دعا کے بہترین اوقات

بسم اللہ الرحمن الرحیم


امن کی پکار


اللہ کی بارگاہ میں دعا کرنے کے


بہترین اوقات


بھائیو اور بہنو


السّلام علیکم


اگر
انسان کی زندگی کا گہری نظر سے جائزہ لیا جائے تو نظر آئے گا کہ
انسانی زندگی کا
ہر لمحہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے پر محیط ہے۔


وہ کس طرح؟

بھائیو اور بہنو !اللہ تعالیٰ نے انسان کو امتحان کے لئے پیدا کیا۔ اللہ تعالیٰ جانتے تھے کہ ہر انسان کو اس امتحان میں نفس اور شیطان سے پالا پڑتا رہے گا، اس لئے نفس اور شیطان سے بچنے کے لئے ہر انسان کو اللہ کی بارگاہ میں ہر لمحہ رجوع کرنے کی ضرورت ہوگی یعنی اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہنا ہو گی کہ اسے نفس اور شیطان کی ترغیبات سے بچائے رکھے۔

بھائیو اور بہنو!اللہ تعالیٰ نے انسان پر فضل و کرم کیا اور قرآن جو کہ اللہ کا کلام ہے اسے لوح محفوظ پر قلم سے لکھوا دیا اور اسے ہر روح میں سرایت یعنی ودیعت کر دیا تاکہ جب وہ قرآن پاک کی تلاوت کرے تو وہ اللہ کی ہدایت کوسمجھ سکے تاکہ وہ اللہ سے دعا گو ہوتا رہے۔

بھائیو اور بہنو!قرآن پاک کی تلاوت کے لئے اور اللہ کی ہدایت کو سیکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے دن ورات میں پانچ نمازوں کو فرض قرار دیا کہ ان کی بروقت ادائیگی کی جائے اور پھر نماز کو قائم کیا جائے۔ یعنی اللہ کے حضور دعا کی جائے اور پھر اس دعا کی قبولیت کے لئے عملی کوشش کی جائے یعنی اللہ کا فضل تلاش کیا جائے۔

بھائیو اور بہنو!نماز کی ادائیگی سے پہلے وضو کرنا لازم ہے تاکہ جسم اور روح کو پاکیزگی حاصل ہو جائے

بھائیو اور بہنو! باجماعت نماز ادا کرنے سے پیشتر اذان دینا لازم قرار پایا۔ اگر مؤمن اکیلا نماز ادا کر رہا ہے تو اس کے لئے مستحب ہے کہ وہ نماز ادا کرنے سے پہلے اذان پڑھ لے

بھائیو اور بہنو!مؤذن جب اذان دیتا ہے تو اذان کا جواب دینا مستحب ہے

بھائیو اور بہنو!جب اذان تمام ہو جائے تو خاتم الانبیاء صل اللہ علیہ وسلم کے لئے دعائے وسیلہ کرنا مستحب ہے

بھائیو اور بہنو!دعائے وسیلہ کے بعد مؤمن اپنے لئے، اپنے رشتہ داروں اور دوست احباب کے لئے اور بنی نوع انسان کے لئے دعا کر سکتا ہے،

بھائیو اور بہنو!دعائے وسیلہ کے بعد مؤذن اقامت پڑھتا ہے اور پھر امام نماز کی ادائیگی شروع کرتا ہے اور مقتدی امام کی پیروی کرتے ہیں۔

بھائیو اور بہنو! مضمون یہ ہے کہ اللہ کی بارگاہ میں دعا کرنے کے بہترین اوقات کون سے ہو سکتے ہیں کہ دعا قبول ہو جائے۔


بھائیو اور بہنو!آئیے
وضو سے لے کر اقامت کے کہنے تک کے شعار کا تجزیہ کرنے کی کوشش کر تے ہیں کہ ہر شعار کس طرح سے دعا کی قبولیت کی بہترین وقت ہو سکتا ہے۔

وضو کرتے ہوئےدعا کی قبولیت


بھائیو اور بہنو!انسان اپنی زندگی کے ہر لمحہ میں شعوری اور لا شعوری طور پر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا گو رہتا ہے۔ تاہم! دعا میں خلوص، عاجزی اور بندگی کا ہونا لازم ہوتا ہے جس کا انحصار مقام اور وقت اور کسی اسلامی شعار کے ادا کرنے کے وقت پر ہوتا ہے۔ مثلاً

بھائیو اور بہنو!مسجد میں دعا کی جائے تو اس وقت خلوص، عاجزی اور بندگی کا عنصر دعا میں زیادہ ہوتا ہے بہ نسبت گھر میں دعا کی جائے۔

بھائیو اور بہنو!تہجد کی نماز ادا کرتے ہوئے خلوص، عاجزی اور بندگی کا عنصر دعا میں اور زیادہ ہو جاتا ہے بہ نسبت پانچ وقت کی نمازوں کے

بھائیو اور بہنو!مسجد نبوی اور مسجد الحرام میں خلوص، عاجزی اور بندگی کا عنصر دعامیں مزید زیادہ ہو جاتا ہے بہ نسبت اور جگہوں کے۔

بھائیو اور بہنواسی طرح جب اسلامی شعار ادا کئے جاتے ہیں تو اس وقت دعاؤں کا کرنا اللہ کے یہاں قبول ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اور دعا کی قبولیت کے آثار جلد نظر آنے شروع ہو جاتے ہیں۔


بھائیو اور بہنو!وضو ایک بہت اہم اسلامی شعار ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نماز بغیر وضو کئے نہیں ہوتی۔ نماز اسلام کا سب سے اہم ستون ہے اور نماز کے ادا کرنے اور نماز کو قائم کرنے کے گر د ہی اس دنیا اور اس کائنات کا نظام رواں دواں ہے۔ تو جب تک وضو ہی نہ کیا جائے گا اس وقت تک نہ تو نماز ادا ہو گی اور نہ ہی قائم ہوگی جس سے اس دنیا اور کائنات کا نظام درہم برہم ہی رہے گا۔ اس کا ثبوت واضح ہے کہ آج کے دور میں امت مسلمہ کی اکثریت نماز کو ادا کرنے اور اسے قائم کرنے میں کوتاہی برت رہی ہے جس سے اس دنیا کا نظام درہم برہم ہو چکا ہے۔

بھائیو اور بہنو!وضو کے شعار کی اہمیت ایک حدیث پاک کے مفہوم سے بتلانے کی کوشش کرتا ہوں۔

 

ایک مرتبہ ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے

خاتم الانبیاء صل اللہ علیہ وسلم کا وضو کروایا۔

وضو تمام ہو چکنے کے بعد آنحضرت صل اللہ علیہ وسلم نے

صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ارشاد فرمایا جس کا مفہوم ہے

 

اے صحابی
مانگو کیا مانگتے ہو؟

 

علمائے کرام اس کی شرح کرتے ہیں کہ اس وضو کروانے کے صلے

میں دنیا و آخرت کی زندگی میں کیا چاہتے ہو جس کے لئے اللہ کے حضور دعا کی جائے۔

بھائیو اور بہنو !صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی

یا رسول اللہ

آخرت میں آپ صل اللہ علیہ وسلم کی رفاقت کا طلبگار ہوں۔ اللہ کے حضور دعا فرمائیں۔

بھائیو اور بہنو!آپ صل اللہ علیہ وسلم نے پھر ارشاد فرمایا جس کا مفہوم ہے

 

اے صحابی مانگو کیا مانگتے ہو؟

علمائے کرام اس کی شرح کرتے ہیں کہ اس مرتبہ آنحضرت

کے ارشاد کا مقصد یہ تھا کہ اس کے علاوہ اور بھی کچھ چاہیے

بھائیو اور بہنو!صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دوبارہ عرض کی

