حصہ دوم

:

        کھوپڑی میں دماغ کانوں کے ذریعے سننے، سوچنے سمجھنے کا کام کرتا ہے،

        دل جسم کا وہ حصہ ہے جس سے پورے جسم میں خون کی گردش ہوتی رہتی ہے،

        رگیں تمام جسم میں پھیلی ہوئی ہیں جن کے اندر سے خون دوڑتا رہتا ہے،

        پھیپھڑے ناک کے ذریعے آکسیجن لیتے ہیں اور منہ کے ذریعے سے کاربن ڈائی آکسائڈ خارج کرتے ہیں،

        پیٹ کھانے اور پانی کو سٹور کرتا ہے اور پھر کھانا چھوٹی آنت میں چلا جاتا ہے،

        چھوٹی آنت میں خوراک کو تیزاب توڑتا ہے،

        جگر تیزاب پیدا کرتا ہے اور جیسے ہی خوراک چھوٹی آنت میں پہنچتی ہے تو پتہ کے ذریعے تیزاب چھوٹی آنت میں پہنچ جاتا ہے،

        جب خوراک ٹوٹ جاتی ہے تو وہ بڑی آنت میں چلی جاتی ہے جہاں خوراک کو ہضم کرنے کا اور خون کے بننے کا عمل شروع ہو جاتا ہے،

        جب خوراک ہضم ہو جاتی ہے تو مقعد کے ذریعے فضلہ خارج ہو جاتا ہے،

        گردے پانی کو فلٹر کرتے ہیں،

         اگلی شرم گاہ سے گندہ پانی خارج ہو جاتا ہے،

        ہڈیوں کے اندر گودا بنتا رہتا ہے جو ہڈیوں میں قوت کا باعث ہوتا ہے،

        جسم کے مختلف حصوں میں جوڑ جسم کو حرکت کرنے، مثلاً۔ اٹھنے بیٹھنے، چلنے پھرنے، بھاگنے، انگڑائی لینے، کام کرنے میں مدد کرتے ہیں،

        جسم کے جوڑوں میں لیکوئڈ پیدا ہوتا ہے جو ہڈیوں کو گھسنے سے بچاتا ہے،

        دانت جو خوراک کو چبانے کا کام کرتے ہیں،

        لعاب جو منہ کے اندرونی حصہ کو خشک نہیں ہونے دیتا،

        زبان جو ذائقہ چکھتی ہے، الٹ پلٹ کر حلق سے نکلی ہوئی آواز کو الفاظ میں تبدیل کرتی ہے،

        حلق کے قریب وائس بوکس ہوتا ہے جہاں سے آواز نکلتی ہے،

        وغیرہ۔

محترمہ بھابی صاحبہ !مندرجہ بالا جسم کے مختصر اندرونی اعضا ہیں۔ اگر کوئی بھی عضو کسی کمی کا شکار ہو جائے توطبیب کی طرف رجوح کرنا پڑتا ہے اور اس کمی کو دور کرنے کے لئے لاکھوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں خواہ قرض لینا پڑے، جائداد فروخت کرنی پڑے، انسان دیوالیہ ہو جائے۔

محترمہ بھابی صاحبہ! مختصر یہ کہ انسان کے اندرونی اور بیرونی اعضأ اللہ تعالٰی کی نعمتیں ہیں جن کا انسان کو احساس نہیں ہوتا ہے۔ احساس کے نہ ہونے سے اللہ تعالٰی کی عظمت و بڑائی آشکارا نہیں ہوتی جس کی وجہ سے اللہ کی ہدایت کے مطابق زندگی گزارنے میں مشکل پیش آتی ہے۔ یعنی اللہ تعالٰی کی جو نعمتیں ہیں ان کو

Taken for Granted

لیا جاتا ہے جیسے یہ انسان کا اللہ تعالٰی پر حق ہے اور

اس کے لئے اسے اللہ کا شکر گزار ہونے کی حاجت نہیں ہے۔

محترمہ بھابی صاحبہ !آئیے اب اللہ تعالٰی کی ان نعمتوں کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں جو ہر لحظہ انسان پر برستی رہتی ہیں لیکن انسان کو اس کا احساس نہیں ہوتا۔

توازن

محترمہ بھابی صاحبہ اللہ تعالٰی نے اپنے فضل و کرم سے انسان کو ایک ہی قسم کے دو یا دو سے زیادہ عضو دئیے ہیں، مثلاً:

        دو بازو

        دو ہاتھ

        دو ٹانگیں،

        دو پاؤں

        دو پھپھڑے

        دو گردے

        دو آنکھیں

        ہرہاتھ اور ہرپاؤں میں چار انگلیاں اور ایک انگوٹھا،

        وغیرہ۔

محترمہ بھابی صاحبہ !چونکہ انسان کے جسم کے اندرونی اور بیرونی اعضا میں دو کی تعداد ہے اس لثے اسن کے جسم کی دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔

        دائیں طرف

        بائیں طرف

محترمہ بھابی صاحبہ گہری نظر سے دیکھا جائے تو نظر آئے کا کہ دونوں ٹانگوں، دونوں بازوؤں کی لمبائی کا ایک ہی سائز ہے۔ اگر ایک ملی میٹر کا بھی فرق ہو گا تو توازن برقرار نہیں رہ سکتا۔ مثلاً:

        آپ ایک پاؤں میں جوتا پہنیں اور ایک پاؤں میں جوتا نہ پہنیں اور چلنا شروع کریں تو آپ کا توازن نہ ہونے کی وجہ سے چلنے میں تکلیف ہوگی، پوری رفتار سے بھاگ نہیں سکیں گی،

        اگر آپ کے دائیں پاؤں کا سائز آٹھ ہو اور بائیں پاؤں کا سائز سات ہو تو کیا توازن برقرار رہ سکتا ہے؟

محترمہ بھابی صاحبہ !اللہ تعالٰی کی جسم کے چند قسم کے اعضأ کی تعداد دو رکھنے میں یہ حکمت نظر آتی ہے کہ اگر جسم کا ایک عضو ضائع ہو جائے تو صرف ایک عضو سے بھی انسان اللہ کا فضل تلاش کر سکتا ہے۔ جسم کے اندرونی اعضأ میں ایک عضو ہے کہ اگر وہ ضائع ہو جائے اور جسم کے باقی تمام اعضأ صحت مند ہوں تو انسان زندہ نہیں رہ سکتا۔

وہ عضو ہے دل

محترمہ بھابی صاحبہ !دل انسان کے جسم کا مرکزی عضو ہے جس کے ذریعے پورے جسم میں خون کی گردش ہوتی ہے۔ جب خون اعضأ کو نہیں پہنچتا تو آکسیجن بھی نہیں پہنچتی تو اعضأ کی موت واقع ہو جاتی ہے۔

محترمہ بھابی صاحبہ !مختصر یہ کہ اگر انسان اپنے جسم کے ہر عضو کا جائزہ لیتا رہے تو نظر آئے گا کہ جسم کا ہر عضو اللہ کی کتنی بڑی نعمت ہے جس کا انسان کو احساس نہیں ہے۔

کائنات کی ہر مخلوق انسان کے لئے اللہ کی نعمت ہے

محترمہ بھابی صاحبہ !علمائے کرام فرماتے ہیں کہ کائنات پہلے آسمان اور زمین کی تہوں تلک ہے۔ آسمان سے پانی برستا ہے اور زمین سے پیداوار پیدا ہوتی ہے۔ زمین اور آسمان کے درمیان جتنی بھی مخلوقات ہیں، مثلاً :سورج، چاند ستارے، سیارے، کہکشائیں، ہوائیں، وغیرہ وغیرہ سب سے اللہ کے حکم سے اثرات جنم لیتے رہتے ہیں جو زمین اور آسمان کے درمیان جو فضا ہے اس میں شامل ہوتے رہتے ہیں۔

پیداوار

محترمہ بھابی صاحبہ !آسمان سے پانی برستا ہے تو ان تمام مخلوقات کے اثرات پانی میں شامل ہو جاتے ہیں جس سے زمین سیراب ہوتی رہتی ہے اور پیداوار پیدا ہوتی رہتی ہے۔ اگر کسی بھی مخلوق کے اثرات پانی میں شامل نہیں ہوں گے تو پیداوار کی جزیات پیداوار کے مرکزی نقطہ تلک نہیں پہنچ سکتیں۔ مثلاً: اللہ تعالٰی کے حکم سے سورج نکلتا ہے تو دن کا ظہور ہوتا ہے اور سورج کی گرم شعائیں بیج کو پکانا شروع کرتی ہیں۔ سورج غروب ہو جاتا ہے تو رات کا ظہور ہوتا ہے اور درجہ حرارت کم ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالٰی کے دستور کے مطابق بیج کو پکنے کے بعد بہت کم درجہ حرارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر سورج غروب نہ ہو تو بیج سورج کی گرم شعاؤں سے جل جائے گا اور کوئی پیداوار نہیں ہوگی۔ اور اگر سورج غروب ہی رہے تو بیج پک ہی نہیں سکے گا اور پیداوار نہیں ہوگی۔ مثلاً: نارتھ اور ساؤتھ پول میں کوئی پیداوار نہیں ہوتی۔

