسرے وقت میں جب انہوں نے بتلایا کہ وہ گھر میں پانچ وقت کی نماز ادا کرتے ہیں تو ان سے دریافت کیا گیا کہ آپ نے پہلے کیوں نہیں بتلایا۔ تو انہوں نے یہ تاویل پیش کی کہ اللہ تعالٰی کا حکم ہے کہ نیک کام کی تشہیر نہ کی جائے۔ ان سے عرض کی گئی کہ نماز، روزہ، زکواۃ، حج اللہ تعالٰی کے حقوق ہیں اور ان کو تشہیر کی جائے تاکہ دوسرے لوگ غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو جائیں۔ مثلاً جب آپ کو نماز ادا کرتے ہوئے نہیں دیکھا تو غلط فہمی نے جنم لیا کہ آپ بھی ان مسلمانوں میں سے ہیں جو نماز ادا نہیں کرتے۔

 

٭ انہوں نے یہ نہیں بتلایا کہ الحمد للہ آپ بھی پانچ وقت کی نماز کی پابند ہیں۔ آپ کے پانچ وقت کی نماز کی پابندی کا کا اس رقت علم ہوا جب آپ کے شوہر گزشتہ سال پاکستان گئے تھے۔ الحمد للہ چھوٹے سے کاروبار کے منیجر کے ذریعے ان تحائف پیش کئے۔ دل میں خیال جنم لیا کہ گھر کی عورت جو مزیدار کھانا بنا کر بھیجتی ہے اس کا بھی حق ہے کہ اس کی خدمت میں بھی تحفہ ارسال کیا جائے۔ آپ کے لئے عبایا بھیجی تھی۔ آپ کے شوہرنے آپ کو بتلایا کہ نصیر صاحب نے آپ کے لئے عبایا تحفتہً بھیجی تھی لیکن میں نے اس لئے وہ عبایا اپنی کزن کو دے دی کہ آپ عبایا کا استعمال نہیں کریں گی۔ بقول آپ کے شوہر کہ آپ نے کچھ ناراضگی کا اظہار کیا اور یہ فرمایا۔

 

عبایا لے آتے۔ میں نماز ادا کرتے ہوئے پہن لیا کرتی۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! اس طرح معلوم ہوا کہ الحمد للہ آپ پانچ وقت نماز کی پابند ہیں۔ اللہ تعالٰی سے پرخلوص دعا ہے کہ آپ کی نمازوں اور نیک کاموں کو، اپنے فضل و کرم سے قبول فرمائے۔ آمین ثم آمین۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! مختصر یہ کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں مرد اور عورت میں مساوات ہے۔ عورت فطری طور پر کمزور ہے اس لئے مرد کو عورت پر فضیلت ہے دی گئی ہے۔ مرد کو عورت پر فضیلت ہے لیکن وہ مرد سے کمتر نہیں ہے۔ الحمد للہ! عورت ذہین ہے لیکن بھولی ہے۔ مرد ذہین ہے مگر چالاک ہے۔ مرد کی عورت پر دوسری وجہ یہ نظر آتی ہے کہ عورت صدمہ کو جلد سہار نہیں سکتی اور جذبات میں بہہ جاتی ہے۔ مرد ہی اسے باپ بھائی یا شوہر کی حیثیت سے سہارا دیتا ہے۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! اگر عقابی نظر سے دیکھا جائے تو نظر آئے گا الحمد للہ اللہ تعالٰی نے، اپنے فضل و کرم سے، عورت کو مرد پر ایسی فضیلت دی ہے کہ وہ عورت کے بغیر ایک پل بھی نہیں گزار سکتا اور وہ اپنی قابلیتوں اور صلاحیتوں کہ اجاگر کرنے میں عورت یعنی ماں کا محتاج ہے۔ یہ عورت ہی ہے جو بطور ماں اپنے بیٹوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کرتی ہے جو کہ اعلٰی تعلیم کے حصول کی بنیاد بنتی ہے۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ!عام طور میں تاریخ یہ بتلاتی ہے کہ مردوں نے چودہ سوسال پیشتر، اللہ کے فضل و کرم سے، دین اسلام پوری دنیا میں پھیلایا یعنی جنگوں میں حصہ لیا اور فتح ہونے پر مفتوحہ علاقوں کے باشندوں کو دین اسلام کی تعلیمات دیں۔ لیکن تاریخ یہ بھول جاتی ہے کہ ان مردوں کی تعلیم و تربیت کس نے کی تھی۔ مختصر یہ کہ صحابہ اکرام رضوا ن اللہ تعالٰی علیہم اجمعین جو دین اسلام کی تعلیمات خاتم الانبیأ محمد ابن عبداللہ صل اللہ علیہ وسلم سے حاصل کرتے تھے تو وہ تعلیمات گھروں میں آکر اپنے اہل خانہ میں دہراتے تھے جن میں اہلیہ، ماں اور بیٹیاں شامل ہوتی تھیں۔ بطور عورت وہ دین اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں اپنی اولاد کی پرورش کرتی تھیں جس کی وجہ سے ان میں شجاعت، ذہانت،اور دین اسلام کے فروغ کے لئے تن من کی بازی لگا دینے کا جذبہ جنم لیتا رہتا تھا اور پھر میدان جنگ میں، حقیقت میں، ان کے دل و دماغ میں ماں کی تعلیم و تربیت رواں دواں ہوتی تھی اور اللہ کے فضل و کرم سے فتوحات ہوتی تھیں اور مفتوحہ علاقوں کے باشندوں کو جو دین اسلام کی تعلیم دی جاتی تھی ان میں بھی ماؤں کی تعلیم و تربیت ہی سزا وار ہوتی تھی۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ!اب سوال جنم لیا کہ عورتوں کی شخصیت میں جو مغربی اثرات ہیں ان کو کس طرح زائل کیا جاسکتا ہے؟

