دعائیں کیوں قبول نہیں ہوتیں

بسم اللہ الرحمن الرحیم


امن کی پکار

امت مسلمہ کی دعائیں


کیوں


قبول نہیں ہوتیں

بھائیو اور بہنو

 


السلام علیکم

پیش لفظ

 

بھائیو اور بہنواگر گہری نظر سے دیکھا جائے تو انسان کی زندگی کا ہر لمحہ دعا کرتے کرتے ہی گزر جاتا ہے خواہ وہ زبانی طور پر ہو یا عملی طور پر۔

بھائیو اور بہنوزبانی طور پر اس طرح کہ انسان اللہ تعالٰی کے حضور اپنی حاجات اور ضروریات کو پورا کرنے کے لئے گزار شات کرتا ہے۔ عملی طور پر اس طرح کہ وہ اس ضروریات اور حاجات کو پورا کرنے کے لئے جدو جہد کرتا ہے۔

بھائیو اور بہنوقرآن و حدیث کی روشنی میں اخذ کیا جا سکتا ہے کہ انسان جو عمل کرتا ہے اگر وہ اللہ کی ہدایات کے مطابق ہوتا ہے تو وہ دعا کی قبولیت کی نشانی ہے۔ لیکن اگر وہ عمل اللہ تعالٰی کی ہدایات کے مطابق نہیں ہوتا تو وہ مشیت ایزدی کے تحت ہوتا ہے یعنی اس عمل کا مقدر ہونا۔

بھائیو اور بہنوانسان جو اعمال اللہ تعالٰی کی ہدایت کے خلاف کرتا ہے اس ضمن میں قرآن پاک میں ایسے لوگوں کو خبردار کر دیا ہے

ترجمہ سورۃ النسأ آیت نمبر 115

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اور جو کوئی مخالفت کرے رسول کی جب کہ کھل چکی اس پر سیدھی راہ

اور چلے سب مسلمانوں کے رستہ کے خلاف تو ہم حوالہ کر دیں گے اس کو وہی طرف

جو اس نے اختیار کی اور ڈالیں گے ہم اس کو دوزخ میں اور وہ بہت بری جگہ پہنچا۔

 

بھائیو اور بہنوآج کے دور میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ بنی نوع انسان ہر کام، بجز چند لوگوں کے، اللہ تعالٰی کی ہدایات کے خلاف کر رہا ہے۔

 

بھائیو اور بہنوسوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالٰی ہر شئے پر قادر ہے تو وہ کیوں ایسا ہونے دے رہے ہیں؟

 

بھائیو اور بہنواس کا جواب مندرجہ بالا آیت میں موجود ہے لیکن انسان یہ سمجھتا ہے کہ چونکہ سب کام ہو رہے ہیں اس لئے اس میں اللہ کی مرضی شامل ہے۔

بھائیو اور بہنومندرجہ بالا آیت کے مفہوم میں یہ مفہوم پنہاں ہے کہ انسان اپنے گناہوں پر توبہ و استغفار کرے اور سیدھے راستے کی طرف لوٹ آئے۔

بھائیو اور بہنوذیل میں چند گزارشات لکھنے کی توفیق ہوئی ہے کہ آج کے دور میں امت مسلمہ کی دعائیں کیوں قبول نہیں ہوتیں بلکہ وہ خود اپنے لئے بدعائیں کر رہا ہے۔ اللہ تعالٰی سے پرخلوص عاجزانہ دعا ہے کہ بنی نوع انسان کو اللہ تعالٰی کی ہدایت کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔

آمین ثم آمین

مضمون

آج کے دور میں
امت مسلمہ کی دعائیں کیوں قبول نہیں ہوتیں؟

 

بھائیو اور بہنوحدیث قدسی کا مفہوم ہے۔ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا

میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا۔
میں نے چاہا کہ
پہچانا جاؤں۔
پس میں نے
جن و انس کو پیدا کیا۔

 

بھائیو اور بہنوقرآن و حدیث کی روشنی میں اللہ تعالٰی نے مخلوق کو عبادت کے لئے پیدا کیا

ترجمہ سورۃ الذاریات آیت نمیر 56

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اور میں نے بنائے جن اور آدمی سو اپنی بندگی کو۔