یا رسول اللہ

آخرت میں آپ صل اللہ علیہ وسلم کی رفاقت کا طلبگار ہوں۔

اللہ کے حضور
دعا فرمائیں۔

بھائیو اور بہنو!خاتم الانبیاء صل اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس کا مفہوم ہے

سجدوں سے میری مدد کرو۔

علمائے کرام اس کی شرح کرتے ہیں کہ آنحضرت کے ارشاد کا


مقصد یہ تھا کہ نماز ادا کرو اور نماز کو قائم کرو


بھائیو اور بہنو!مندرجہ بالا حدیث کے مفہوم سے علمائے کرام یہ اخذ کرتے ہیں کہ اللہ کے حضور دعا کرنے کا بہترین وقت وضو کے عمل میں ہے کیونکہخاتم الانبیاء صل اللہ علیہ وسلم نے وضو کا عمل کرانے سے خوش ہوئے اور صحابی کی دنیا و آخرت میں کامیابی کے لئے دعا فرمانا چاہتے تھے۔


بھائیو اور بہنو!وضو کا عمل نماز کی ادائیگی کے لئے تھا جو کہ اس دنیا اور کائنات کے نظام کو برقرار رکھنے کا عمل ہے۔

بھائیو اور بہنومندرجہ بالا حدیث کے مفہوم انسان کے جسم کے اس حصہ کی مثال دیتا ہوں جہاں خون خالص ترین ہوتا ہے۔

ایک مرتبہ مجھے سانس لینے میں دشواری پیش آتی تھی تو میں ہسپتال گیا۔

ہسپتال میں انہوں نے ایکس رے،ای سی جی اور ایستھما کے ٹیسٹ کئے جو اللہ کے فضل سے سب ٹھیک تھے۔

میں نے ان کو بتلایا کہ مجھے سانس لینے میں دشواری پیش آ رہی ہے اور آپ کے سامنے ہے۔

انہوں نے میری بائیں کلائی سے جہاں سے عام طور پر ڈاکٹر نبض چیک کرتا ہے وہاں سے ایک خاص طریقے سے خون نکالا اور اسے ٹیسٹ کیا جو کہ ٹھیک تھا۔

میں نے ان سے پوچھا کہ انہوں نے نبض دیکھنے کی جگہ سے خون کیوں لیا ہے اور وہ بھی ایک خاص طریقے سے جبکہ عام طور پر خون کہنی کے پاس سے سرنج کے ذریعے لیا جاتا ہے۔

انہوں نے بتلایا کہ خون جب گردش کرتے ہوئے نبض چیک کرنے کی جگہ پہنچتا ہے تو خالص ترین ہوتا ہے۔ اگر اس جگہ سے لیا ہوا خون خالص نہ ہو وہ ظاہر کرتا ہے کہ جسم کے اندرونی نظام میں کوئی خرابی ہے۔

بھائیو اور بہنو اس سے یہ اخذ کیا جا سکتا ہے وضو کرنے ہوئے اللہ کے حضوردعا کرنے کا بہترین وقت ہے۔اس لئے گزارش ہے کہ وضو کا عمل کرتے ہوئے اللہ کے حضور دعائیں کرتے رہیں جو کہ قبولیت کا بہترین وقت ہے۔

اذان


بھائیو اور بہنووضو کے بعد اذان کا شعار ادا کیا جاتا ہے۔

بھائیو اور بہنو اذان کے لغوی معنی ہیں

 

کان میں خبر یا آواز پہنچانا،نماز کے واسطے بلانے کی صدا،بانگ


بھائیو اور بہنو!اذان کے لفظ نے ایک اسم کی صورت اختیار اور یہ نماز کی اطلاع دینے کے لئے مختص ہو چکا ہے یہ کہنا صحیح ہو گا کہ نماز کا حصہ بن گیا ہے۔ مثلاً: جیسے وضو کے بغیر نماز نہیں ہو سکتی اسی طرح اذان کے بغیر نماز باجماعت نہیں ہو سکتی۔


بھائیو اور بہنو! اللہ تعالیٰ رحمان بھی ہیں اوررحیم بھی۔ اللہ پاک چاہتے ہیں کہ بندے ہر وقت اللہ کی رحمت سے مستفید ہوتے رہیں اور آخرت کی زندگی کے لئے اللہ کی رحمتوں کا توشہ اکٹھا کرتے رہیں اور پھر جنت میں اس توشے سے اللہ کی ان نعمتوں سے ہمیشہ کے لئے سرفراز ہوتے رہیں کہ جو کسی آنکھ نے نہ دیکھیں، نہ کسی کان نے سنی اور نہ ہی کسی کے تصور میں آسکتی ہیں۔

بھائیو اور بہنو!اگر ہم اذان اور تکبیر کا تجزیہ کریں تو نظر آئے گا کہ اذان اور تکبیر میں پورے کا پورا دین اسلام پنہاں ہے۔

 

بھائیو اور بہنو!آئیے پہلے اذان کے کلمات کا اجمالی تجزیہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

بھائیو اور بہنو!اذان کے پہلے کلمات ہیں


اللہ اکبر،اللہ اکبر اللہ اکبر،اللہ اکبر


اللہ سب سے بڑا ہے

بھائیو اور بہنو!اللہ اکبر کا اقرار کرنے سے بندہ اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ اگر اللہ سب سے بڑا ہے اور باقی ذاتیں اس (اللہ) سے چھوٹی ہیں تو اللہ خالق ہے اور باقی تمام ذاتیں مخلوق ہیں،

بھائیو اور بہنو!اللہ خالق ہے تو تمام مخلوقات کو بنانے والی اللہ کی ذات ہے

بھائیو اور بہنو!اللہ خالق ہے تو اللہ کی کتاب قرآن اللہ کا کلام ہے

بھائیو اور بہنو!قرآن اللہ کا کلام ہے تو اس میں وہ سب کچھ محیط ہے جو انسان کی دنیا و آخرت کی زندگی کے لئے ضروری ہے

بھائیو اور بہنو!اگر قرآن ہر اس پہلو پر محیط ہے جو انسان کی دنیا و آخرت کی کامیابی کے لئے ضروری ہے تو اس کتاب میں کچھ شک نہیں کہ اس میں کوئی کمی بیشی ہو یعنی با ضابطہ مکمل کتاب ہے

بھائیو اور بہنو!حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ مدنی دور میں لوگ نماز کے اوقات اپنے اپنے اندازے سے متعین کرتے تھے۔

بھائیو اور بہنو!ایک روز مشورہ کیا گیا۔ کسی نے یہود کے بوق کی تجویز پیش کی اور کسی نے نصاریٰ کے ناقوص کی تجویز پیش کی۔ مگر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ تجویز پیش کی کہ ایک شخص کو مقرر کیا جائے جو نماز کے اوقات میں بلند آواز سے لوگوں کو بلائے۔ چنانچہ اسی پر فیصلہ ہوا اور رسول اکرم صل اللہ علیہ وسلم نے اس کام پر حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مقرر فرما دیا۔

بھائیو اور بہنو!حضرت بلالرضی اللہ تعالیٰ عنہ نماز کے اوقات میں بلند آواز میں “الصلواۃ جامعۃ” کہا کرتے تھے۔ یعنی “اے لوگونماز با جماعت تیار ہے”۔ لیکن بعد میں حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خواب میں اذان کے مروجہ الفاظ سنے اور رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو انہی الفاظ کے ساتھ اذان دینے کا حکم دیا اور اللہ کی وحی بھی اس کی تائید میں آ گئی۔

بھائیو اور بہنو! اذان کے اگلے کلمات ہیں


اشھد ان لا الہ الا اللہ اشھد ان لا الہ الا اللہ


میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں


بھائیو اور بہنو!جب ایک مؤمن نے اللہ کی ذات یکتا کا اقرار کر لیا تو اس کے لئے لازم ٹہرا کہ وہ اس بات کی گواہی دے کہ اللہ کی ذات عالی موجود ہے۔