 

محترمہ بھابی صاحبہ! منصوبہ امن کی پکارکا مقصد صرف آپ کی شخصیت میں مغربی اقدار کو زائل کرنا نہیں ہے بلکہ دنیا کی تمام عورتوں کی شخصیات میں سے مغربی اقدار کو زائل کرنے کی کوشش کرنا ہے کیونکہ چالاک مرد نے مساوات کے دعوٰی کا دھوکہ دے کر عورت کو کھلونا بنا کر رکھ دیا ہے اور اپنی نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے عورت کو اس طرح سے ذہنی طور مفلوج کر دیا کہ وہ لا شعوری طور پر سمجھنے لگ گئی ہے کہ اس کی زندگی کا مقصد ہی جسم کی نمائش کرتے رہنا ہے۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! مختصر یہ کہ اللہ تعالٰی کی توفیق سے یہ سمجھ میں آیا کہ ایسا مضمون تصنیف کیا جائے کہ عورت کی روزمرہ کی زندگی میں ان پہلوؤں کا تذکرہ کیا جائے جو اس کی روزمرہ کی زندگی کا حصہ ہیں جو وہ اپنی ذمہ داری سمجھ کر کرتی ہے لیکن اگر وہ روزمرہ کی زندگی قرآن و حدیث کی روشنی میں کرتی ہے تو اس کی روز مرہ کی زندگی کا ہر لمحہ عبادت بن سکتا ہے۔ محترمہ بھابی صاحبہ! یہ مضمون بنام محترمہ بھابی صاحبہ ایڈریس کیا گیا ہے اور ویب سائٹ

 

www.cfpislam.co.uk

پر اللہ کی توفیق سے بنام اللہ کی نعمتیں شائع کر دیا گیا ہے۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! آپ سے گزارش ہے کہ آپشن اللہ کی نعمتیں میں جو مضامین شائع کئے گئے ہیں انکا مطالعہ شروع کر دیں۔ جو پہلو آپ کی زندگی میں ہیں ان پر اللہ تعالٰی کا شکر ادا کریں اور جو پہلو آپ کی زندگی میں نہیں ہیں ان کو اپنی روز مرہ کی زندگی میں لانے کی کوشش کریں۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ!الحمد للہ یہ پیغام تمام دنیا کی عورتوں کے لئے ہیں۔ انشأ اللہ ان مضامین کا انگلش زبان میں بھی کر دیا جائے گا۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ!الحمد للہ! ان مضامین کے لکھنے کی بنیاد آپ کی شخصیت ہے اس لئے جو عورت بھی ان مضامین کا مطالعہ کر کے اپنی زندگی کو صحیح نہج پر لائے گی تو انشأاللہ اس کا ثواب بھی آپ کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! آپ کی شخصیت کا جو ذہنی طور پر کیا گیا ہے اس کے پیش نظر،

 

٭الحمدللہ !آپ میں سگھڑ پن ہے۔ اس کا مشاہدہ اس طرح سے ہوا کہ ایک مرتبہ آپ کے شوہر کے دولت کدہ پر بغیر اطلاع پر حاضری ہوئی تھی۔ اس وقت میرے پاس ان کا فون نمبر نہیں تھا۔ لاؤنج میں بیٹھا تھا۔ گردو نواح خصوصاً کچن کا جائزہ لیا تو ہر شئے اپنے جگہ پر سلیقے سے رکھی ہوئی آئی۔ آپ کی زندگی بہت مصروف نظر آتی ہے۔ مثلاً صبح اٹھ کر کام پر جانا، شام کو گھر آ کر کھانا پکانا، کچن کی صفائی کرنا، اہل خانہ کے کپڑے دھونا، گھر کی صفائی کرنا وغیرہ۔