بھائیو اور بہنوبندگی کے لغوی معنی ہیں: عبادت، پرستش، آداب، تسلیم، کورنش، خدمت، نوکری، فرمانبرداری، غلامی، حکم کی تعمیل کرنا۔

 

بھائیو اور بہنواللہ تعالٰی نے انسان کو بندگی کے لئے دعا سکھلائی


ترجمہ سورۃ الفاتحہ آیت نمبر 5

بسم اللہ الرحمن الرحیم

تیری ہی ہم بندگی کرتے ہیں اور تجھی سے مدد چاہتے ہیں۔ط


بھائیو اور بہنواصطلاحی معنوں میں بندگی حقوق اللہ اور حقوق العباد کا مجموعہ ہے۔

 

بھائیو اور بہنوانسان چونکہ اختیار کا مادہ ہونے کی بنأ پر اللہ کے سیدھے راستے سے بھٹک سکتا ہے اس لئے ہر دم اسے اللہ تعالٰی کی اعانت کی ضرورت ہوتی ہے۔بھائیو اور بہنواللہ تعالٰی نے، اپنے فضل و کرم سے، اعانت کے حصول کے لئے اپنے بندوں کو ایک ہتھیار دیا ہے اور وہ ہتھیار ہے

 

دعا


بھائیو اور بہنواللہ پاک نے اپنے بندوں کی روزی اور احتیاجات پوری کرنے کا ذمہ لے رکھا ہے۔ چونکہ بندوں کو اس دنیا میں ایک مقررہ وقت تک رہنا ہے اس لئے بندے خواہ اللہ کی بندگی کریں یا نہ کریں اللہ اپنی ذمہ داری کو پورا کرتے رہیں گے۔

 

بھائیو اور بہنوسوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اللہ اپنی ذمہ داری کو پورا کرتے رہیں گے جس کی انسان کو ضرورت ہے، یعنی کھانا، پینا اور پہننا تو پھر دعا کرنے کی کیا ضرورت ہے؟

 

بھائیو اور بہنواس کا سادہ جواب یہ ہے کہ انسان کودعا کی اس لئے ضرورت ہے کہ وہ حقوق اللہ اور حقوق العباد اللہ تعالٰی کی بتلائی ہوئی ہدایات کے مطابق ادا کر سکے۔

 

بھائیو اور بہنواب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دعا کے ادب اور آداب کیا ہیں؟

 

بھائیو اور بہنودعا نظریہ اور عمل کا مجموعہ ہے

 

اولاًانسان اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں اپنی گزارشات پیش کرتا ہے جو اس کی احتیاجات اور ضروریات ہیں اللہ کو بتلاتا ہے

دوم وہ ان ضروریات اور احتیاجات کے حصول کے لئے ایک نظریہ کی تشکیل کرتا ہے

سوم وہ اس نظریہ کو عمل میں لاتا ہے

 

بھائیو اور بہنواس نظریہ کو عمل میں لانے کے لئے اسباب کی ضرورت ہوتی ہے جو اللہ کے فرمان کے پابند ہیں

سورۃ الاعراف آیت نمبر 54

بسم اللہ الرحمن الرحیم

بے شک تمہارا رب اللہ ہے جس نے پیدا کئے آسمان اور زمین چھ دن میں

پھر قرار پکڑا عرش پر قف اڑھاتا ہے رات پر دن کہ وہ اسے پیچھے لگا آتا ہے دوڑتا ہوا

اور پیدا کئے سورج اور چاند اور تارے تابعدار اپنے حکم کے

سن لو اسی کا کام ہے پیدا کرنا اور حکم فرمانا ط

بڑی برکت والا ہے اللہ جو رب ہے سارے جہان کا۔


ترجمہ سورۃ الحدید آیت نمبر6 – 4

بسم اللہ الرحمن الرحیم

جس نے بنائے آسمان اور زمین چھ دن میں پھر قائم ہوا تخت پر ط

جانتا ہے جو اندر جاتا ہے زمین کے اور جو اس سے نکلتا ہے اور

جو کچھ اترتا ہے آسمان سے اور جو کچھ اس میں چڑھتا ہے ط

اور وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں کہیں تم ہو ط اور اللہ جو تم کرتے ہو اس کو دیکھتا ہے۔

