حصہ چہارم

محترمہ بھابی صاحبہ! اللہ تعالٰی نے اپنے فضل و کرم سے یہ دستور طے کر دیا ہے کہ حضرت آدم علیہ السّلام کی ذریت نسل در نسل پیدا ہوتی رہے گی۔ مرد اور عورت کو ماں باپ کا منصب مل جائے گا اور اولاد کو بیٹا بیٹی کا منصب مل جائے گا۔

محترمہ بھابی صاحبہ! اللہ تعالٰی نے جب حضرت آدم علیہ السّلام کی پشت سے ان کی تمام ذریت کو نکال لیا تھا تو ہر ذریت میں روح کو سمو دیا تھا۔ اللہ تعالٰی نے ہر ذریت سے اقرار کروایا کہ اللہ تعالٰی ہر ذریت کے رب ہیں:

ترجمہ سورۃ الاعراف آیت نمبر172

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اور جب نکالا تیرے رب نے بنی آدم کی پیٹھوں سے ان کی اولاد کو اور اقرار کرایا ان سے ان کی جانوں پر ج

کیا میں نہیں ہوں تمہارا رب ج

ہم اقرار کرتے ہیں ج

کبھی کہنے لگو قیامت کے دن ہم کو تو اس کی خبر نہ تھی۔

محترمہ بھابی صاحبہ! جب ہر روح نے اللہ تعالٰی کے رب ہونے کا اقرار کر لیا تو ہر روح مسلمان ہو گئی۔ علمائے کرام فرماتے ہیں کہ جب ہر روح مسلمان ہو گئی تو وہ اللہ کی رب، رب، رب کی تسبیح کرنے لگی۔ روحوں کو عالم ارواح میں آباد کر دیا۔

محترمہ بھابی صاحبہ! اللہ تعالٰی نے یہ دستور طے کر دیا کہ جب بچے کی پیدائش ہو جائے تو اس کو نہلا دھلا کر، پاک و صاف کپڑے پہنا کر اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کا میں تکبیر پڑھی جائے۔

محترمہ بھابی صاحبہ! علمائے کرام فرماتے ہیں کہ بچے کے دائیں کان میں اذان دینے کا مطلب یہ ہے کہ اسے یاد دلایا جائے کہ اس نے اللہ کے رب ہونے کا اقرار کیا ہے اور بائیں کان میں تکبیر پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ اب اسے دنیا میں قرآن و حدیث کے مطابق زندگی بسر کرنی ہے۔

محترمہ بھابی صاحبہ! علمائے کرام فرماتے ہیں کہ ہر روح کے لاشعور میں قرآن و حدیث کا علم ودیعت کیا ہوا ہوتا ہے۔ جب اسے یاد دلایا جاتا ہے تو علم لا شعور سے شعور میں منتقل ہو جاتا ہے۔

محترمہ بھابی صاحبہ حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ

ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے لیکن پھر اس کے ماں باپ اس کو

یہودی، عیسائی اور مجوسی وغیرہ بنا دیتے ہیں۔

محترمہ بھابی صاحبہ !اللہ تعالٰی نے اپنے کلام میں واضح طور پر فرمایا ہے کہ صرف نیک اور پرہیز گار مسلمان ہی جنت میں جائیں گے۔ گنہگار مسلمانوں گناہوں کی سزا بھگتنے کے بعد جنت میں جانے کی اجازت ہو گی۔ مشرک، یہودی اور عیسائی وغیرہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے:

سورۃآل عمران آیت نمبر85

بسم اللہ الرحمن الرحیم

و من یتبع غیر الاسلام دیناً فلن یقبل منہ ج

و ھو فی الاٰخرۃ من الخٰسرین۔

اور جو کوئی چاہے سوا دین اسلام کے اور کوئی دین سو اس سے ہر گز قبول نہیں ہو گا ج

اور وہ آخرت میں خراب ہے۔

محترمہ بھابی صاحبہ! علمائے کرام فرماتے ہیں کہ بچہ بلوغت کے بعد ہی عبادات کو بجا لانے کا مکلف ہوتا ہے۔ اگر بلوغت سے پیشتر اس سے گناہ سرزد ہو جائیں وہ اس کے اعمال نامہ میں نہیں لکھے جاتے۔ اس لئے اگر غیر مسلم کے گھر میں پیدا ہونے والا بچہ بلوغت سے پیشتر فوت ہو جاتا ہے تو وہ اللہ کے فضل وکرم سے جنت میں جائے گا۔