بھائیو اور بہنو! یہ قدرت کا اصول ہے کہ کسی بات کی گواہی بغیر دیکھے نہیں دی جا سکتی۔ اللہ کی ذات غیب میں ہے اس لئے انسانی آنکھ اللہ کو نہیں دیکھ سکتی۔ تاہم! اللہ تعالیٰ نے گواہی دینے کا یہ ضابطہ بھی طے کر دیا ہے کہ اگر کسی بات کا آنکھ سے مشاہدہ نہ کیا جا سکے تو قرائنکے تحت بھی گواہی قابل قبول ہے۔دنیا میں ان مقدمات کا فیصلہ جن کی چشم دید گواہی نہیں ملتی تو ان کا فیصلہ قرائن کے تحت کیا جا تا ہے۔

بھائیو اور بہنو!مختصر یہ کہ کائنات کی تخلیق اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ چونکہ یہ کسی انسان کی تخلیق نہیں ہے اس لئے کائنات کی ہر شئے کا خالق اللہ تعالیٰ ہے اور ہر شئے میں جو جزیات موجود ہیں وہ بھی اللہ کی تخلیق ہیں اور اللہ کے تابع ہیں۔ اس لئے ہر قسم کی عبادت کی سزاوار اللہ تعالیٰ کی ذات یکتا ہی ہے۔

بھائیو اور بہنو!اذان کے اگلے کلمات ہیں


اشھد ان محمد رسول اللہ اشھد ان محمد رسول اللہ


میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صل اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اوراس کے رسول ہیں


بھائیو اور بہنو!قرآن و حدیث کی روشنی میں انسان اللہ کا خلیفہ ہے۔ اللہ کی ذات غیب میں ہے۔ اللہ کو بنی نوع انسان کو اپنا پیغام پہنچانا ہے۔

بھائیو اور بہنو!اللہ بنی نوع انسان میں سے ایک انسان کو منتخب کر لیتے ہیں اور فرشتہ کی وساطت اس شخص کو پیغام بھیجتے ہیں کہ تمام بنی نوع انسان کو پہنچا دیا جائے۔ یہ شخص اللہ کا پیغمبر کہلاتا ہے جسے نبی اور رسول بھی کہا جاتا ہے۔

بھائیو اور بہنو!حضرت محمد ابن عبد اللہ صل اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ روایات کے مطابق ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء مبعوث کئے گئے ہیں۔

بھائیو اور بہنو!کلمہ طیبہ: لا الہ الا للہ محمد رسول اللہ میں صرف محمد ابن عبداللہ صل اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اقرار نہیں کیا جاتا بلکہ تمام انبیاء کرام کی رسالت کی اقرار کیا جاتا ہے وہ اس وجہ سے کہ محمد ابن عبداللہ صل اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں۔ اس لئے جب محمد ابن عبداللہ صل اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اقرار کیا جاتا ہے تو تمام انبیائے کرام کی رسالت کی اقرار کیا جاتا ہے۔

بھائیو اور بہنو!مؤمن نے جب یہ اقرار کر لیا کہ اللہ کی ذات یکتا ہے اور قرآن اللہ کا کلام ہے جس کا نزول خاتم الانبیاء حضرت محمد صل اللہ علیہ وسلم پر ہوا تو یہ اس بات کی گواہی دینے کے مترادف ہے کہ حضرت محمد صل اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔

بھائیو اور بہنو!جب ایک مؤمن قرآن پاک پڑھتا ہے اور اس کی تعلیمات کو پرکھتا ہے کہ آیا تاریخ اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ آپ صل اللہ علیہ وسلم کی سوانح حیات قرآن پاک جو کہ اللہ کا کلام ہے کی تعلیمات کے مطابق ہے۔جب تاریخ اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ آپ صل اللہ علیہ وسلم کی ہر ادا قرآن پاک کی تعلیم کا مظہر ہے تو مؤمن اس بات کی گواہی دینے میں حق بجانب ہے کہ حضرت محمد صل اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں اور اللہ کے آخری نبی ہیں۔

بھائیو اور بہنو!جب مؤمن خاتم الانبیاء صل اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لے آیا اور قرآن کو اللہ کا کلام تسلیم کیا اور آپ صل اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو قرآن پاک کی تعلیمات کا مظہر دیکھا تو اس نے اس بات کو تسلیم کر لیا کہ حدیث قرآن پاک کی تفسیر ہے۔

بھائیو اور بہنو!دین اسلام قرآن اور حدیث کا مجموعہ ہے۔ اس لئے جب مؤمن نے اللہ اور اللہ کے رسول کی گواہی دی تو گویا اذان کے ان دو کلمات میں پورے دین اسلام کو سمو دیا گیا۔

بھائیو اور بہنو!اذان کے اگلے کلمات ہیں


حی علی الصلوٰۃ حی علی الصلوٰۃ


نماز ادا کرنے کے لئے آؤ


بھائیو اور بہنو!مؤمنین کو نماز ادا کرنے کی دعوت دی جا رہی ہے۔

بھائیو اور بہنو!نماز میں قرآن پاک کی تلاوت کی جاتی ہے۔

بھائیو اور بہنو!جب مؤمن نماز ادا کرتے ہوئے قرآن پاک کی تلاوت کرتا ہے تو وہ روزمرہ کی زندگی گزارنے سے متعلق اللہ کی ہدایات سیکھتا ہے۔

بھائیو اور بہنو!قرآن پاک مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ اس لئے مؤمن زندگی کے ہر پہلو سے متعلق علم کا حصول کرتا ہے۔

بھائیو اور بہنو! جب مؤمنین کو نماز ادا کرنے کی دعوت دی جاتی ہے تو اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ قرآن پاک کی ہدایات کو زندگی کا مظہر بنانے کے لئے قرآن پاک کی تعلیمات پر عمل کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔

بھائیو اور بہنو!اذان کے اگلے کلمات ہیں


حی علی الفلاح حی علی الفلاح


نماز میں کامیابی ہے


بھائیو اور بہنو!انسان کی زندگی تین ادوار پر محیط ہے

ازل سے پیدائش تک:یہ اس دنیا میں آنے کے لئے انتظار کا زمانہ ہے

پیدائش سے موت تک: یہ امتحان کا زمانہ ہے کہ آخرت کی زندگی میں

کامیابی کے لئے امتحان پاس کیا جائے

موت سے ابد تک: یہ وہ زمانہ ہے جس کی کوئی انتہا نہیں ہے۔

بھائیو اور بہنو!انسان آخری دو ادوار میں کامیابی کا متمنی ہوتا ہے

بھائیو اور بہنو!مؤمنین کو بتلایا جاتا ہے کہ دونوں ادوار میں کامیابی کی کنجی نماز ہے جس کی ادائیگی کے لئے دعوت دی گئی ہے کہ نماز ادا کرنے کے بعد نماز کو قائم کیا جائے۔ جب نماز کو قائم کیا جائے گا تو وہ دنیا و آخرت میں کامیابی دلوائے گی۔ اس کا ذکر قرآن پاک میں کردیا گیا ہے


ترجمہ سورۃالعنکبوت آیت نمبر45 – 44

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ نے بنائے آسمان اور زمین جیسے چاہیں ط اس میں نشانی ہے یقین لانے والوں کے لئے۔
تو
پڑھ جو اتری تیری طرف کتاب اور قائم کر نماز

ط بیشک نماز روکتی ہے
بے حیائی اور بری بات سے
ط اور اللہ کی یاد ہے سب سے بڑی ط اور اللہ کو خبر ہے جو تم کرتے ہو۔


بھائیو اور بہنو!بے حیائی سے بچنا اور بری بات سے رکنا ہیں دین اسلام کی روح ہے۔

بھائیو اور بہنو!اذان کے اگلے کلمات جو فجر کی اذان کے وقت پڑھے جاتے ہیں لیکن ان کا متن ہر نماز پر لاگو ہوتا ہے