اسی کے لئے راج ہے آسمانوں کا اور زمین کا ط اور اللہ ہی تک پہنچتے ہیں سب کام ۔

داخل کرتا ہے رات کو دن میں اور داخل کرتا ہے دن کو رات میں ط

اور اس کو خبر ہے جیوں کی بات کی۔

 

بھائیو اور بہنواللہ تعالٰی نے اپنی ہر مخلوق میں ایک استعداد یعنی خوبی پیدا کی ہے جو دوسروں کے کام آ سکے۔ مثلاً

 

 

 

آگ میں یہ استعداد پیدا کی گئی ہے کہ وہ گرمی پہنچائے اور جلائے

پانی میں یہ استعداد پیدا کی گئی ہے کہ وہ زمیں میں بوئے ہوئے بیجوں کو سیراب کرے، پیاس بجھائے، آگ بجھائے وغیرہ

دودھ میں استعداد پیدا کی گئی ہے کہ وہ پیاس بجھائے اور انسان کے جسم میں طاقت پیدا کرے

وغیرہ وغیرہ۔

بھائیو اور بہنواسی استعداد کا نام امانت ہے جس کی ذمہ داری ہر مخلوق نے اٹھائی تھی

ترجمہ سورۃ الاحزاب آیت نمبر 72

بسم اللہ الرحمن الرحیم



ہم نے دکھلائی امانت آسمانوں کو اور زمین کو اور پہاڑوں کو پھر

کسی نے قبول نہ کیا کہ اس کو اٹھائیں اور اٹھا لیا اس کو انسان نے ط

یہ ہے بڑا بے ترس نادان۔


بھائیو اور بہنوجب انسان اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے ئے نظریہ کو عمل میں لاتا ہے تو اسباب کی تلاش کرتا ہے۔ جب وہ اسباب کو استعمال کرنا شروع کرتا ہے تو اسباب اللہ تعالیٰ کی طری رجوع کرتے ہیں کہ ان کے لئے کیا حکم ہے۔ اللہ تعالٰی کا حکم ملنے پر اسباب اپنی استعداد کو عمل میں لاتے ہیں جس سے انسان کی ضروریات پوری ہو جاتی ہیں۔

 

بھائیو اور بہنوسوال پیدا ہوتا ہے کہ اسباب یعنی مخلوق کس طرح اللہ تعالٰی کی طرف رجوع کرتی ہے؟

 

بھائیو اور بہنواس کا جواب قرآن پاک میں ہے

 


سورۃ الانبیأ آیت نمبر 69

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ہم نے کہا اے آگ ٹھنڈک ہو جا اور آرام ابراہیم پر۔

 
بھائیو اور بہنوآگ کی استعداد جلانا اور گرمی پہنچانا ہے۔ لیکن جب آگ نے اللہ تعالٰی کی طرف رجوع کیا تو اسے حکم ملا کہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے لئے اپنی تاثیر کو بدل دے یعنی ٹھنڈی اور سلامتی والی ہو جائے۔ مختصر یہ کہ آگ نے اللہ کی تابعداری کی اور حضرت ابراہیم علیہ السقلام کے لئے سلامتی والی ہو گئی اور رسی جس سے ان کو باندھا گیا تھا اسے جلا دیا۔

 

بھائیو اور بہنودعا کی قبولیت کے لئے دل و دماغ میں خلوص کا ہونا ضروری ہے۔ اگر دعا میں خلوص نہ ہوگا تو دعا قبول نہیں ہو گی اور انسان کی ضروریات اور حاجات اس وجہ سے پوری ہوں گی کہ اللہ تعالٰی نے رب ہونے کے ناطے سے مخلوق کی پرورش اور تربیت کا ذمہ لے رکھا ہے اور انسان سمجھتا ہے کہ اللہ نے اس کی دعائیں قبول کر لی ہیں۔

بھائیو اور بہنوموجود زمانہ حال میں انسان نے چونکہ سائنس کے علم کے ذریعہ سے اللہ کی مخلوقات پر کسی حد تک دسترس حاصل کر لی ہے اس لئے وہ سمجھتا ہے کہ مخلوق اس کے تابع ہو گئی ہے۔

 