محترمہ بھابی صاحبہ! سوال جنم لیتا ہے کہ

        اللہ تعالٰی کی ذات یکتا ہے،

        بنی نوع انسان حضرت آدم علیہ السّلام کی ذریت ہے،

        دین اسلام حضرت آدم علیہ السّلام اور ہر نبی کو دیا گیا تھا،

        دین اسلام کی تکمیل خاتم الانبیأ محمد ابن عبداللہ صل اللہ علیہ وسلم پر ہوئی تھی،

محترمہ بھابی صاحبہ! تو عیسائی، یہودی، مجوسی، وغیرہ مذاہب نے کیسے جنم لیا؟

محترمہ بھابی صاحبہ! علمائے کرام فرماتے ہیں کہ نفس اور شیطان کے زیر اثر ہر نبی کے پیروکاروں اللہ تعالٰی کی کتابوں میں اپنی نفسانی خواہشوں کو پورا کرنے کے لئے تبدیلی اور تحریف کر دی اور ایک نئے مذہب کا نام دیا:

ترجمہ سورۃ البقرۃ ٓیت نمبر 79

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سو خرابی ہے ان کو جو لکھتے ہیں کتاب اپنے ہاتھ سے پھر کہہ دیتے ہیں یہ خدا کی طرف سے ہے تاکہ لیویں اس پر تھوڑا سا مول ط سو خرابی ہے ان کو اپنے ہاتھ کے لکھے سے اور خرابی ہے ان کو اپنی کمائی سے۔

محترمہ بھابی صاحبہ! مختصر یہ کہ جب اللہ کے کلام یعنی دین اسلام کے ایک حکم میں بھی تبدیلی کر دی جائے تو بندوں کا رشتہ دین اسلام سے کٹ جاتا ہے اور بندہ دائرہ اسلام سے نکل جاتا ہے۔ اس لئے پھر نبی کے پیروکار تحریف شدہ تعلیمات کا پر چار کرتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے تو وہ اسے ایک نئے مذہب کا نام دیتے ہیں۔ مثلاً :حضرت یعقوب علیہ السّلام کے پیروکاروں نے بنی اسرائیل کا لقب اختیار کیا کیونکہ حضرت یعقوب علیہ السّلام کا لقب اسرائیل تھا۔ اسی لئے حضرت موسٰی علیہ السّلام کے پیروکاروں نے اپنی ریاست کا نام اسرائیل رکھا ہے۔حضرت یعقوب علیہ السّلام کے ایک بیٹے کا نام یہودا تھا۔ تو انہوں نے مذہب کا نام یہودی رکھا دیا۔

محترمہ بھابی صاحبہ! حقیقت میں اسلامی، یہودی، اور عیسائی ذہنیتیں ہیں۔ اسلامی ذہنیت اللہ کے کلام کے مطابق ہوتی ہے، یہودی ذہنیت دین میں تحریفات کرنا ہوتا ہے، اور عیسائی ذہنیت بے حیائی اور عریانی کو فروغ دینا ہے۔

محترمہ بھابی صاحبہ! علمائے کرام فرماتے ہیں کہ ایک بندہ جس مذہب (ذہنیت) کا پیرو کار ہو اس کے ماں باپ اسی ذہنیت کے مطابق اولاد کی تعلیم و تربیت کرتے ہیں اور اسی ذہنیت کے تعلیمی مراکز میں تعلیم دلواتے ہیں۔

محترمہ بھابی صاحبہ! حدیث پاک کا مفہوم ہے:

ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے لیکن پھر اس کے ماں باپ اس کو

یہودی، عیسائی اور مجوسی وغیرہ بنا دیتے ہیں۔

محترمہ بھابی صاحبہ! علمائے کرام فرماتے ہیں کہ اللہ تعالٰی کے دستور کے مطابق ہر بچہ مسلمان پیدا ہوتا ہے کیونکہ اس کی روح نے روز الست میں