الصلٰوۃ خیر من النوم الصلٰوۃ خیر من النوم


نماز نیند سے بہتر ہے


بھائیو اور بہنو! نیند، سستی اور کاہلی نماز کے بروقت نہ ادا کرنے کی سزاوار ہوتی ہے۔ اس لئے مؤمنین کو خبردار کر دیا گیا ہے کہ اگر بروقت نماز ادا نہ کیا گئی اور نماز کو قائم نہ کیا گیا تو دنیا و آخرت کی زندگی میں کامیابی نہیں ہو سکتی۔

بھائیو اور بہنو!اذان کے اگلے کلمات ہیں


اللہ اکبر اللہ اکبر


اللہ سب سے بڑا ہے

لا الہ الا اللہ
اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں


بھائیو اور بہنو!
اذان کو تمام کرنے سے پیشتر ایک مرتبہ پھر اللہ تعالیٰ کی عظمت و بڑائی اور ان کی ذات یکتا ہونے کی یاد دہانی کروائی جاتی ہے۔

لب لباب

بھائیو اور بہنو!اللہ کی توفیق سے اذان کا مندرجہ بالا تجزیہ کے پیش نظر اذان کی اہمیت اور قدر و قیمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ چند کلمات میں پورے دین اسلام کو سمو دیا ہے۔


اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مؤمنین کو اذان کی
اہمیت اور قدر و قیمت کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

آمین ثم آمین


بھائیو اور بہنو!مؤذن جب اذان کے کلمات کہہ کر رکتا ہے تو اس دوران سامعین اذان کا جواب دیتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں وہ بھی مؤذن کی نقل کرتے ہوئے مؤذن ہونے کی صف میں ہی شامل ہو جاتے ہیں اور اللہ سے اجرو ثواب کے حقدار بن جاتے ہیں۔

دعائے وسیلہ


بھائیو اور بہنو!اذان تمام ہو جانے کے بعد خاتم الانبیاءصل اللہ علیہ وسلم کے لئے دعائے وسیلہ کرنا مستحب ہے۔


بھائیو اور بہنو!حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ
اذان کو غور سے سنتے ہوئے اور اس کا جواب دیتے ہوئے جب اذان تمام ہو جائے تو اولاً درود شریف پڑھے اور پھر حسب ذیل دعائے وسیلہ پڑھے۔

دعائے وسیلہ کے کلمات


اللھم رب ھذہ الدعوۃ التامہ والصلواۃ القائمہ اٰت محمدا ن الوسیلۃ

وابعثہ مقاماً محمودا۔ ن الذی وعد تہ انک لا تخلف المعیاد۔

اے اللہ


اس
دعوت کامل اور کھڑی ہونے والی نماز کے مالک تو محمدصل اللہ علیہ وسلم

کو وسیلہ اور فضیلت عطا فرما اور ان کو مقام محمود پر پہنچا دے جس کا تو نے وعدہ فرمایا ہے۔

بے شک تو اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔


بھائیو اور بہنو !سوال پیدا ہوتا ہے کہ اذان کے تمام ہو جانے کے بعد دعائے وسیلہ کے پڑھنے میں کیا حکمتیں پوشیدہ ہیں۔

بھائیو اور بہنو!دعائے وسیلہ میں مرکزی شخصیت خاتم الانبیاء صل اللہ علیہ وسلم کی ذات مقدسہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اشارہ کیا ہے کہ روز محشر میں آپ صل اللہ علیہ وسلم کو مقام محمود پر سرفراز فرمائیں گے۔


ترجمہ سورۃ بنی اسرائیل آیت نمبر 79 – 78

بسم اللہ الرحمن الرحیم

قائم رکھ نماز کو سورج ڈھلنے سے رات کے اندھیرے تک اور قرآن پڑھنا فجر کا ط

بیشک قرآن پڑھنا فجر کا ہوتا ہے روبرو۔اور کچھ رات جاگتا رہ قرآن کے ساتھ

یہ زیادتی ہے تیرے لئےققریب ہے کہ کھڑا کر دے تجھ کو تیرا رب مقام محمود میں۔


بھائیو اور بہنو!بلا شبہ
اللہ کا کسی بات کی طرف اشارہ کرنا اللہ کے وعدہ کرنے کے مترادف ہوتا ہے لیکن اس وعدہ کے پورا کرنے میں کچھ شرائط کو پورا کرنا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس بات کا اشارہ کرنے سے پیشتر ان شرائط کی طرف بھی اشارہ کر دیا جن کو پورا کرنا لازم ہے یعنی فرض نماز کو ادا کرنا اور قائم کرنا اور اس کے ساتھ تہجد کی نماز ادا کرنا اور قائم کرنا۔

دعائے وسیلہ کی حکمتیں

بھائیو اور بہنو!اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے


سورۃ البقرہ آیت نمبر 255

بسم اللہ الرحمن الرحیم

من ذاالذی یشفع عندہ الا باذنہ ط


ایسا کون ہے جو سفارش کرے اس کے پاس مگر اجازت سے۔

 

بھائیو اور بہنو! بلا شبہ اللہ تعالیٰ ہر شئے پر قادر ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق کسی مقصد کے لئے کی ہے اور اس کائنات کا نظام اسباب کے تحت چلا آ رہا ہے جو کہ اللہ تعالیٰ کا ہی ترتیب دیا ہوا ہے اس لئے اللہ کو انسان کی تخلیق کے مقصد کو پورا کرنے کے لئے اس نظام کا پابند ہونا ہوتا ہے۔

 

بھائیو اور بہنو !قرآن و حدیث کی روشنی میں انسان کی تخلیق کا مقصد یہ ہے کہ وہ دنیا میں رہتے ہوئے اللہ کی ہدایت کی پابندی کرے اور روز محشر میں جب حساب کتاب ہو گا تو پھر اس کی آخرت کی زندگی سے متعلق فیصلہ کیا جائے گا کہ وہ کس حد تک اللہ کی رضا کا حصول کرنے میں کامیاب ہوا تھا اور اگر اس میں کمی رہ گئی ہے تو اسے کس طرح پورا کیا جا سکتا ہے۔

 

بھائیو اور بہنو!انبیائے کرام اللہ کے فرستادہ ہوتے ہیں اس لئے ہر نبی کے امتی ان سے خواستگار ہوں گے کہ وہ اللہ کے یہاں ان کی سفارش کر دیں تاکہ وہ اللہ کے قہر سے بچ سکیں

بھائیو اور بہنو! روایات میں ہے کہ تمام انبیائے کرام اپنے امتیوں سے معذرت کریں گے کہ وہ خود اللہ کے قہر سے مامون نہیں ہیں اس لئے وہ کیسے اللہ کا یہاں ان کی سفارش کر سکتے ہیں اور وہ ان سے کہیں گے کہ خاتم الانبیاء حضرت محمد صل اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو مقام محمود پر سرفراز کرنے کا وعدہ فرمایا ہے۔

بھائیو اور بہنو!اس بات کے پیش نظر کہ آپ صل اللہ علیہ وسلم کو مقام محمود پر سرفراز کرنے کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے، آپ صل اللہ علیہ وسلم نے اپنے امتیوں کو ہدایت کی کہ وہ اذان کے بعد آپ صل اللہ علیہ وسلم کے لئے درود شریف پڑھنے کے بعد دعائے وسیلہ کریں کیونکہ اللہ کی یہ سنت ہے کہ اللہ جب تلک دعا نہ کی جائے اپنا وعدہ پورا نہیں کرتا۔

بھائیو اور بہنو!سوال پیدا ہوتا ہے کہ اذان کے بعد دعائے وسیلہ پڑھنے کی کیوں ہدایت کی گئی ہے۔

بھائیو اور بہنو!اللہ پاک چاہتے ہیں کہ دعائے وسیلہ چونکہ خاتم الانبیاء صل اللہ علیہ وسلم کے لئے کی جانی ہے اس لئے یہ اس وقت کی جائے جب کہ اللہ تعالیٰ کے طے کردہ نظام کے تحت بہترین قبولیت کا وقت ہو۔