 

٭الحمدللہ !آپ ذمہ دار بیوی ہیں اور ماں ہیں۔ اہل خانہ کا شریف النفس ہونے میں عورت کا کردار بہت زیادہ ہوتا ہے۔ آپ کے شوہر نے بتلایا تھا کہآپ کے صاحبزادے عام نوجوانوں سے بہت مختلف ہیں۔ گھر سے باہر ضرورت کے تحت جاتے ہیں اور کسی ایسی لت میں مبتلا نہیں ہیں جو کہ آج کے معاشرے میں عام ہے۔ مثلاً شراب، جوأ اور عورت بازی۔ آپ کے شوہر نے بتلایا تھا کہ آپ کے صاحبزادے حسن نے ان سے کہا تھا کہ اس کے لئے دعا کریں کہ وہ اللہ کے قریب ہو جائے۔ الحمد للہ یہ صوفیانہ سوچ ہے۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! الحمد للہ! آپ شریف النفس ہیں۔ آپ جو اللہ کا فضل تلاش کر رہی ہیں وہ بھی خدمت خلق ہے۔ بقول آپ کے شوہر کہ آپ بھی ان کی طرح بزرگوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے دل میں انسانیت کا درد موجود ہے۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! علمائے کرام فرماتے ہیں کہ جن لوگوں کے دلوں میں انسانیت کا درد موجود ہوتا ہے، اللہ تعالٰی، اپنے فضل و کرم س کسی لمحے بھی اس کی زندگی کا رخ اپنی طرف تبدیل فرما دیتے ہیں اس ضمن میں ایک واقعہ پیش خدمت ہے۔

 

٭پرانے زمانے میں ایک باندی تھی۔ بہت خوبصورت تھی، جسم میں لچک ہونے کے باعث بہت اچھی ڈانسر تھی، سریلی آواز کی وجہ بہت اچھی گائکہ تھی۔

 

٭ایک مرتبہ وہ اپنے آقا اور اس کے دوست احباب کے سامنے ناچ رہی تھی اور گا رہی تھی۔ دفعتہً اس پرحال کی کیفیت طاری ہو گئی۔ مختصر یہ کہ اس کو زنجیروں سے باندھ دیا اور کوتوال کے پاس جیل خانہ میں لے آئے۔

 

٭اللہ کی رضا سے جیل خانہ کے قریب سے ایک بزرگ کا گزر ہوا۔ انہوں نے جب شور سنا تو وہ اندر گئے اور دیکھا کو ایک بہت خوبصورت لڑکی کو زنجیروں میں باندھا ہوا ہے اور وہ تڑپ رہی ہے۔

 

٭مختصر یہ کہ اس باندی کا آقا بھی موجود تھا۔ اسنے ان بزرگ کو بتلایا کہ لڑکی اس کی باندی ہے اورناچتے ہوئے اور گاتے ہوئے دفعتاًحال کی کیفیت طاری ہو گئی جس کی وجہ سے اس کو زنجیروں میں باندھ کر یہاں لے آئے ہیں۔

 

٭بزرگ نے بندی کے آقا سے پوچھا کہ کیا وہ اس باندی کو فروخت کرتا ہے؟ مختصر یہ کہ آقا تے 20 ہزار قیمت مانگی۔ بزرگ نے فرمایا کو وہ دوسرے دن رقم لے آئیں گے۔

 

٭بزرگ نے گھر آکر دو رکعت صلوٰۃ الحاجات ادا کیاور گڑگڑا کراللہ تعالٰی سے سرپرستی کی درخواست کی۔ الحمد للہ! صبح اللہ کے ایک بندے نے ان کے حوالے ایک تھیلی پیش کی کہ فلاں شخص نے ان کے لئے ہدیہ بھیجا ہے۔

 

٭الحمد للہ! بزرگ جیل خانہ گئے۔تاکہ باندی کوخرید لائیں اور اللہ کی توفیق سے اس کی تعلیم و تربیت کر کے اسے آزاد کر دیں۔

 