بھائیو اور بہنوتاریخ کے صفحات بتلاتے ہیں کہ حضور اکرم صل اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم اور علمائے کرام نے قرآن اور حدیث کی روشنی میں اللہ تعالٰی کی کائنات پر غورو خوض اور تدبر کیا تو اس پر مرعی اور غیر مرعی مخلوقات کی جزیات منکشف ہوتی چلی گئیں اور ان کو عمل میں لایا گیا تھا۔

بھائیو اور بہنولیکن رفتہ رفتہ امت مسلمہ اللہ کے سیدھے راستے سے بھٹکتی چلی گئی اور انہوں نے جو دریافتیں کی تھیں غیر مسلموں نے اچک لیا اور ان سے مستفید ہوتے چلے گئے اور آج وہ سائنسی ترقیوں کے علمبردار بن گئے ہیں۔

بھائیو اور بہنوچونکہ یہ قدرت کا مسلمہ اصول ہے کہ اشیأ اپنی استعداد کے مطابق آپ کام کرتی رہیں گی اس لئے کوئی مسلمان ہو یا غیر مسلم، نتائج برآمد ہوں گے۔ لیکن اگر ایک مسلمان خلوص دل سے کام کرے گا تو نتائج میں اللہ کی برکات بھی شامل ہوں گی اور اگر غیر مسلم کام کرے گا تو نتائج میں اللہ کی برکات شامل نہیں ہوں گی۔ مثلاً

 

 

 

اگر حلال شئے بھی ناجائز کمائی سے خریدیں کر کھائی جائے گی تو پیٹ بھر جائے گا اور جسم کی نشو و نما بھی ہو گی لیکن شخصیت و کردار میں انوارات الہی پیدا نہیں ہو سکیں گے جو کہ جائز کمائی سے وہی شئے خرید کر کھائی جائے گی تو پیدا ہوں گے۔

بھائیو اور بہنوآج کے دور میں امت مسلمہ زبوں حال کیوں ہے؟ کیا مسلمان لوگ اللہ تعالٰی کے حضور گڑگڑا کر دعائیں نہیں کرتے؟ راتوں کو روتے نہیں ہی؟ اللہ تعالٰی کے حقوق: نماز، روزہ، حج، زکواۃ، بجا نہیں لاتے؟

بھائیو اور بہنودعائیں قبول کیوں نہیں ہوتیں؟ وہ اس وجہ سے کہ وہ خود عملی طور پر اپنے لئے بدعائیں کرتے رہتے ہیں۔


بھائیو اور بہنوسوال پیدا ہوتا ہے کہ انسان خود اپنے لئے بدعا کیسے کر سکتا ہے؟

بھائیو اور بہنوقرآن اور حدیث کی روشنی میں ملائکہ، چرند پرند، سمندر کی مخلوق اللہ کے نیک بندوں کے لئے دعائیں کرتے رہتے ہیں اور جو اللہ کے سیدھے راستے سے دور ہوتے ہیں ان کے لئے اللہ کی لعنت برستی رہتی ہے۔ لعنت برسنے سے مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ کی رحمت سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔دوسرے الفاظ میں جب ایک انسان اللہ تعالیٰ کی ہدایت پر عمل نہیں کرتا تو وہ خود کو اللہ کی رحمت سے دور کر لیتا ہے یعنی خود اپنے لئے بدعا کرتا ہے اور اللہ کی مخلوق کو دعوت دیتا ہے کہ وہ اس کے لئے بدعا کریں۔

بھائیو اور بہنوملائکہ، چرند پرند اور سمندر کی مخلوق صرف نیک لوگوں کے لئے ہی دعا کرتے ہیں اس لئے گمراہ ہوئے لوگوں کے لئے دعا نہ کرنا بدعا کرنے کے مترادف ہے۔ بھائیو اور بہنوچونکہ لوگ دنیا کے حصول کی خاطر ہی گمراہ ہو جاتے ہیں اس لئے ایسے لوگوں کے سے متعلق قرآن پاک میں آیات نازل کی گئی ہیں