بھائیو اور بہنو! اذان کے بعد دعا کی قبولیت کا بہترین وقت ہونے کی مندرجہ ذیل وجوہات نظر آتی ہیں

بھائیو اور بہنو!اذان پر مضمون پڑھنے کا بعد اس بات کا اندازہ ہو سکتا ہے کہ جب اذان دی جاتی ہے تو پورا دین اسلام نماز کی دعوت کے لئے پکارتا ہے،

بھائیو اور بہنو!اقامت پڑھنے کے بعد نماز کی ادائیگی کا عمل شروع ہونا ہے اور پھر نماز کی ادائیگی کے بعد نماز کو قائم کرنے کا عمل شروع ہونا ہے

بھائیو اور بہنو!دعائے وسیلہ کرنے سے پیشتر یا دوران میں تمام انبیائے کرام کے اپنی اپنی امت کے لئے جو انہوں نے قربانیاں دیں ان کو تخیل میں لایا جاتا ہے، مثلاً

حضرت آدم علیہ السلام

 

کا بھول کر درخت کا پھل کھا لینا اور اللہ کے قہر سے ڈرنا

کے ایک بیٹے نے جب دوسرے بیٹے کو قتل کر دیا تھا تو اس کی وجہ سے ذہنی پریشانی میں مبتلا ہو جانا

حضرت نوح علیہ السّلام

کا بیٹے کے اللہ پر ایمان نہ لانے کی وجہ سے رنج و غم میں گرفتار رہنا

ساڑھے نو سو سال تک اللہ کے نافرمانوں سے وابسطہ رہنا اور ان کی باتیں سن سن کر صبر کرنا

حضرت ابراہیم علیہ السّلام

 

کا اپنے باپ کا بت پرستی پر اڑے رہنے سے ہر وقت متاثر رہنا

کا دہکتی آگ کے آگے صبر سے کام لینا،

حضرت موسیٰ علیہ السّلام

 

کا بنی اسرائیل کے ہاتھوں ان کے بے جا خواہشوں سے ہر وقت آزردہ رہنا

کو بنی اسرائیل کا بت پرستی کے لئے آمادہ کرنے کی کوشش کرنا

حضرت عیسیٰ علیہ السّلام

 

کا بنی اسرائیل کی نظر میں ناجائز اولاد ہونے کی وجہ سے متاثر رہنا

کا بنی اسرائیل کے ڈر کی وجہ سے چھپ جانا،

حضرت یعقوب علیہ السّلام

کا حضرت یوسف علیہ السّلام کی جدائی کے غم میں نابینا ہو جانا

حضرت یوسف علیہ السّلام کا بلاجرم نو سال تک قید میں رہنا

خاتم الانبیاء حضرت محمد صل اللہ علیہ وسلم

 

کا صادق اور امین ہوتے ہوئے کفار کا آپ صل اللہ علیہ وسلم کو ساحر اور دیوانہ کہنا

کا طائف کے سرداروں کے ہاتھوں متاثر ہونا

تین سال تک شعیب ابی طالب میں محصور رہنا

کو شہید کرنے کے لئے تمام کفار اور مشرکین کا ایکا کرنا

کا ہجرت کرتے ہو چھپ کر مکہ سے نکلنا

بھائیوں اور بہنو!دعا میں قبولیت کے اثرات اس وقت تک پیدا نہیں ہوسکتے جب تلک کہ جس کے لئے دعا کی جائے اس کی قربانیوں کا احساس نہ کیا جائے وگرنہ دعا کا کرنا ایک ڈھکوسلا سے زیادہ نہیں۔ اس لئے جب دعائے وسیلہ کی جائے تو جب تلک تمام انبیائے کرام کی امت کے واسطے قربانیوں کو تخیل میں نہ لایا جائے گا اس وقت تلک نہ تو انبیائے کرام کی عظمت اور قدر و قیمت دل و دماغ میں راسخ ہو سکتی ہے اور نہ ہی دین اسلام کی تعلیمات کے مطابق زندگی استوار ہو سکتی ہے۔

بھائیوں اور بہنو!دعائے وسیلہ چونکہ خاتم الانبیاء صل اللہ علیہ وسلم کے روز محشر میں مقام محمود کی لئے کی جاتی ہے اس لئے اللہ کی بارگاہ میں یہ دعا کی قبولیت کا بہترین وقت ہے ۔ حدیث پاک کا مفہوم ہے


جو شخص کسی مصیبت یا سختی میں گرفتار ہو، اسے چاہیے کہ اذان کے وقت کا منتظر رہے

اور اذان کا جواب دینے کے بعد مندرجہ ذیل دعا پڑھے اور اس کے بعد اپنی حاجات

اور کشائش کی دعا کرے، اس کی دعا ضرور قبول ہوگی۔


اللھم رب ھذاہ الدعوۃ الصادقہ المستجاب لھا دعوۃ الحق و کلمۃ التقوی

احینا و امتنا علیھا وابعثنا علیھا واجعلنا من خیار اھلھا احیاءً و امواتا۔

اے اللہ


اے اس
سچی اور مقبول دعوت حق (اذان) اور کلمہ تقویٰ(کلمۂ شہادت) کے مالک

تو ہم کو اسی (کلمۂ تقویٰ) پر زندہ رکھیو اور اسی پر موت دیجیو اور اسی پر (حشر کے دن) اٹھائیو

اور ہمیں زندگی اور موت دونوں حالتوں میں بہترین اہل توحید میں شامل کر دے۔


بھائیو اور بہنو!نماز کی ادائیگی کے شروع ہونے سے پہلے مؤذن اقامت کہتا ہے جو کہ اذان کے کلمات ہی ہوتے ہیں لیکن ان میں مندرجہ ذیل کلمات کا اضافہ ہوتا ہے


قد قامت الصلواۃ قد قامت الصلواۃ


نماز شروع ہو چکی ہے


بھائیو اور بہنو! جب
نماز کی ادائیگی شروع ہو جاتی ہے تو اللہ کی رحمتیں نمازیوں پر محیط ہوتی رہتی ہیں اور ہر مؤمن کی دعائیں اللہ کی بارگاہ میں قبول ہوتی ہیں۔

لب لباب

بھائیو اور بہنو!دن و رات میں میں پانچ وقت فرض نماز کی ادائیگی کے لئے اذان ہوتی ہے۔ اللہ کی توفیق سے اگر ہر مؤمن خلوص دل سے دعائے وسیلہ کرے اور اس کے ساتھ اپنے لئے اور اپنے دوست احباب کے لئے دعائیں کرے تو اللہ کی رحمتیں ہر وقت اس پر محیط رہیں گی اور چلتے پھرتے بھی وہ جودعائیں کرتا رہے گا وہ اللہ کی بارگا میں قبول ہوتی رہیں گی کیونکہ اس نے گزشتہ نماز ادا کی ہے اور اگلی کی طرف بڑھ رہا ہے۔


اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہر مؤمن کو خلوص دل سے
دعائے وسیلہ کرنے کی توفیق فرمائے۔

آمین ثم آمین


درود پاک


بھائیو اور بہنو!روایات میں آیا ہے کہ مؤمنین کو چاہیے کہ کوئی بھی دعا کرنے سے پیشتر خاتم الانبیاء پر درود بھیجیں۔


بھائیو اور بہنو


انبیائے کرام اللہ اور اللہ کے بندوں کے درمیان رابطہ کا ذریعہ ہوتے ہیں۔


بھائیو اور بہنو!اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو اس دنیا میں امتحان کے لئے بھیجا ہے۔ انسان جب اللہ کے سیدھے راستے سے بھٹک جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ گمراہ لوگوں کو راہ راست پر لانے کے لئے انبیائے کرام کو مبعوث کرتے ہیں۔