٭اللہ کا رب ہونے کا اقرار کیا تھا،

٭اس کے لاشعور میں اللہ کا کلام ودیعت کر دیا گیا تھا۔

محترمہ بھابی صاحبہ! علمائے کرام فرماتے ہیں کہ بچے کی بلوغت سے پہلے کا زمانہ بچوں کی تربیت کرنے کا ہوتا ہے۔ اس لئے جن بچوں کی تربیت جس مذہب (ذہنیت) کے مطابق ہو گی بلوغت کے بعد وہ اسی مذہب (ذہنیت) کا پیروکار ہوگا۔ یعنی:

٭مسلمان کے گھر میں پیدا ہونے والے بچے کی ذہنیت اسلامی ہوگی،

٭یہودی کے گھر میں پیدا ہونے والے بچے کی ذہنیت دین میں تحریف اور تبدیلی کرنے کی ہوگی،

٭عیسائی کے گھر میں پیدا ہونے والے بچے کی ذہنیت بے حیائی اور عریانی کو فروغ دینے والی ہوگی۔

محترمہ بھابی صاحبہ! علمائے کرام فرماتے ہیں کو مسلمان ہونے کی شرائط ایمان مفصل اور ایمان مجمل میں بتلائی گئی ہیں:

ایمان مفصل

اٰمنت باللہ و ملٰئکتہ و کتبہ و رسولہ والیوم الاٰخر والقدر خیرہ و شرہ من اللہ تعالٰی والبعث بعد الموت۔

میں ایمان لایا اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر اور آخرت کے دن پر اور اچھی بری تقدیر پر کہ وہ اللہ تعالٰی کی طرف سے ہے اور جی اٹھنے پر بعد مرنے کے۔

ایمان مجمل

اٰمنت باللہ کما ھوباسماۂ وصفاتہ وقبلت جمبع احکامہ اقرار باللسان و تصدیق بالقلب۔

میں ایمان لایا اللہ پر جیسے اس کی ذات اپنے ناموں اور صفتوں کے ساتھ ہے اور میں نے قبول کئے اس کے تمام احکام زبان سے اقرار ہے اور دل سے یقین ہے۔

محترمہ بھابی صاحبہ! علمائے کرام فرماتے ہیں کہ ایمان مفصل اور ایمان مجمل مندرجہ ذیل آیات کی تفسیر ہیں:

ترجمہ:سورۃ البقرۃ آیت نمبر

182

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مان لیا رسول نے جوکچھ اترا اس پر اس کے ربّ کی طرف سے اور مسلمانوں نے بھی ط سب نے مانا اللہ کو اور اس کے فرشتوں کو اور اس کی کتابوں کو اور اس کے رسولوں کو قف کہتے ہیں کہ ہم جدا نہیں کرتے کسی کو اس کے پیغمبروں میں سے اور کہہ اٹھے کہ ہم نے سنا اور قبول کیا ق تیری بخشش چاہتے ہیں اے ربّ ہمارے اور تیری ہی طرف لوٹ کر جانا ہے۔

سورۃ النسأ آیت نمبر136

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اے ایمان والو ایمان(یقین) لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو نازل کی ہے اپنے رسول پر اور اس کتاب پر جو نازل کی تھی پہلے اور جو کوئی یقین نہ رکھے اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور کتابوں پر اور قیامت کے دن پر وہ بہک کر دور جا پڑا۔

محترمہ بھابی صاحبہ! مختصر یہ کہ مسلمان ہونے کی شرائط ہیں

        اللہ تعالٰی کی ذات یکتا پر خلوص دل سے ایمان

        اللہ تعالٰی کے تمام رسولوں پر یعنی حضرت آدم علیہ السّلام سے لے کر خاتم الانبیأ محمد ابن عبداللہ صل اللہ علیہ وسلم پر خلوص دل سے ایمان،

        اللہ تعالٰی کی کتابوں پر ایمان جن میں تبدیلی اور تعریف نہ کی گئی ہو،

        اللہ تعالٰی کے فرشتوں پر ایمان،

        قیامت کے دن پر ایمان،

        تقدیر پر ایمان۔

محترمہ بھابی صاحبہ! اگر بندہ مندرجہ بالا شرائط میں سے ایک شرط پر بھی ایمان نہیں لاتا وہ مسلمان ہی نہیں ہو سکتا۔ مثلاً ایک بندہ کہتا ہے کہ میں ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیأ میں سے صرف ایک نبی پر ایمان نہیں لاتا جس کا نام قرآن میں نہیں ہے وہ مسلمان نہیں ہو سکتا۔