سورۃ ھود آیت نمبر 16 – 15

بسم اللہ الرحمن الرحیم



جو کوئی چاہے دنیا کی زندگانی اور اس کی زینت بھگتا دیں گے

ہم ان کو ان کے عمل دنیا میں اور ان کو کچھ نقصان نہیں۔ یہی ہیں

جن کے واسطے کچھ نہیں آخرت میں آگ کے سوا اور برباد ہوا

جو کچھ کیا تھا یہاں اور خراب گیا جو کمایا تھا۔


حاشیہ از مولانا شبیر احمد عثمانی رحمتہ اللہ علیہ

دوستویعنی ایسے واضح ثبوت کے بعد جو شخص قرآن پر ایمان نہیں لاتا یا اس کے بتلائے ہوئے راستہ پر نہیں چلتا بلکہ دنیا کی چند روزہ زندگی اور فانی ٹیپ ٹاپ ہی کو قبلہ مقصود ٹہرا کر عملی جد و جہد کرتا ہے۔ اگر بظاہر کوئی نیک کام
مثلاً: خیرات وغیرہ کرتا ہے تو اس سے بھی آخرت کی
بہتری اور خدا کی خوشنودی مقصود نہیں ہوتی محض دنیاوی فوائد کا حاصل کرنا پیش نظر ہوتا ہے، ایسے لوگوں کی بابت خواہ وہ یہود و نصارٰی ہوں یا مشرکین و منافقین یا دنیا پرست ریا کار مسلمان، بتلا دیا کہ دنیا میں ہی ان کا بھگتان کر دیا جائے گا۔ جو اعمال اور کوششیں وہ دنیا کے حصول کے لئے کریں گے ان کے کم و کیف کو ملحوظ رکھتے ہوئے خدا تعالٰی اپنے علم و حکمت سے جس قدر مناسب جانے گا اور دینا چاہے گا، اس دنیا میں ہی عطا کر دے گا۔

دوستواحادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کافر جو خیرات وغیرہ کے کام کرے اس کی یہ فانی اور صوری حسنات جو روح ایمانی سے یکسر خالی ہیں، دنیا میں رائیگاں نہیں جاتیں۔ ان کے بدلہ خدا تعالٰی تندرستی، مال، اولاد، عزت و حکومت وغیرہ دے کر سب کھاتہ بے باق کر دیتا ہے۔ مرنے کے بعد دوسری زندگی میں کوئی چیز اس کے کام آنے والی نہیں ہے۔

دوستوریا کار اور دنیا پرست عالم، متصدق اور مجاہد کے حق میں جو وعید آئی ہے اس کا حاصل بھی یہی ہے کہ ان سے محشر میں کہا جائے گا کہ جس غرض سے تو نے علم سکھلایا یا صدقہ و جہاد کیا وہ دنیا میں ہی حاصل ہو چکی، اب ہمارے پاس تیرے لئے کچھ نہیں۔ فرشتوں کو حکم ہوگا کہ اسے جہنم میں لے جاؤ

دوستویعنی ان اعمال پر دوزخ کے سوا کوئی اور کسی چیز کے مستحق نہیں۔ کفار ابدی طور پر اور ریاکار مسلمان محدود مدت کے لئے۔ ہاںخدا تعالٰی بعض مؤمنین کو محض اپنے فضل و کرم سے معاف فرما دے وہ الگ بات ہے۔

دوستویعنی دنیا میں جو کام دنیوی اغراض کے لئے کئے تھے آخرت میں پہنچ کر ظاہر ہوگا کہ وہ سب برباد ہو گئے اور ریا کاری یا دنیا پرستی کے سلسلہ میں بظاہر جو نیکیاں کمائی تھیں سب یونہی خراب گئیں یہاں کوئی کام نہ آئی۔

 
حاشیہ تمام ہوا۔


بھائیو اور بہنوذیل میں مزید آیات پیش خدمت ہیں جو دنیا سے محبت کرنے والوں سے متعلق ہیں

 