٭جب بزرگ کی آقا سے بات چیت ہوئی تو پتہ چلا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ باندی اللہ کی ذات میں کھو گئی ہے۔ میں اپنی عیش و عشرت کی زندگی سے، اللہ کی توفیق سے، توبہ کرتا ہوں اور اللہ تعالٰی سے معافی کا خواستگارہوں اور اس باندی کو آزادکرتا ہوں۔ آپ اسے لے جائیں۔ کوتوال نے جب یہ دیکھا تو اس نے بھی اللہ تعالی کی طرف رجوع کر لیا۔

 

٭بزرگ باندی کو کو لے کر اپنے گھر آ گئے۔

 

مشاہدہ

 

محترمہ بھابی صاحبہ! باندی کا یک دم اللہ کی طرف رجوع ہونے کی وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ باندی عشقیہ اشعار گا رہی ہوگی اور اشعار کی نسبت دنیاوی محبوب کی طرف ہوگی لیکن اللہ تعالٰی نے، اپنے فضل و کرم سے، دفعتہً ان اشعارکی نسبت اپنی طرف منسوب کر دی۔ جب باندی کے دل میں اللہ کی محبت نے جنم لیا تو وہ اللہ کی محبت میں کھو گئی اوراس پر حال کی کیفیت طاری ہوگئی۔ الحمد للہ! ان بزرگوں نے اس باندی کی تعلیم و تربیت کی ہوگی اور پھر اس باندی نے آزاد ہو کر شادی کی ہوگی اور اور اپنی اولاد کو دین کی تعلیم دی ہوگی۔

 

اللہ کا اپنے بندوں کو اپنی طرف رجوع کرنے کا دستور نرالا ہے۔ اللہ کے تین بندے، باندی، اس کا آقا اور کوتوال کو اپنی طرف اس وقت رجوع کرنے کی توفیق دی جب وہ عیش و عشرت کی زندگی میں ملوث تھے۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! الحمد للہ! آپ نماز کی پابند ہیں، بقول آپ کے شوہر کے ماہ رمضان کے روزے بھی رکھتی ہیں، زکواۃ بھی دیتی ہوں گی۔ بقول آپ کے شوہر کے اس سال حج کرنے کا ارادہ بھی ہے۔ آپ سے گزارش ہے کہ دو رکعت صلواۃ الحاجات ادا کریں اور خلوص دل سے اللہ کی بارگاہ دعا کریں کہ آپ کے دل کو اپنی (اللہ) طرف خلوص دل سے رجوع ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔

 


اسلامی لباس دین اسلام کی اشاعت کا بنیادی حصہ ہے

 

محترمہ بھابی صاحبہ! لباس انسان کی ضرورت ہے۔لباس مرد اور عورت کے اجسام کے خط و خال کو چھپاتا ہے۔ عام طور پر مرد اور عورت کے مخصوص اعضا کو شرمگاہ سمجھا جاتا ہے۔ علمائے کرام فرماتے ہیں کہ مرد و عورت کے جسم کا ہر حصہ شرمگاہ ہے کیونکہ مرد اور عورت کے ا جسام کا ہر حصہ ایک دوسرے کے کسی بھی حصہ کو جب برہنہ دیکھتا ہے یا ایسا لباس پہنا جائے جس سے جسم کے خط و خال ظاہر ہو جائیں تو دونوں کے دل میں شہوت جنم لیتی ہے۔ اس کی مثال روز روشن کی طرح ظاہر ہے کہ کس طرح کسی بھی شئے کی خریداری کو بڑھانے کے لثے عورت کے پاؤں سے لے کر سر کے بالوں کو نمایاں طور پر اشتہارات میں پیش کیا جاتا ہے۔اسی طرح مردوں کے لباس کی خریداری کو بڑھانے کے لئے اس ٹانگوں، بازو، کہنیوں، ہاتھوں اور سینہ کو اشتہارات میں پیش کیا جاتا ہے۔ عورتیں مردوں کی مرکز نگاہ بننے کے لئے ایسے لباس خریدتی ہیں اور عملی طور پر اس کی تشہیر ہوتی ہے۔ اسی طرح مرد ایسے لباس خریدتے ہیں کہ وہ عورتوں کی مرکز نگاہ بن سکیں اور پھر جب نگاہوں سے ایک دوسرے کے پیغام نشر ہوتے ہیں تو پھر دونوں فریق لباس سے آزاد ہو جاتے ہیں اور مخصوص شرمگاہیں آپس میں مل جاتی ہیں۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ!علمائے کرام فرماتے ہیں کہ لباس دو طرح کا ہوتا ہے،

 

٭تقوٰی کا لباس

 

٭فیشن کا لباس

 

تقوٰی کا لباس

 