محترمہ بھابی صاحبہ!اس پہلو کو ایک مثال سے سمجھا جا سکتا ہے۔

محترمہ بھابی صاحبہ! گنتی کے پہلے دس ہندسوں کو لے لیں۔

1, 2, 3, 4, 5, 6, 7, 8, 9, 10

محترمہ بھابی صاحبہ! ان ھندسوں میں سے اگر تین کے ھندسے کو حذف کر دیا جائے تو باقی ھندسوں کی کوئی قدر و قیمت نہیں رہتی۔ اس لئے مسلمان ہونے کے لئے، کم و بیش، ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرام پر ایمان لانا ہو ضروری ہے وگرنہ وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جائے گا۔

محترمہ بھابی صاحبہ!علمائے کرام فرماتے ہیں کہ ایک مسلمان عیسائی ذہنیت کی زندگی گزارتے ہوئے مسلمان رہ سکتا ہے یعنی حقوق اللہ اور حقوق العباد کو ادا نہیں کرتا جس کی وجہ سے گنہگار ہوتا رہتا ہے جس کی سزا اسے دوزخ میں رہ کر ادا کرنی ہوگی اگر اس نے مرنے سے پیشتر اللہ کی بارگاہ میں تویہ و استغفار خلوص دل سے نہیں کی ہو گی۔ سزا بھگتنے کے بعد وہ اللہ تعالٰی کے فضل و کرم سے جنت میں جا سکتا ہے۔

محترمہ بھابی صاحبہ!علمائے کرام فرماتے ہیں کہ حقیقت میں ماحول اور فضا بندوں کی ذہنیت بناتے ہیں۔ مثلاً:

٭اگر ایک بچہ مسلمان ماں باپ کے گھر پیدا ہوا ہے لیکن اس کی پرورش اور تعلیم و تربیت مغربی ماحول اور فضا میں ہوئی ہے تو اس کی ذہنیت مغربی ہوگی لیکن چونکہ وہ مسلمان ماں باپ کے گھر پیدا ہوا ہے اس لئے وہ خود کو مسلمان ہی سمجھے گا اور مسلمان ہی کہلائے گا۔

٭اگر ایک بچہ یہودی یا عیسائی ماں باپ کے گھر پیدا ہوا ہے لیکن اس کی پرورش اور تعلیم و تربیت اسلامی ماحول اور فضا میں ہوئی ہے تو اس کی شخصیت و کردار میں اسلامی اقدار کا پرتو ہوگا لیکن یہودی یا عیسائی ہی کہلائے گا۔ تاہم! بلوغت کے بعد اسے مسلمان ہونے کی تمام شرائط کو پورا کرنا ہوگا اور کلمہ طیبہ اور کلمہ شہادت کا خلوص دل سے کم از کم دو گواہوں کے سامنے اقرار کرنا ہوگا تب وہ بندہ مسلمان ہو گا اور مسلمان کہلائے گا اور دائرہ اسلام میں دوبارہ داخل ہو جائے گا۔ یعنی جب اس کی روح نے ازل میں اللہ تعالٰی کے رب ہونے کا اقرار کر لیا تھا تو وہ دائرہ اسلام میں داخل ہو گیا تھا۔ لیکن یہودی یا عیسائی ماں باپ کے گھر پیدا ہونے سے اس پر یہودی یا عیسائی ہونے کا لیبل لگ چکا تھا اس لئے بلوغت کے بعد اسے دائرہ اسلام میں داخل ہونے لئے دوبارہ اللہ تعالٰی کے رب ہونے کا اقرار کرنا ہوگا۔ تاہم !علمائے کرام فرماتے ہیں کہ اگر کسی بندے کو کلمہ طیبہ اور کلمہ شہادت پڑھانے والا نہیں ہے اور دو گواہ بھی نہیں، اکیلا ہے تو وہ اللہ تعالٰی کو گواہ بنا کر خلوص دل سے اللہ کی ذات یکتا کا اقرار کر تا ہے اور گزشتہ گناہوں پر خلوص دل سے توبہ و استغفار کرتا ہے اور اسلامی اقدار کے مطابق زندگی گزارنے کا اقرار کرتا ہے تو اللہ تعالٰی کی نظر میں وہ دوبارہ دائرہ اسلام میں داخل ہو چکا ہے اور اگر بغیر کسی کو بتلائے کہ وہ دائرہ اسلام میں داخل ہو چکا ہے یعنی کچھ دیر کے بعد وہ دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے تو آخرت میں اس معاملہ بطور مسلمان ہی ہو گا۔