سورۃ شوریٰ آیت نمبر 20

بسم اللہ الرحمن الرحیم



جو کوئی چاہتا ہے آخرت کی کھیتی زیادہ کریں گے ہم اس کے واسطے اس کی کھیتی ج

اور جو کوئی چاہتا ہے دنیا کی کھیتی اس کو دیویں ہم کچھ اس میں سے

اور اس کے لئے نہیں ہے آخرت میں کچھ حصہ۔

سورۃ آل عمرانٰ آیت نمبر 145

بسم اللہ الرحمن الرحیم



اور کوئی نہیں مر سکتا بغیر حکم اللہ کے لکھا ہوا ہے ایک وقت مقرر ط

اور جو چاہے گا بدلہ دنیا کا دیویں گے ہم اس کو دنیا ہی سے ج

اور جو کوئی چاہے گا بدلہ آخرت کا اس میں سے دیویں گے اس کو ط

اور ہم ثواب دی گے احسان ماننے والوں کو۔

سورۃ بنی اسرائیل آیت نمبر 19 – 18

بسم اللہ الرحمن الرحیم

جو کوئی چاہتا ہو پہلا گھر جلد دے دیں گے ہم اس کو اسی میں جتنا چاہیں

جس کو چاہیں پھر ٹہرا یا ہے ہم نے اس کے واسطے دوزخ
ج داخل ہو گا

اس میں اپنی برائی سن کر دھکیلا جاکر۔

اور جس نے چاہا پچھلا گھر اور دوڑ کی اس کے واسطے جو اس کو دوڑ ہے

اور وہ یقین پر ہے سو ایسوں کی دوڑ ٹھکانے لگی۔

سورۃالنسأ ٰ آیت نمبر 134

بسم اللہ الرحمن الرحیم

جو کوئی چاہتا ہے ثواب دنیا کا سو اللہ کے یہاں ہے ثواب دنیا و آخرت

کا اور اللہ سب کچھ سنتا دیکھتا ہے۔


بھائیو اور بہنومندرجہ بالا آیات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جو کوئی دنیا چاہے گا اسے دنیا ہی مل جائیگی اہو آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں۔

بھائیو اور بہنوجو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے بظاہر نیک کام کئے ہیں اس لئے ان کو آخرت میں بھی اجر ملے گا تو ایسے لوگوں سے متعلق بھی قرآن پاک میں آیات کا نزول ہے

سورۃ النور آیت نمبر 39 – 40

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اور جو لوگ منکر ہیں ان کے کام جیسے ریت جنگل میں پیاسا جانے اس کو پانی ط

یہاں تک کہ جب پہنچا اس پر کچھ نہ پایا اور اللہ کو پایا اپنے پاس

پھر اس کو پورا پہنچا دیا اس کا لکھا اور اللہ جلد لینے والا ہے حساب۔

یا جیسے اندھیرے گہرے پانی میں چڑھی آتی ہے اس پر لہر اس پر ایک اور لہر

اس کے اوپر بادل اندھیرے ہیں ایک پر ایک ط

جب نکالے اپنا ہاتھ لگتا نہیں کہ وہ اس کو وہ سوجھے ط

اور جس کو اللہ نے نہ دی روشنی اس کے واسطے کہیں نہیں روشنی۔

 

بھائیو اور بہنومندرجہ بالا آیات کے مفہوم کا لب لباب اخذ کیا جا سکتا ہے کہ جب تک اللہ تعالٰی کی ہدایات کی خلوص دل سے پیروی نہیں ہوگی اس وقت تک دعاؤں کی قبولیت نہیں ہوگی اور اگر دعاؤں کی قبولیت نہیں ہوگی تو سراسر ہی نقصان ہے۔

 


بھائیو اور بہنوسوال پیدا ہوتا ہے کہ جو لوگ گمراہی کی طرف مائل ہو جاتے ہیں تو اللہ تعالٰی کی طرف سے براہ راست روک تھام کیوں نہیں ہوتی جب کہ اللہ تعالٰی ہو شئے پر قادر ہیں۔

 

 


بھائیو اور بہنواس کا
جواب بھی قرآن پاک میں موجود ہے

ترجمہ سورۃ انسأآیت نمبر 116 – 114

بسم اللہ الرحمن الرحیم

کچھ اچھے نہیں ان کے مشورے مگر جو کوئی کہ کہے صدقہ کرنے کو

یا نیک کام کو یا صلح کرانے کو لوگوں میں ط

اور جو کوئی یہ کام کرے اللہ کی خوشی کے لئے تو ہم اس کو دیں گے بڑا ثواب۔

اور جو کوئی
مخالفت کرے رسول کی جب کہ کھل چکی اس پر سیدھی راہ

اور چلے سب مسلمانوں کے رستہ کے خلاف

تو ہم حوالہ کر دیں گے اس کو وہی طرف جو اس نے اختیار کی اور ڈالیں گے

ہم اس کو دوزخ میں اور وہ بہت بری جگہ پہنچا۔

بے شک اللہ نہیں بخشتا اس کو جو اس کا شریک کرے کسی کو اور بخشتا ہے

اس کے سوا جس کو چاہے ط

اور جس نے شریک ٹہرایا اللہ کا وہ بہک کر دور جا پڑا۔


بھائیو اور بہنومولانا شبیر احمد عثمانی رحمتہ اللہ علیہ آیت نمبر 116 کے ضمن میں رقمطراز ہیں