محترمہ بھابی صاحبہ! علمائے کرام فرماتے ہیں کہ تقوٰی کا لباس وہ لباس ہے جسے جب مرد اور عورت پہنتے ہیں تو ایک دوسرے کے دل و دماغ میں ایک دوسرے کی عزت اور قدر و قیمت کے جذبات جنم لیتے ہیں اور اگر شیطان وسوسہ ڈالنے کی کوشش کرے تو اس کو جھٹک دیتے ہیں۔

 

فیشن کا لباس

 

محترمہ بھابی صاحبہ!فیشن کا لباس وہ لباس ہے جو ڈیزائنرز لباس کے رنگ، ڈیزائن، وغیرہ ترتیب دیتے ہیں۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! تقوٰی کا لباس میں مرد اور عورت کے اجسام ڈھنپے ہوئے ہوتے ہیں اور ان کے اجسام کا کا کوئی خط و خال نظر نہیں آتا جبکہ فیشن کے لباس میں جسم کا ہر خط و خال نظر آتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں فیشن کے لباس میں پورا جسم برہنہ ہوتا ہے خواہ کچھ حصہ ڈھانپا ہوا ہو۔ بلکہ جس طرح جسم کے عضو کو ڈھانپا جاتاہے وہ بالکل برہنہ حصہ کو اور پرکشش بنا دیتا ہے۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ!علمائے کرام فرماتے ہیں کہ جب تلک حضرت آدم علیہ السّلام اور حضرت حوا رضی اللہ تعالٰی تقوٰی کے لباس میں تھے تو ان میں شہوت نے نہیں جنم لیا تھا۔ لیکن جب انہوں نے ممنوعہ درخت کا پھل کھا لیا تو اسی وقت تقوٰی کا لباس اتر گیا اور وہ برہنہ ہو گئے اورمخصوص شرمگاہوں کو جنت کے پتوں سے ڈھانپ لیا تھا۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ!علمائے کرام فرماتے ہیں کہ جس طرح کالج کا یونیفارم پہننے سے طالب علم کی شناخت ہوتی ہے اسی طرح مسلمان کی شناخت اس کے لباس سے ہونی چاہیے۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ!مختصر یہ کہ مرد کے لئے اسلامی لباس سر پر سفید ٹوپی اور شلوار قمیض پہنی ہو یا پھر عربی لباس۔ بہتر ہوگا کہ کپڑوں کا رنگ سفید ہو۔ عورتوں کا اسلامی لباس شلوار قمیض اور دوپٹہ گریبان پر ہو اور سر کے بالوں کو چھپانے کے سکارف باندھا ہوا ہو۔ بہتر ہو گا کہ گھر میں بھی عبایا پہن رکھی ہو اور جب گھر سے باہر جانے کی ضرورت پیش آئے تو عبایا تو پہنی ہوئی ہوگی چہرہ نقاب سے ڈھانپ لیا جائے۔ آنکھیں جھکا کر چلنا چاہیے تاکہ کسی سے آنکھیں دو چار نہ ہو سکیں کیونکہ آنکھیں ہی پیغام رساں ہوتی ہیں۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! علمائے کرام قرآن اور حدیث کی روشنی میں فرماتے ہیں کہ جب کسی کی اصلاح کرنے کی کوشش ہو تو بہتر ہوگا کہ موصوف کو ایسا تحفہ دیا جائے کہ وہ مسلمان نظر آئے۔ الحمد للہ! منصوبہ امن کی پکار نے آپ کے شوہر کی فیملی کے لئے مندرجہ ذیل تحائف پیش کرنے کی ترغیب دی ہے۔

 

آپ کے لئے

 

محترمہ بھابی صاحبہ!آپ کے لئے مندرجہ ذیل تحائف پیش خدمت ہیں،

 

٭عبایا

 

٭سکارف

 

٭نقاب

 

٭دستانے

 

٭گھر سے باہر پہنے والی کالے رنگ کا جوتی

 

٭گھر کے اندر پہننے والے سلیپر

 

٭جرابیں

 

محترمہ بھابی صاحبہ! عام طور پر عورتوں کی جوتوں کا سائز 6 یا 61/2 ہوتا ہے۔ جوتی 6 1/2 کی بنوائی ہے۔ تاہم! اگر آپ کے جوتوں کا سائز چھوٹا ہو تو اس کے لئے ایک پیک بھی بنوایا ہے۔

 

آپ کے شوہر کے لئے

 

محترمہ بھابی صاحبہ! اس پیکیج میں آپ کے شوہر کے لئے گھر میں پہننے والے سلیپر ہیں۔ ان کو ایک ٹوپی، ایک سفید سوٹ، بنیانیں، رومال، ایک چپلی، جائے نماز پیش کئے جا چکے ہیں۔ سفید سوٹ چونکہ میرے سائز کا تھا اس لئے ان کے لئے بڑا سائز تھا۔