لب لباب

محترمہ بھابی صاحبہ! مختصر یہ کہ چودہ سو سال پیشتر کم و بیش تمام دنیا میں گمراہی کا دور دورہ تھا اور تمام بنی نوع انسان دوزخ کی طرف رواں دواں تھا۔ اللہ تعالٰی نے اپنا خاص فضل و کرم کیا اور محمد ابن عبداللہ صل اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا اور بنی نوع انسان کو خبردار کر دیا کہ محمد ابن عبداللہ صل اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیأ ہیں اور دین اسلام مکمل ہو چکا ہے اس لئے یہ آخری موقعہ کے وہ اللہ کی طرف رجوع کر لیں کیونکہ صرف دین اسلام ہی دنیا اور آخرت میں کامیابی دلوا سکتا ہے اور کوئی بھی خود ساختہ مذہب اللہ کیی رضا حاصل نہیں کر سکتا۔ ذیل میں اللہ کے کلام کی متعلقہ آیات کو پیش کیا جاتا ہے:

خاتم الانبیا

ترجمہ سورۃ الاحزاب آیت نمبر 40

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ما کان محمد ابا احد من رجالکم ولٰکن رسول اللہ و خاتم النبین ط

و کان اللہ بکل شیء علیما۔

محمد باپ نہیں کسی کا تمہارے مردوں میں سے لیکن رسول ہے اللہ کا اور مہر سب نبیوں پر ط

اور ہے اللہ سب چیزوں کا جاننے والا۔

دین اسلام کا مکمل ہونا

سورۃ المائدہ آیت نمبر 3

بسم اللہ الرحمن الرحیم

۔۔۔الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم

نعمتی و رضیت لکم الاسلام دین ط۔۔

آج میں پورا کر چکا تمہارے لئے دین تمہارا اور پورا کیا تم پر میں نے

احسان اپنا اور پسند کیا میں نے تمہارے واسطے اسلام کو دین۔

صرف دین اسلام کا قبول ہونا

سورۃآل عمران آیت نمبر85

بسم اللہ الرحمن الرحیم

و من یتبع غیر الاسلام دیناً فلن یقبل منہ ج

و ھو فی الاٰخرۃ من الخٰسرین۔

اور جو کوئی چاہے سوا دین اسلام کے اور کوئی دین سو اس سے ہر گز قبول نہیں ہو گا ج

اور وہ آخرت میں خراب ہے۔

محترمہ بھابی صاحبہ! الحمد للہ! محمد ابن عبداللہ صل اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالٰی کے فضل و کرم اور توفیق سے اللہ کا پیغام بنی نوع انسان تلک پہنچایا اور صحابہ اکرام کی جماعت تیار کی جو، نسل در نسل، آپ صل اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے پردہ فرما جانے کے بعد اللہ کا پیغام بنی نوع انسان تلک پہنچاتی رہے گی۔

محترمہ بھابی صاحبہ! الحمد للہ !صحابہ رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین کی جماعت آپ صل اللہ علیہ وسلم کی حیات مبار ک میں ہی اللہ کا پیغام بنی نوع انسان تلک پہنچانا شروع کر دیا تھا۔ مثلاً:خلافت راشدہ کے ساڑھے بارہ سال کے مختصر عرصہ میں پچیس لاکھ مربع میل پر اللہ کا پیغام پہنچ چکا تھا۔

محترمہ بھابی صاحبہ! تاہم! امت مسلمہ بھی حضرت آدم علیہ السّلام کی ذریت ہے۔ مختصر یہ کہ امت مسلمہ بھی نفس اور شیطان کے زیر اثر اللہ تعالٰی کے سیدھے راستے سے ہٹتی چلی گئی اور دور حاضر میں یہ روز روشن کی طرح دیکھا جا سکتا کہ تمام اسلامی ممالک میں برائی کے محوروں کا دور دورہ ہے۔ حتٰی کہ پاکستان جو اللہ کے فضل و کرم سے کلمہ گو لا الہ الاللہ محمد الرسول اللہ کی بنیاد پردنیا کے نقشہ پر ابھرا تھا، میں تمام برائی کے محوروں کا دور دورہ ہے اور متحدہ امارات کی اسلامی ریاستوں میں شراب خانوں، جوأ خانوں وغیرہ کے ساتھ سوئر کے گوشت کی بھی دکانیں ہیں۔ نیز سعودی عرب جو دین اسلام کا مرکز ہے، میں بھی برائی کے محوروں کو فروغ دینے کی تیاری ہو رہی ہے مثلاً:سعودی عرب میں ایک شہر کی تعمیر کی جا رہی ہے جہاں پر ہر قسم کی عیاشی کا سامان ہوگا اور اس شہر میں اسلامی قوانین کا اطلاق نہیں ہوگا تاکہ غیر مسلم اس شہر کے مطابق عیش و عشرت کی زندگی گزار سکیں۔