فائدہ

اس سے معلوم ہوا کہ شرک یہی نہیں کہ اللہ کے سوا کسی کی پرستش کی جائے

بلکہ اللہ کے حکم کے مقابلہ میں کسی کے حکم کو پسند کرنا یہ بھی شرک ہے۔

 

بھائیو اور بہنوقرآن و حدیث کی روشنی میں آیت نمبر 115کے مفہوم سے اخذ کیا جا سکتا ہے کہ لوگوں کو گمراہی کے راستے پر چلنے دیا جائے گا اور انہیں مواقع بھی فراہم کئے جائیں گے کہ وہ اپنے گناہوں پر نادم ہوں اور اللہ کی طرف رجوع کریں اور توبہ و استغفار کریں۔

بھائیو اور بہنومندرجہ بالا گزارشات سے اخذ کیا جا سکتا ہے کہ آج امت مسلمہ کی دعائیں کیوں قبول نہیں ہوتیں، وہ اس وجہ سے کہ ہم دعاؤں کو قبول کروانے کی عملی کوششیں ہی نہیں کرتے اور صرف زبانی طور پر اللہ تعالٰی کے حضور گزارشات کرتے رہتے ہیں۔

 


اللہ تعالٰی سے پرخلوص عاجزانہ دعا ہے کہ امت مسلمہ کو صحیح طور پر دین اسلام کی روح

کو پہچاننے کی، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

دعاؤں میں یاد رکھیں

والسّلام

نصیر عزیز

پرنسپل امن کی پکار

امت مسلمہ کے بے توجہی تجربات اور مشاہدات کی نظر میں

 

بھائیو اور بہنوحضور اکرم صل اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیأ ہیں۔ آپ صل اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارک میں اور آپ صل اللہ علیہ وسلم کے اس دنیا سے پردہ فرما جانے کے بعد دین اسلام کی کے تعارف، احیأ اور فروغ کی ذمہ داری امت مسلمہ کے سپرد کر دی گئی جس کا ذکر قرآن پاک میں ہے

ترجمہ سورۃآل عمرانٰ آیت نمبر110

بسم اللہ الرحمن الرحیم

تم ہو بہتر سب امتوں سے جو بھیجی گئی عالم میں حکم کرتے ہو اچھے کاموں

کا اور منع کرتے ہو برے کاموں سے اور ایمان لاتے ہو اللہ پر ط

اور اگر ایمان لاتے اہل کتاب تو ان کے لئے بہتر تھا ط

کچھ تو ان میں سے ہیں ایمان پر اور اکڑر ان میں نافرمان ہیں۔


بھائیو اور بہنواللہ تعالٰی نے اپنا فضل و کرم کیا اور سال 1982 سے زندگی کا رخ اللہ کے سیدھے راستے کی تلاش کی طرف پھیر دیا۔

 

بھائیو اور بہنورفتہ رفتہ قرآن و حدیث، تاریخ کے مطالعہ اور واقعات اور مشاہدات نے ذہن کو اس طرف متوجہ کر دیا کہ دین اسلام کے تعارف، احیأ اور فروغ میں حصہ لینا ضروری ہے۔ اللہ تعالٰی نے اپنے فضل و کرم سے موقعہ فراہم کر دیا کہ اللہ کا پیغام دنیا کے کونے کونے میں پہنچا دیا جائے۔ اس کوشش میں تین کتابیں انگریزی زبان میں لکھی جا چکی تھیں

 

  • As Salat: Why as Salat is Part of Mankind’s Life?
  • The Incident on 11 September 2001: Terror of a Catastrophe?
  • Public Authorities: Servants Or Masters?