 

آپ کے صاحبزادوں کے لئے

 

محترمہ بھابی صاحبہ! اس پیکیج میں آپ کے صاحبزادوں کے لئے ٹوپیاں ہیں۔ سر پر سفید ٹوپی مسلمان ہونے کی نشانی ہے۔ ایک واقعہ پیش خدمت ہے۔ ہندوستان میں ہندو مسلمانو ں پر غلبہ حاصل کرتے تھے جس سے فساد برپا ہو جاتا تھا۔ ایک عالم نے، اللہ تعالٰی کی توفیق سے، پانچ ہزار سفید ٹوپیاں خریدیں اور تمام مسلمانو ں کے گھروں میں تقسیم کر دیا اور ہدایت کی تمام مرد سفید ٹوپیاں پہن کر گھروں سے باہر نکلا کریں۔ جب ہندوؤں نے دیکھا کہ یکدم اتنے مسلمان کہاں سے آ گئے تو ان کے حوصلے پست ہو گئے۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ!مسلمانوں کے زوال کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے ایسا لباس پہننا چھوڑ دیا جس سے ان کی شاخت بطور مسلمان ہو سکے۔ بلکہ مسلمانوں کی اکثریت نے غیر مسلموں کا لباس اپنا لیا۔

 

مزاح کا عنصر

 

محترمہ بھابی صاحبہ! ابھی تلک تو مضمون خشک تھا۔ کچھ مزاح کا عنصر بھی شامل ہو جائے۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ!جوتوں کے کی دو جگہیں ہوتی ہیں۔ ان دو جگہوں کا ذکر نے سے پیشتر اپنا ذاتی واقعہ پیش خدمت ہے۔

 

٭ میری اہلیہ کی ہمشیرہ نے امریکہ سے میری اہلیہ کے لئے جوتیاں بھیجیں۔

 

٭میری اہلیہ نے مجھے بتلایا کہ میری ہمشیرہ نے میرے لئے یہ جوتیاں بھیجی ہیں۔

 

٭میں نے برملا اسے کہا۔

 

یہ تمہارے لئے نہیں

میرے لئے بھیجی ہیں۔

 

میرے برملا جواب کو سن کر وہ بہت ہنسیں۔

اللہ تعالٰی ان کی مغفرت فرمائے اور درجات کو بلند فرمائے۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ!مختصر یہ کہ ازواجی زندگی میں شوہر اور بیوی کے درمیان ایک دوسرے کی حق تلفی ہو جاتی ہے یا کی جاتی ہے۔اس ضمن میں دوسرے فریق پر اگر سول کرائم ہے تو گھر کے اندر والی جوتی کا استعمال کیا جائے اور اگر مجرمانہ کرائم ہے تو گھر سے باہر والی جوتی کا استعمال کیا جائے۔ حق تلفی ہو جائے تو سول کرائم ہے۔ حق تلفی کی جائے تو مجرمانہ کرائم ہے۔

 

اللہ کی رحمتوں کا رک جانا

 

محترمہ بھابی صاحبہ!علمائے کرام فرماتے ہیں کہ اس کائنات کا نظام اللہ تعالٰی کی رحمتوں اور برکتوں کا محتاج ہے۔ اگر کائنات میں اللہ تعالٰی کی ہدایت کے مطابق زندگی گزاری جاتی ہے تو اللہ تعالٰی کی رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوتا رہتا ہے۔ لیکن اگر اللہ کی ہدایت کے مطابق زندگی نہیں گزاری جاتی تر اللہ تعالٰی کی رحمتوں اور برکتوں کا نزول رک جاتا ہے۔ مختصر یہ کہ آج کے دور میں بد امنی کا اس لئے دور دورہ ہے کہ اللہ کی ہدایت کے مطابق زندگی نہیں گزاری جارہی اس لئے اللہ تعالٰی کی رحمتیں اور برکتیں رکی ہوئی ہیں۔ تاہم! جو روزمرہ کی زندگی میں اللہ تعالٰی کی نعمتوں کا نزول ہو رہا ہے وہ اس وجہ سے ہے کہ اللہ تعالٰی نے اپنے فضل و کرم سے بنی نوع انسان کی پروش کا ذمہ لے رکھا ہے۔ دوسری وجہ یہ نظر آتی ہے کہ اللہ تعالٰی نے اپنے فضل و کرم سے توبہ و استغفار کا دروازہ کھول رکھا ہے کہ بندے جب اللہ کی طرف رجوع کریں گے اور اللہ تعالٰی اپنے فضل و کرم سے معاف فرما دیں گے تو پھر اللہ تعالٰی کی رحتوں اور برکتوں کا نزول شروع ہو جائے گا۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! ایک گھر بھی کائنات کے حصہ ہے۔ گھر میں جب تلک اللہ کی ہدایت کے مطابق زندگی گزاری جائیگی تو گھر کی فضا میں امن و سکون کے لہریں رواں دواں رہتی ہیں اوراللہ کی رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوتا رہتا ہے۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ!علمائے کرام فرماتے ہیں کہ اللہ تعالٰی نے انسان کو امتحان کے لئے اس دنیا میں بھیجا ہے۔ بعض اوقات مسلمان جس ماحول میں رہائش پذیر ہوتا اس کے اثرات سے متاثر ہو جاتا ہے۔ مثلاً مغرب میں کتوں کے پالنے کا رواج ہے۔ مسلمان بھی اپنے گھروں میں کتے پال لیتے ہیں۔ ایک مرتبہ جب آپ کے شوہر کے دوولت کدہ میں بغیر اطلاع کے حاضر ہوا تھا تو نظر آیاکہ کتا بھی گھر کا ایک فرد ہے۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ جس گھر میں کتا ہو اس گھر میں رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! سوال جنم لیتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟

 

محترمہ بھابی صاحبہ!ایک واقعہ پیش خدمت ہے۔

 

٭مولانا اشرف علی تھانوی رحمتہ اللہ علیہ اور علیگڑھ یونیورسٹی کے کچھ طلبأ ریل کے ایک ہی ڈبے میں سفر کر رہے تھے۔ طلبأ مولانا اشرف علی تھانویرحمتہ اللہ علیہ کہ پہچانتے نہ تھے اور ان کو ایک عام عالم سمجھے۔

 

٭طلبأ نے چھیڑ خانی کے لئے مولانا سے یہ سوال کیا کہ مولانا کتا ایک وفادار اور محبت کرنے والا جانور ہے۔ اسے شرعیت نے گھر میں رکھنے سے یا پالنے سے کیوںمنع کیا گیا ہے؟

 

٭مولانا رحمتہ اللہ علیہ نے سوچا کہ اگر میں نے ان کوقرآن اور حدیث کی روشنی بتلانے کی کوشش کی تو ایک لمبی بحث چھڑ جائے گی۔ انہوں نے بتلایاجس کا مفہوم ہے کہ بلا شبہ کتا ایک وفادار اور محبت کرنے والا جانور ہے لیکن کی اس کی فطرت میں ہے کہ اپنی ہی جنس کو دیکھ کر بھونکناشروع کر دیا ہے۔ اس لئے جس گھر میں کتا ہوگا اس گھرکے مکینوں میں بھی یہ خصلت جنم لیتی رہے گی۔ اس کے علاوہ وہ گھر میں اور گھر سے باہر اجنبی کو دیکھ کر بھونکتا ہے اور اس پر حملہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

 

٭طلبأ نے یہ سن کر کانوں کو ہاتھ لگائے کہ توبہ توبہ ہم کتوں کی خصلت کو نہیں اپنانا چاہتے۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! آئیے اب تجزیہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس کی کیا لاجیکل وجوہات ہو سکتی ہیں کتے کو گھر میں رکھنے یا پالنے سے منع کیا گیا ہے۔

 

٭اول کتے کی زبان ناپاک ہے اور ہر وقت وہ زبان باہرنکالے رکھتا ہے وہ اس وجہ سے کہ وہ زبان کے ذریعے سے آکسیجن حاصل کرتا ہے۔ غیر مسلوں کا مشاہدہ کیا گیا ہے کہ وہ کتوں کو گود میں اٹھاتے ہیں اورکتے ان کے منہ چومتے ہیں اور وہ کتوں کے منہ کو چومتے ہیں۔

 

٭کتے کا جسم جب تلک خشک ہوتا ہے تو پاک ہوتاہے لیکن جب اس کا جسم گیلا ہو جاتا ہے تو وہ ناپاک ہو جاتا ہے۔ گیلے جسم سے کتا جس شئے کوبھی چھوئے گا وہ شئے ناپاک ہو جائے گی۔

 