محترمہ بھابی صاحبہ!الحمد للہ !منصوبہ امن کی پکار کی بنیاد قرآن اور حدیث پر رکھی گئی ہے۔مضامین اس انداز میں لکھ کر شائع کئے گئے ہیں کہ روزمرہ کی زندگی اسلامی اقدار کے مطابق کس طرح گزاری جا سکتی ہے۔ مثلاً: وضو کا عمل کس طرح سے بندے کو ہر وقت با وضو رہنے میں مدد کر سکتا ہے۔ وضو کرنے سے بندہ سر کے بالوں سے لے کر پاؤں کے ناخنوں تک پاک و صاف ہو جاتا ہے۔ پاک و صاف رہنے کی اہمیت کو قرآن میں کئی جگہ واضح کیا گیا ہے:

سورۃالتوبہ آیت نمبر 108

بسم اللہ الرحمن الرحیم

فیہ رجال یحبون ان یتطھرو ط

واللہ یحب المطھرین۔

اس میں ایسے لوگ ہیں جو دوست رکھتے ہیں پاک رہنے کوط

اور اللہ دوست رکھتا ہے پاک رہنے والوں کو۔

محترمہ بھابی صاحبہ! مختصر یہ کہ بندہ دن ورات میں پانچ نمازرں کو ادا کرنے کیلئے وضو کرتا ہے۔ ایک وقت نماز ادا کرنے کے بعد وضو دوسری نماز تلک قائم رہ سکتا ہے۔ اس طرح سے عشأ کی ادا کرنے کے بعد اگر سو جائے گا تو باوضو سوئے گا۔ اس طرح سے بندہ ہر وقت باوضو رہ سکتا ہے۔

محترمہ بھابی صاحبہ!روزمرہ کی زندگی میں ہر بندہ اپنے قول و فعل سے اور تعلیم و تربیت سے دین اسلام کی اشاعت بھی کر سکتا ہے۔ لیکن یہ ایک علحیدہ مضمون ہے اور انشأ اللہ اللہ تعالٰی کی توفیق سے جلد ہی لکھنے کی کوشش کی جائے گی۔

عیدین کے تہوار

محترمہ بھابی صاحبہ! علمائے کرام فرماتے ہیں کہ عیدالفطر کا دن مؤمنین کے لئے خوشی کا دن ہے کہ رمضان المبارک کے روزے خلوص دل سے رکھنے کی وجہ سے اللہ تعالٰی اپنے فضل و کرم سے مؤمینین کے گناہ معاف فرماتے رہتے ہیں۔ عید الفطر کی رات بھی اللہ تعالٰی سے توبہ و استغفار کرتے رہنے کی رات ہے کیونکہ جب جب مؤمنین عید الفطر کی نماز ادا کرتے ہیں اور توبہ و استغفار کرتے تو اللہ تعالٰی اپنے فضل و کرم سے گناہوں کی معافی کا پروانہ جاری فرماتے ہیں۔

محترمہ بھابی صاحبہ! علمائے کرام فرماتے ہیں کہ ایسے بھی شخص بھی ہو سکتے ہیں جن کے گناہ رمضان المبارک میں معاف نہ ہوسکے ہوں تو وہ عید کی رات کو معاف کروا سکیں۔ مثلاً: حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ لیلۃ القدر کی رات کو اللہ تعالٰی اپنے فضل وکرم سے تمام مؤمنین کے گناہ نہ صرف بخش دیتے ہیں بلکہ گناہوں کو نیکیوں میں تبدیل فرما دیتے ہیں بجز چار اشخاص کے

آپ صل اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس کا مفہوم ہے:

ایک وہ شخص جو شراب کا عادی ہو،

دوسرا وہ شخص جو والدین کی نافرمانی کرنے والا ہو،

تیسرا وہ شخص جو قطع رحمی کرنے والا ہو اورناطہ توڑنے والا ہو،

چوتھا وہ شخص جو کینہ رکھنے والا ہو۔

محترمہ بھابی صاحبہ! علمائے کرام فرماتے ہیں کہ ایسے لوگ جن کو لیلۃ القدر میں بھی اللہ تعالٰی سے معافی کا پروانہ نہیں مل سکا ان کو چاہیے کہ وہ اللہ کی نافرمانیوں سے توبہ و استغفار کریں اور خود کو ان مؤمنین میں شامل کر لیں جنہیں اللہ تعالٰی نے اپنے فضل وکرم سے معاف کر دیا ہے۔

عید الفطر

محترمہ بھابی صاحبہ! مختصر یہ کہ عید کے روز اچھے اچھے پکوان پکتے ہیں، اچھے اچھے کپڑے پہنے جاتے ہیں، رشتہ داروں اور دوست احباب سے ملاقاتیں ہوتی ہیں، تحفے تحائف آپس میں لئے دئیے جاتے ہیں، محتاجوں، یتیموں، مسکینوں کی سرپرستی کی جاتی ہے، وغیرہ۔

محترمہ بھابی صاحبہ! علمائے کرام فرماتے ہیں کہ عید الفطر کے تہوار کو شرعیت کی پابندیوں
کے ساتھ منانا اگلی نسل کو عید الفطر کے تہوار کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہوتا ہے۔

محترمہ بھابی صاحبہ! الحمد للہ !آپ کے شوہر وقتً فوقتًا کھانا لے کر آتے تھے۔ امید ہوئی کہ آپ کے شوہر عید کے روز یا دوسرے دن عید کے روز جو کھانا پکا ہوگا اس میں سے لے کر آئیں گے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ عید الفطر کے بعد آپ کے شوہر سے ملاقات ہوئی تو میں نے دریافت کیا کہ عید کیسے منائی؟

محترمہ بھابی صاحبہ! انہوں نے جواب دیا جس کا مفہوم ہے

آپ کی بھابی نے کہا کہ ہمارا کوئی ملنے والا نہیں جو ہمارے گھر میں آ سکے یا ان کے گھر میں جا سکے۔ گھر میں بیٹھے بور ہوں گے۔ اس لئے کہیں باہر چلتے ہیں۔ چنانچہ ہم بچوں کے ساتھ شیفیلڈ چلے گئے جہاں پر ہم انگلینڈ میں آنے کے بعد ابتدائی دنوں میں رہے تھے۔ وہاں پر جا کر محلے والوں سے ملاقاتیں کی اور پھر ریسٹورنٹ میں کھانا کھایا اور شام کو گھر واپس آ گئے۔

عید الضحٰے

محترمہ بھابی صاحبہ! آپ کے شوہر نے میرے ساتھ بولٹن کی مسجد میں جمعہ کی نماز ادا کرنی شروع کی۔ عید الضحٰے سے دو ہفتہ پیشتر خطیب صاحب نے مسئلہ بتلایا کہ ہر صاحب نصاب پر قربانی واجب ہے۔ یعنی اگر ایک گھر میں جتنے کمانے والے ہیں اور ان میں سے جتنے صاحب نصاب ہیں ان پر قربانی واجب ہے۔ واجب کو ادا نہ کرنے والا گنہگار ہوتا ہے۔

محترمہ بھابی صاحبہ! ایک روز آپ کے شوہر سے ذکر ہوا کہ آپ کے اہل و عیال پر تین قربانیاں واجب ہیں: آپ، آپ کی اہلیہ اور آپ کا بیٹا۔ انہوں نے جواب دیا کہ میں نے اپنی حصہ کی قربانی کے پیسے پاکستان بھیج دئیے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ آپ کی اہلیہ اور بیٹے کا کیا ارادہ ہے۔ کیا وہ انگلینڈ میں قربانی کریں گے؟ ان کے جواب سے ظاہر ہوا کہ غالباً وہ اس وجہ سے قربانی نہیں کرتے کہ گھر کے سربراہ کی طرف سے قربانی ہو گئی تو سب کی طرف سے ہو گئی۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ نے جمعہ کے خطبہ میں قربانی شے متعلق مسئلہ سنا تھا اور میرا خیال تھا کہ آپ نے اہلیہ اور بیٹے کو بتلایا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے بتلا دیا تھا۔ اب یہ ان کی مرضی کے وہ کیا کرنا چاہتے ہیں۔