بھائیوں اور بہنو!گمراہ لوگ انبیائے کرام کو ستاتے ہیں، ان کا مذاق اڑاتے ہیں اور ان کو طرح طرح سے ایذا پہنچاتے ہیں۔ مختصر یہ کہ انبیائے کرام کو اللہ کا پیغام بنی نوع انسان تک پہنچانے میں بہت مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

بھائیوں اور بہنو!اللہ کے فضل و کرم سے جو لوگ راہ راست پر آ جاتے ہیں ان کے لئے لازم ہے کہ وہ انبیائے کرام کے شکر گزار ہوں اور انہوں نے ان کی خاطر جو تکالیف و مصائب برداشت کئے ہیں ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے ان پر رحمت کے نزول کی دعا کرتے رہیں۔

بھائیوں اور بہنو!اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہیں۔ بنی نوع انسان کو اپنی رحمتوں سے نوازنا چاہتے ہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے یہ ضابطہ طے کر دیا ہے کہ جو مؤمن انبیائے کرام کے لئے اللہ کے حضور ان پر رحمتوں کے نزول کی دعا کرتا رہے گا تو اللہ اس مؤمن پر بھی اپنی رحمتوں کا نزول کرتے رہیں گے۔

بھائیو اور بہنو!اللہ تعالیٰ نے مؤمنین کو ترغیب دینے کے لئے کہ انبیائے کرام کے لئے اللہ کے حضور دعا کی جائے، قرآن پاک میں آیت کا نزول فرمایا کہ کہ اللہ بذات خود انبیائے کرام پر رحمت کا نزول کرتا ہے اور فرشتے بھی انبیائے کرام کے لئے اللہ سے دعا کرتے ہیں۔


سورۃ الاحزاب آیت نمبر 56

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ان اللہ و ملا ئکتہ یصلون علی النبی ط یا ایھا الذین ٰ امنو صلو علیہ و تسلیما۔

اللہ اور اس کے فرشتے رحمت بھیجتے ہیں رسول پر ط


اے ایمان والو!
رحمت بھیجو اس پر اور سلام بھیجو سلام کہہ کر۔


بھائیو اور بہنو!علمائے کرام نے قرآن و حدیث کی روشنی میں ایک ضابطہ مستنبط کیا ہے کہ انبیائے کرام کے لئے ایک مؤمن کیسے اللہ کے حضور دعا کر سکتا ہے۔

بھائیو اور بہنو!قدرت کا یہ ایک اصول ہے کہ جب کسی کے لئے اللہ کے حضور دعا کی جاتی ہے تو اس کی دل میں قدر و قیمت کا ہونا ضروری ہے۔ ایک مؤمن کسی کی قدرو قیمت کو اسی وقت جان سکتا ہے کہ اس نے اس شخص کی زندگی کا جائزہ لیا ہو اور اس کے سامنے اس کے ایسے حالات ہوں جن سے مؤمن مستفید ہوا ہو۔

 

بھائیوں اور بہنو!اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اس حقیقت کو صاف طور پر بتلا دیا ہے کہ محمد ابن عبد اللہ صل اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری نبی ہیں۔

بھائیوں اور بہنو!محمد ابن عبد اللہ صل اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا آخری نبی تسلیم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ مؤمن ان تمام انبیائے کرام کو بھی تسلیم کرتا ہے جو محمد ابن عبد اللہ صل اللہ علیہ وسلم سے پہلے مبعوث ہو چکے ہیں۔

بھائیوں اور بہنو!اس لئے انبیائے کرام کے لئے دعا کرنے سے پیشتر ان کو تسلیم کرنے کی یاد دہانی ضروری ہے۔

بھائیوں اور بہنو!اس یاد دہانی کے لئے اور انبیائے کرام پر ایمان کی پختگی کے لئے اللہ پاک نے قرآن پاک میں آیت کا نزول فرما دیا ہے

سورۃ الاحزاب آیت نمبر 40

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ما کان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اللہ و خاتم النبین ط

و کان اللہ بکل شیء علیما۔


محمد باپ نہیں کسی کا تمہارے مردوں میں سے لیکن رسول ہے اللہ کا اورمہر سب نبیوں پر
ط

اور ہے اللہ سب چیزوں کا جاننے والا۔


بھائیو اور بہنو!جب مؤمن نے اس بات کا اقرارکر لیا کہ اس کاتمام انبیائے کرام پر ایمان ہے تودرود شریف پڑھنے سے پیشتر وہ اس بات کاحوالہ دے کہ اللہ اور اللہ کےفرشتےبھی انبیائے کرام پردرودبھیجتے ہیں اور متعلقہ آیت کی تلاوت کرے

 


سورۃ الاحزاب آیت نمبر 56

بسم اللہ الرحمن الرحیم


ان اللہ و ملا ئکتہ یصلون علی النبی ط

یا ایھا الذین ٰ امنو صلو علیہ و تسلیما۔

اللہ اور اس کے فرشتے رحمت بھیجتے ہیں رسول پر ط
اے ایمان والو
رحمت بھیجو اس پر اور سلام بھیجو سلام کہہ کر۔


بھائیو اور بہنو!مندرجہ بالا آیت کے پڑھنے کے بعد مؤمن مندرجہ ذیل درود شریف پڑھے


اللھم صل علیٰ محمد و علیٰ ال محمد کما صلیت علیٰ ابراہیم

و علیٰ ال ابراہیم انک حمید مجید۔

اے اللہ! تو محمد صل اللہ علیہ وسلم اور آل محمد صل اللہ علیہ وسلم پر رحمت نازل فرما

جس طرح تو نے ابراہیم علیہ السّلام پر اور آل ابراہیم علیہ السّلام پر رحمت نازل فرمائی ہے۔

بیشک تو ہی لائق حمد و ثنا، بڑائی اور بزرگی کے مالک۔

اللھم بارک علیٰ محمد وعلیٰ ال محمد کما بارکت علیٰ ابراہیم

و علیٰ ال ابراہیم انک حمید مجید۔

اے اللہ! تو محمد
صل اللہ علیہ وسلم اور
آل محمد
صل اللہ علیہ وسلم پر
برکتیں نازل فرما

جس طرح تو نے ابراہیم علیہ السّلام پر اور آل ابراہیم علیہ السّلام پر برکتیں نازل فرمائی ہیں۔

بیشک تو ہی لائق حمد و ثنا، بڑائی اور بزرگی کے مالک۔


بھائیو اور بہنو!گو کہ
درود شریف میں نام محمد صل اللہ علیہ وسلم کا ہے لیکن چونکہ حضرت محمد صل اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں اس لئے نام محمد میں تمام انبیائے کرام کا نام پوشیدہ ہیں۔ اس لئے جب خاتم الانبیاء صل اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا جاتا ہے تو تمام انبیائے کرام پر درود بھیجا جاتا ہے۔

لب لباب

بھائیو اور بہنو!انبیائے کرام پر درود پاک پڑھتے رہنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک مؤمن کا ہر وقت اللہ اور اللہ کے انبیاء پر ایمان اور یقین پختہ ہوتا رہتا ہے اور اللہ چونکہ ہر انسان کی شاہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے اس لئے مؤمن ہر لمحہ اللہ کی حفاظت میں رہتا ہے۔


اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ ہر مؤمن کو درود پاک
خلوص دل سے پڑھتے رہنے کی توفیق نصیب فرمائے۔

آمین ثم آمین


بھائیو اور بہنو !مندرجہ بالا مضمون کا
مغز یہ نکلا کہ انبیائے کرام پر درود شریف پڑھنے کا یہ طریقہ ہے

اول

بھائیو اور بہنو! قرآن پاک کی آیت کی تلاوت کی جائے جس میں انبیائے کرام کی رسالت کا اقرار ہے