 

بھائیو اور بہنوکتاب

As Salat: Why as Salat is Part of Mankind’s Life?

میں نماز کی اہمیت کو اجاگر کیا۔

 

بھائیو اور بہنو کتاب

The Incident on 11 September 2001: Terror of a Catastrophe?

میں اس پہلو کو اجاگر کرنے کی کوشش کی کہ اللہ کے عذاب لوگوں کے اعمال کی وجہ سے آتے ہیں خواہ وہ

قدرتی ہوں یا

Man Made

 

بھائیو اور بہنوکتاب

Public Authorities: Servants Or Masters?

میں حقوق العباد کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

 

 

بھائیو اور بہنوچونکہ کتابوں کے لکھنے میں وقت صرف ہوتا ہے اس لئے معاش کے لئے وقت نہیں ملتا اور عالباً اللہ تعالٰی کو یہی منظور تھا کہ کام نہ ملے۔

 

بھائیو اور بہنوذہن میں تھا کہ کتب چھپنے کے بعد ان کی فروخت ہو گی تو قرض ادا ہو سکیں گے اور زندگی کی ذمہ داریاں پوری ہو سکیں گی۔

 

بھائیو اور بہنوکتابوں کی چھپائی کے لئے مال کی ضرورت تھی تو میں نے دوست احباب اور رشتہ داروں کی طرف رجوع کیا۔ ان لوگوں سے گزارشات کیں کہ دین اسلام کی اشاعت کے لئے کتب لکھنے کی توفیق مل رہی ہے اس لئے کچھ عرصہ کے لئے قرض حسنہ درکار ہے۔

 

بھائیو اور بہنوامید تھی کہ وہ لوگ نیک کام کرنے کی کوشش کو سراہیں گے اور بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے لیکن توقع کے خلاف ان میں سے اکثر نے یا تو قرض دینے سے قطعاً انکار کر دیا یا پھر حیلے بہانے سے معذرت کی۔

 

بھائیو اور بہنوقرض حسنہ کے سلسلہ میں علماء حضرات سے درخواست کی کہ چونکہ ان کے تعلقات آسودہ حال لوگوں سے ہوتے ہیں جو کہ مساجد اور دارلعلوم کے اخراجات میں تعاون کرتے ہیں، ان سے تعارف کروا دیں۔ لیکن ان کی طرف سے بھی خاطر خواہ جواب نہیں ملا۔

 

بھائیو اور بہنواکاؤٹینسی کے کام کی تلاش بھی کی لیکن چونکہ لوگ اپنی مرضی کے مطابق اکاؤنٹس تیار کروانا چاہتے تھے اس لئے کام کے حصول میں بھی کامیابی نہیں ہوئی۔

 

بھائیو اور بہنوتحریر کا کام شروع کرنے سے پیشتر دو کام کئے تھے۔ لیکن جب فیس کا بل بھیجا تو انہوں نے فیس دینے سے صاف انکار کر دیا جس کی وجہ سے عدالت میں مقدمہ دائر کرنا پڑا۔

 

بھائیو اور بہنوایک مقدمہ جیت گیا لیکن مدعا علیہ نے عدالت کے ذریعے یہ فیصلے لے لیا کہ وہ £16 ماہوار سے فیس کی ادائیگی کرے گا۔

بھائیو اور بہنودوسرے مقدمے میں مدعا علیہ نے جعلی دستاویز کا سہارا لیا اور قرآن پاک پر حلف اٹھانے کے بعد جھوٹ بولا جس کی وجہ سے مقدمہ کا فیصلہ اس کے حق میں ہو گیا۔

 

بھائیو اور بہنونتیجتاً نہ چاہتے ہوئے بھی بنک کی طرف رجوع کرنا پڑا جس کی وجہ سے ڈیڑھ لاکھ پاؤنڈ کا مقروض ہو چکا ہوں۔

 

بھائیو اور بہنوالحمد للہ!جن لوگوں نے اپنی بساط کے مطابق قرض حسنہ دیااللہ تعالٰی نے ان کو اپنی رحمتوں سے نوازا۔ لیکن جن لوگوں نے بغیر وجہ کے انکار کر دیا تھا وہ مشکلات میں گھر گئے۔

والسلام

.

Leave a Comment