محترمہ بھابی صاحبہ! مختصر یہ کہ اللہ کی توفیق سے اصرار کیا کہ آپ ان کو مشورہ دیں کہ وہ قربانی انگلینڈ میں کریں۔ ان کو مشورہ دینے میں کہ وہ قربانی انگلینڈ میں کریں یہ وجہ تھی کہ ان کے گھر سے وقتا فوقتاً جو کھانا گزشتہ چارہ ماہ سے آتا تھا وہ چکن، سبزی یا دال ہوتی تھی۔ گوشت کا سالن غالباً ایک مرتبہ آیا تھا۔ میرا خیال تھا کہ گوشت چونکہ بہت زیادہ مہنگا ہو چکا ہے یعنی دس سے پندرہ پاؤنڈ کلو جس کی وجہ سے آجکل گوشت پکانے میں پرہیز کی جاتی ہے۔ میں نے اللہ کی توفیق سےمشورہ دیا کہ گوشت انسان کی صحت و تندرستی کے لئے لازمی ہے۔ شرعیت نے یہ بھی گنجائش رکھی ہے کہ صاحب نصاب سارا گوشت خود بھی رکھ سکتا ہے اگر وہ ایسے لوگوں کا نہ جانتا ہو جن کو قربانی کا گوشت شرعیت نے دینے کی اجازت دی ہے۔ آپ اس گوشت کو فریز کر کے رکھ سکتے ہیں اور سارا سال کھا سکتے ہیں۔ اس طرح سے واجب بھی ادا ہو جائے گا اور گھریلو اخراجات میں کمی ہو جائے گی کیونکہ مہنگائی کا دور ہے۔

محترمہ بھابی صاحبہ! آپ کے شوہر نے کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا۔ صرف اتنا کہا کہ شاید ان کی اہلیہ اور بیٹا کسی ایسی تنظیم کو پیسے بھیج دءیے ہوں جو غیر ترقی یافتہ ممالک میں غربأ کے لئے قربانی کا گوشت تقسیم کرتی ہیں۔

محترمہ بھابی صاحبہ! یہ تو ظاہر ہے کہ آپ نے اور آپ کے صاحبزادے نے انگلینڈ میں قربانی نہیں کی۔ ہو سکتا ہے آپ اور آپ کے صاحبزادے نے پیسے کسی قربانی کرنے کے لئے تنظیم کو بھیج دئیے ہوں۔ واللہ اعلم۔ اگر بھیج دئیے ہوں تو اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ آپ کی قربانی قبول فرمائے۔ آمین ثم آمین۔ علماۓ کرام فرماتے ہیں کی اگر واجب الادا قربانی کسی وجہ سے نہیں کی جا سکی تو اتنی قربانیوں کا مال صدقہ کر دیا جاۓ۔

محترمہ بھابی صاحبہ! اللہ کی توفیق سے جو آپ کے شوہر کو مشورہ دیا اور آپ کو یہ تفصیل لکھی ہے وہ شرعیت کی رو سے لکھی گئی ہے۔ اللہ تعالٰی آپ کے رزق میں برکت فرمائے۔

لب لباب

محترمہ بھابی صاحبہ! مختصر یہ کہ روز مرہ کی زندگی کو شرعیت کے مطابق گزارنے کے ساتھ اولاد کی پرورش اور تعلیم و تربیت کرنے کا یہ بھی حصہ ہے کہ اولاد کو اسلامی تہواروں سے متعلق بھی بتلایا جائے اور ان تہواروں کو اس طرح منایا جائے جس طرح شرعیت نے اجازت دی ہے۔

محترمہ بھابی صاحبہ! ہو سکتا ہے نفس اور شیطان جو کچھ اللہ کی توفیق سے لکھا گیا ہے وہ آپ کے نفس پر بھاری ہو جس کے لئے معذرت خواہ ہوں۔ تاہم! جو کچھ لکھا گیا ہے وہ بطور پرنسپل امن کی پکار لکھا گیا ہے۔

Leave a Comment