سورۃ الاحزاب آیت نمبر 40

بسم اللہ الرحمن الرحیم


ما کان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اللہ و خاتم النبین ط

و کان اللہ بکل شیء علیما۔


محمد باپ نہیں کسی کا تمہارے مردوں میں سے لیکن رسول ہے اللہ کا اورمہر سب نبیوں پر
ط اور ہے اللہ سب چیزوں کا جاننے والا۔



دوم

بھائیو اور بہنو !قرآن پاک کی آیت تلاوت کی جائے جس میں اللہ اور اللہ کے فرشتے انبیائے کرام پر درود بھیجتے ہیں اور مؤمنین کو کہا جا رہا ہے کہ وہ بھی انبیائے کرام پر درود بھیجیں


سورۃ الاحزاب آیت نمبر 56

بسم اللہ الرحمن الرحیم


ان اللہ و ملا ئکتہ یصلون علی النبی ط

یا ایھا الذین ٰ امنو صلو علیہ و تسلیما۔

اللہ اور اس کے فرشتے رحمت بھیجتے ہیں رسول پر ط
اے ایمان والو
رحمت بھیجو اس پر اور سلام بھیجو سلام کہہ کر۔


سوم


بھائیو اور بہنو!انبیائے کرام پر درود بھیجا جائے۔


اللھم صل علیٰ محمد و علیٰ ال محمد کما صلیت علیٰ ابراہیم

و علیٰ ال ابراہیم انک حمید مجید۔

اے اللہ تو محمد صل اللہ علیہ وسلم اور آل محمد صل اللہ علیہ وسلم پر رحمت نازل فرما

جس طرح تو نے ابراہیم علیہ السّلام پر اور آل ابراہیم علیہ السّلام پر رحمت نازل فرمائی ہے۔

بیشک تو ہی لائق حمد و ثنا، بڑائی اور بزرگی کے مالک۔

اللھم بارک علیٰ محمد وعلیٰ ال محمد کما بارکت علیٰ ابراہیم

و علیٰ ال ابراہیم انک حمید مجید۔

اے اللہتو محمد صل اللہ علیہ وسلم اور آل محمد صل اللہ علیہ وسلم پر برکتیں نازل فرما

جس طرح تو نے ابراہیم علیہ السّلام پر اور آل ابراہیم علیہ السّلام پر برکتیں نازل فرمائی ہیں۔

بیشک تو ہی لائق حمد و ثنا، بڑائی اور بزرگی کے مالک۔


اللہ کی رحمتیں

 

بھائیو اور بہنو!جب مؤمن اللہ کے حضور دعا کرتا ہے تو وہ اللہ کی رحمتوں کا متقاضی ہوتا ہے۔


بھائیو اور بہنو!اللہ تعالیٰ رحمان اور رحیم ہیں۔جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے راضی ہوتے ہیں تو اللہ کی رحمت متقاضی ہوتی ہے کہ بندوں پر اپنی نعمتوں کے دروازے کھولے جائیں۔

بھائیو اور بہنو!اللہ کی سب سے بڑی نعمت اپنے بندوں پر یہ ہوتی ہے کہ ان کے ہوش و حواس قائم اور دائم رہیں اور وہ اپنی قابلیتوں اور صلاحیتوں کو ایسے کاموں میں صرف کریں جس سے اللہ کی رضا حاصل ہوتی رہے۔

بھائیو اور بہنو!تاہم!بنی نوع انسان کو اس دنیا میں امتحان کے لئے بھیجا گیا ہے جس کی وجہ سے اسے زندگی کے ہر موڑ پر مصائب، مشکلات، ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن ان مصائب، مشکلات اور ناکامیوں کے ہوتے ہوئے بھی اگر بندہ اپنے ہوش و حواس قائم رکھ سکتا ہے اور اپنی صلاحیتوں اور قابلیتوں پر آنچ نہیں آنے دیتا اور اللہ کی توفیق سے صبر کرتا رہتا ہے تو یہ اس بات کی نشانی ہے کہ اس پر اللہ کی رحمتیں محیط ہیں۔

بھائیو اور بہنوانبیائے کرام جو کہ اللہ کے فرستادہ ہوتے ہیں تاریخ گواہ ہے کہ ان کو زندگی کے ہر لمحہ میں مصائب، مشکلات اور ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن انہوں نے اللہ کی توفیق سے صبر کیا۔ اللہ تعالیٰ کی انبیائے کرام کو مصائب، مشکلات اور ناکامیوں سے گزارنے کی ایک یہ حکمت بھی نظر آتی ہے کہ جب اللہ کے بندوں کو مصائب، مشکلات اور ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑے تو وہ انبیائے کرام کی زندگیوں سے سبق حاصل کریں۔

بھائیو اور بہنو!جب بندہ مصائب، مشکلات اور ناکامیوں میں گھر جاتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہوتا ہے کہ اس کی مشکلات کو دور کر دیا جائے اور ناکامیوں کو کامیابی میں بدل دیا جائے۔

بھائیو اور بہنوبلاشبہ اللہ تعالیٰ دعا کو قبول فرما لیتے ہیں لیکن اس کی قبولیت کا اظہار ایسی صورتوں میں ہوتا ہے جس میں براہ راست دعا کی قبولیت کے آثار نظر نہیں آتے۔ مثلاً

 

ایک بندے کے پاس مال نہیں کہ وہ کھانے کا سامان خرید سکے اور وہ اللہ سے مال

کے لئے دعا کرتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ اسے مال فراہم نہیں کرتے

لیکن اس کے کھانے کا انتظام فرما دیتے ہیں،

ایک بندے کو قرضخواہ قرض کی ادائیگی کا تقا ضا کرتے ہیں۔

بندہ قرض کی ادائیگی کے لئے اللہ سے دعا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے مال فراہم نہیں کرتے

لیکن قرضخواہ کے دل کو نرم کر دیتے ہیں اور وہ مزید مہلت دے دیتا ہے۔

اگر قرضخواہ خود تنگ دست ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ کسی اور ذریعے سے اس کو مال فراہم کر دیتے ہیں۔

لب لباب

بھائیو اور بہنو!مختصر یہ کہ اللہ کی رحمتوں سے نا امید نہیں ہونا چاہیے وہ اس وجہ سے کہ اللہ کے خزانے بے بہا ہیں اور ان میں کمی نہیں آ سکتی۔ تاہم یہ دنیا کی زندگی ایک امتحان ہے اور امتحان آزمائشوں کا باعث ہوتا ہے۔


بھائیو اور بہنو!اگر بندے کے ہوش و حواس قائم ہیں اور وہ اپنی صلاحیتوں اور قابلیتوں کو بدرجہ اتم استعمال کر رہا ہے تو اسے اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ اللہ کی رحمتیں اس پر احاطہ کئے ہوئے ہیں۔


لباس


بھائیو اور بہنو!قدرت کا یہ اصول ہے کہ کوئی بھی کام کرتے ہوئے انسان کو چاہیے کہ وہ ایسی ہیئت میں ہو جس کا وہ کام متقاضی ہوتا ہے۔

بھائیو اور بہنو!نماز کی ادائیگی کرتے ہوئے اللہ کے حضور حاضری ہوتی ہے جس میں مؤمن کو اپنی عاجزی اور بندگی کا اظہار کرنا ہوتا ہے۔ انسان کی ہیئت میں لباس ایک بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس لئے مؤمن کو چاہیے کہ وہ نماز ادا کرتے ہوئے ایسے لباس میں ملبوس ہو کہ اس کے اعضا کی ہیئت ظاہر نہ ہو۔


بھائیوں اور بہنو!ہر انسان کے دو لباس ہوتے ہیں

تقویٰ کا لباس

بدن کو ڈھانپنے کا لباس


بھائیوں اور بہنو!جب
تقویٰ کا لباس اتر جاتا ہے تو بدن کہ ڈھانپنے کا لباس بھی اتر جاتا ہے۔