٭کتا گھر میں گھومتا پھرتا ہے۔ اس کے منہ سے رال گرتی رہتی ہے۔ جب اسے نہلایا جاتا ہے یا وہ بارش کے پانی سے بھیگ جاتا ہے تو اس کا جسم ناپاک ہو جاتا ہے جب وہ جسم کو جھٹکتا ہے تو پانی کے قطرے آس پاس کی اشیأ پر پڑتے یہں جو ناپاک ہو جاتی ہیں۔ جب ناپاک اشیأ جب خثک ہو جاتی ہیں تو پاک نہیں ہوتیں بلکہ ان کو پاک کرنے کے لئےتین دفعہ دھونا پڑتا ہے۔

 

٭کتا گھر کے اندر ہی، گو مخصوص جگہ پر، بول و برازبھی کرتا ہے۔ اس میں سے جو اثرات نکلتے رہتے ہیں وہ گھر کی فضا کا حصہ بنتا رہتا ہے اور گھر کی فضا پولیوٹ ہوتی رہتی ہے۔ کتے کی غذا گوشت ہوتی ہے جس کی وجہ سے اس کے بولو براز کی بدبو بہت بدبوداری ہوتی ہے۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! یہ بات سمجھ میں آنے والی ہے کہ ایک شئے جس سے پیار ہو جائے اسے اپنے سے جدا کرنا بہت مشکل ہوتا ہے لیکن اللہ کی خاطر قربانی دینی پڑتی ہے۔ کتے کو گھر میں نہ رکھنے کی وجوہات ذکر کی گئی ہیں ان کا جائزہ لیں کہ آپ کے گھریلو حالات میں ان کے کیا اثرات ہیں۔

 

اللہ تعالٰی کا بندوں کی اصلاح کرنا

 

محترمہ بھابی صاحبہ!مختصر یہ کہ اللہ تعالٰی رحمان اور رحیم ہیں۔ اللہ تعالٰی علیم ہونے کے ناطے سے جانتے ہیں کہ آپ کے شوہر کی فیملی شریف النفس ہے لیکن مغربیت کے اثرات کا عنصر بھی ان کی شخصیات میں موجود ہے۔ اس مغربی عنصر کو اللہ تعالٰی اپنے فضل و کرم سے آپ کی شخصیتوں سے حذف کر دینا چاہتے ہیں۔ اسی وجہ سے اللہ تعالٰی آپ کو منصوبہ امن کی پکار کی وساطت سے آپ کو خبردار فرما رہے ہیں کہ آپ اللہ تعالٰی کی طرف رجوع کریں۔

 

لب لباب

 

محترمہ بھابی صاحبہ! مختصر یہ کہ اس دنیا کی زندگی مختصر ہے اور آخرت کی زندگی ہمیشہ کے لئے ہے۔اللہ تعالٰی نے اس دنیا میں بنی نوع انسان کو اس لئے بھیجا ہے کہ آخرت کی زندگی کی تیاری کرے اور اللہ کی رضا کا حصول کرے جس کے نتیجہ میں وہ ہمیشہ کے لئے جنت میں اللہ کی نعمتوں سے مستفید ہوتا رہے گا جو کسی آنکھ نے نہ دیکھی نہ کسی کان نے سنی اور نہ کسی کے وہم و گمان میں آسکتی ہیں۔

 

ٖحرف آخر

 

محترمہ بھابی صاحبہ!آپ کے شوہر کو مشورہ دیا گیا ہے کہ آپ دونوں ویب سائٹ،

 

www.cfpislam.co.uk

 

پر مضامین کا مطالعہ کرتے رہیں اور شام کے وقت یا کسی بھی وقت جن حقائق کا مطالعہ کیا گیا ہے ان پر تبادلہئ خیالات کریں اور مغربی عناصر کو اپنی شخصیات میں سے زائل کرنے کی کوشش کریں اس ضمن میں توبہ و استغفار کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔ انشأ اللہ! جب مغربی اثرات زائل ہونا شروع ہو جائیں تو اللہ تعالٰی اپنے فضل و کرم سے شکر گزار ہونے کی توفیق فرمائیں گے اور معاف کئے ہوئے مغربی اثرات کو نیکیوں میں تبدیل فرما دیں گے جس کا ذکر قرآن پاک میں ہے جو اللہ کا کلام ہے۔

 

سورۃ الفرقان آیت نمبر 70

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

الا من تاب و اٰمن و عمل عملاً صالحاً فاولٰئک یبدل اللہ سیاٰ تھم حسٰنٰت ط

و کان اللہ غفورًا رحیما۔

 

مگر جس نے توبہ کی اور یقین لایا اور کیا کچھ کام نیک سو ان کو بدل دے گا

اللہ برائیوں کی جگہ بھلایاں اور ہے اللہ بخشنے والا مہربان۔

 

والسّلام

 

نصیر عزیز

 

پرنسپل امن کی پکار


 

Leave a Comment