تقویٰ کا لباس

بھائیوں اور بہنو!تقویٰ کا لباس خوف خدا ہے۔

بھائیو اور بہنو!تقویٰ کا لباس اس وقت تک قائم رہتا ہے جب تلک انسان اللہ کی ہدایت پر چلتا رہتا ہے اور اللہ کے احکام کے مطابق زندگی گزارتا ہے۔

بھائیوں اور بہنو!حضرت آدم علیہ السّلام اور حضرت حوا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو جنت میں بھیجا گیا اور ان کو ہدایت کی گئی کہ جنت میں جہاں چاہیں جائیں اور جو چاہے کھائیں پئیں لیکن اس درخت کے قریب بھی نہ جائیں،

بھائیو اور بہنو!جب تلک حضرت آدم علیہ السّلام اور حضرت حوا رضی اللہ تعالیٰ عنہا اس درخت کے پاس نہ گئے تو تقویٰ کا لباس قائم رہا۔ لیکن جیسے ہی وہ شیطان کے ورغلانے پر درخت کے قریب گئے اور اس درخت کا پھل کھا لیا تو تقوی کا لباس اتر گیا جس سے ان کے جسم ننگے ہو گئے تھے اور پھر انہوں نےاپنی شرم گاہوں کو پتوں سے ڈھانکا تھا۔

 

بھائیوں اور بہنو!مندرجہ بالا واقعہ سے علمائے کرام مستنبط کرتے ہیں کہ جب تلک دل میں خوف خدا پیدا نہ ہوگا اس وقت تلک جسم ننگے ہی رہیں گے۔

بھائیوں اور بہنو!آج کے دور میں کیا نظر آ رہا ہے۔

بھائیو اور بہنو!چونکہ خوف خدا دل سے ختم ہو چکا ہے اس لئے لباس اس طرز کے بنائے جاتے ہیں کہ جسم کا ہر عضو نظر آتا ہے جو کہ اللہ کی نافرمانی کی دعوت دیتا ہے۔

بھائیو اور بہنو!عباداتمثلاً: نماز بھی ایسے لباس میں ہی ادا کی جاتی ہیں کہ جسم کا ہر عضو نمایاں ہوتا ہے۔ایسے لباس میں جس سے تقویٰ کا لباس قائم نہ رہا ہو تو وہ نماز کیسے قبول ہو سکتی ہے اور کیسے قائم ہو سکتی ہے۔ نماز کے قائم کرنے سے مقصد قرآن پاک کی تعلیمات پر عمل کرنا ہوتا ہے۔ لیکن جب نماز کی ادائیگی کرتے ہوئے اللہ کی نافرمانی کی جاتی ہے تو قرآن کی تعلیمات پر روز مرہ کی زندگی میں کیسے عمل ہو سکتا ہے۔

لب لباب

بھائیوں اور بہنو!اللہ کی رحمتوں سے مستفید ہونے کے لئے ضروری ہے کہ خوف خدا دل میں پیدا ہو اور لباس جو کہ ایک انسان کی شخصیت و کردار کا مظہر ہوتا ہے اسے اللہ کی ہدایت کے مطابق بنایا جائے تاکہ زندگی کے ہر لمحہ میں اللہ کا خوف رہے اور نماز کو قائم کیا جاتا رہے جس سے اللہ کی رحمتوں کا نزول ہوتا رہے۔


بھائیوں اور بہنو!نماز دین اسلام کا اہم شعار ہے جس کی ادائیگی کے لئے وضو، اذان، دعائے وسیلہ ایسے شعار ہیں کہ جن کے پورا کرنے سے نماز میں قوت پیدا ہوتی ہے اور وہ قوت اللہ تعالیٰ سے مؤمن کی دعا کی قبولیت کا مطالبہ کرتی ہے۔ اس لئے ہر مؤمن کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے وضو کرتے ہوئے، دعائے وسیلہ کے بعد اپنے لئے، ماں باپ کے لئے، دوست احباب کے لئے اور رشتہ داروں کے لئے دعا کرتا رہے تاکہ جب نماز ادا ہو جائے تو نماز اللہ تعالیٰ سے دعاؤں کی قبولیت کا مطالبہ کرے۔

بھائیو اور بہنو!جب مؤمن نماز ادا کرنے کے بعداللہ کے فضل کو تلاش کرتا ہے تو اگر وہ نماز کو قائم کرتا ہے تو اس کی دعائیں قبول ہوتی ہوئی نظر آتی ہیں۔


انفرادی طور پر فرض یا نفل نماز ادا کرنا

بھائیوں اور بہنو!ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ مؤمن باجماعت فرض نماز ادانہ کر سکے اور پھر نفل نماز تو انفرادی طور پر ہی پڑھی جاتی ہے۔

اذان نماز کی ادائیگی بغیر جماعت کے

بھائیوں اور بہنو!قرآن و حدیث کی روشنی میں اس بات کو ترجیح دینی چاہیے کہ فرض نماز باجماعت مسجد میں ادا کی جائے۔ تاہماس بات کی رخصت ہے کہ اگر ایک مؤمن کسی وجہ سے مسجد میں نماز باجماعت ادا نہیں کر سکتا تو اکیلا گھر میں یا کسی جگہ پر بھی ہو فرض نماز اکیلا ادا کر سکتا ہے۔

بھائیوں اور بہنو!ایک حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ


جب ایک مؤمن اکیلانماز ادا کرتا ہے اور نماز ادا کرنے سے پیشتر وہ اذان اور اقامت کہتا ہے تو فرشتوں کی جماعت اس کے ساتھ نماز میں شامل ہو جاتی ہے۔


بھائیوں اور بہنو!مؤمن فرض نماز کے علاوہ نفل نماز کی ادائیگی بھی کرتاہے اور نفل نماز اکیلے ہی ادا کی جاتی ہے۔

بھائیو اور بہنو!اس لئے مؤمن کو چاہیے کہ وہ جب اکیلا فرض یا نفل نماز ادا کرے تو وہ اذان، دعائے وسیلہ اور دعائے وسیلہ کے بعد اپنے لئے اور اپنے دوست احباب کے لئے دعائیں کر لے اور پھر اقامت کہہ کر نماز کی ادائیگی شروع کر لے۔

بھائیو اور بہنو!اللہ تعالیٰ رحیم و کریم ہیں۔ اپنے بندوں کو اپنی رحمتوں سے محروم نہیں رکھنا چاہتے۔

بھائیو اور بہنو!اذان اور دعائے وسیلہ کی برکات کو جاننے کے لئے مضامین بنام: اذان، دعائے وسیلہ کا مطالعہ کریں۔ انشأ اللہ اللہ کی رحمتوں کو سمیٹنے کی دل و دماغ میں خواہش پنپ لیتی رہے گی۔

لب لباب

بھائیوں اور بہنو!اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہیں، اللہ کے خزانے بے بہا ہیں، اگر مجبوری یا معذوری کی بنا پر ایک مؤمن باجماعت کے ساتھ نماز ادا نہیں کر سکتا تو پھر بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے ایسا لائحہ عمل ترتیب دیا ہے کہ مؤمن اللہ کی رحمتوں سے محروم نہیں رہ سکتا۔


اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ
مومنین کو اپنی رحمتیں سمیٹنے کی توفیق عطا فرمائے۔


آمین ثم آمین


حرف آخر

بھائیوں اور بہنو!مندرجہ بالا گزارشات کے پیش نظر یہ یہ بات کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ انسان کی زندگی کا ہر لمحہ
دعاؤں کے کرنے پر محیط ہے اور پھر عملی زندگی میں دعاؤں کی قبولیت کے لئے اللہ کا فضل تلاش کیا جاتا ہے۔


اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ اپنی ہدایت پر
زندگی
گزارنے کے لئے دعاؤں کی توفیق فرماتا رہے۔

آمین ثم آمین

دعاؤں میں یاد رکھیں

والسّلام

نصیر عزیز

پرنسپل امن کی پکار


Comment (1)

  1. admin (Post author)

    Test

Leave a Comment