محترمہ بھابی صاحبہ !اب انسان اندازہ لگا سکتا ہے کہ میز پر جو مختلف قسم کے پکے پکائے کھانے آجاتے ہیں ان میں کتنی اللہ تعالٰی کی نعمتوں کے اثرات شامل ہوتے ہیں۔ علمائے کرام فرماتے ہیں کہ آج کے دور میں بنی نوع انسان کی اکثریت کھاتی اور پیتی ہے وہ من و سلوٰی ہے جیسے حضرت موسٰی علیہ السّلام کی قوم کے لئے آسمان سے، اللہ کے فضل و کرم سے، پکے پکائے کھانے نازل ہوتے تھے۔

محترمہ بھابی صاحبہ !کیا انسان اللہ کی ان نعمتوں کی قدر کرتا ہے؟

محترمہ بھابی صاحبہ !گھر کی عورت جب اہل و عیال کے لئے گھر گرہستی کے کام کرتا ہے، کھانا پکاتی ہے، روٹیاں پکاتی ہے تو کیا اہل و عیال اس کی قدر کرتے ہیں؟ بلکہ اگر کسی کے مزاج کے مطابق نہیں تو تنقید کرتے ہیں۔

پانی

محترمہ بھابی صاحبہ! پانی اللہ تعالٰی کی خاص الخاص نعمت ہے جس کی ہر مخلوق کو ضرورت ہوتی ہے۔ حتٰی کہ پتھروں کو بھی صحت مند رہنے کے لئے پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر بارش نہ ہو تو سورج کی گرمی سے پتھر خشک ہو نا شروع ہو جائیں گے اور ان میں توڑ پھوڑ شروع ہو جائے گی۔

محترمہ بھابی صاحبہ! چند مثالیں پیش خدمت ہیں کہ جب انسان پانی کو استعمال کرتا ہے تو کیا وہ اللہ تعالٰی کا شکر گزار ہوتا ہے؟

        جیسے ہی اس نے وضو کرنے کے لئے، غسل کرنے کے لئے وغیرہ پانی کے نل کو کھولا اور پانی آنا شروع ہو گیا تو کیا اس نے اللہ کا شکر ادا کیا؟

        انسان نے وضو کیا، غسل کیا اور تروتازہ ہو گیا تو کیا اس نے اللہ کا شکر ادا کیا؟

        انسان کو پیاس لگی، فرج میں ٹھنڈے پانی کی بوتل نکالی، پانی پیا اور پیاس بجھ گئی تو کیا اس نے اللہ کا شکر ادا کیا؟

        گھر کی عورت نے کھانا پکانے، آٹا گوندھنے، برتن دھونے، سبزی دھونے وغیرہ کے لئے پانی کا نل کھولا اور پانی نکل آیا تو کیا اس نے اللہ کا شکر ادا کیا؟

        مختصر یہ کہ انسان ہر روز دن و رات میں کئی مرتبہ پانی کا استعمال کرتا ہے تو کیا وہ ہر مرتبہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے؟

        وغیرہ۔

چلنا، پھرنا، بھاگنا، سیڑھیاں چڑھنا اور اترنا

محترمہ بھابی صاحبہ! گو کہ جب انسان سوتا ہے تو نیند میں بھی کروٹیں بدلتا ہے۔ لیکن جب وہ جاگتا رہتا ہے تو اس کا جسم حرکت میں رہتا ہے۔ مثلاً:

        ایک منزل سے دوسری منزل تلک پیدل چل کر جاتا ہے تو کیا وہ سوچ سمجھ کر ہر قدم اٹھاتا ہے؟

        جب وہ کھیلتا ہے اور بھا گتا ہے تو کیا وہ سوچ سمجھ کر ہر قدم اٹھتا ہے؟

        جب وہ سیڑھیاں چڑھتا اور اترتا ہے تو کیا وہ سوچ سمجھ کرہر سیڑھی پر قدم رکھتا ہے اور اٹھاتا ہے؟

        جب وہ کرسی پر بیٹھتا ہے یا بستر پر لیٹتا ہے تو کیا وہ بیٹھنے یا لیٹنے سے پیشتر ہر زوائیے سے جائزہ لیتا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ توازن برقرار نہ رہ سکے اور وہ گر جائے؟

        وغیرہ۔

محترمہ بھابی صاحبہ !اگر انسان ایمانداری اور دیانتداری سے جائزہ لے تو اس کو نظر آئے گا کہ ایسا نہیں ہوتا۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو کیا وہ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتا ہے؟

احساس کی نعمت

محترمہ بھابی صاحبہ !یہ قدرتی امر ہے کہ انسان کے جسم کے اندرونی اور بیرونی اعضأ ہر لحظہ نقل و حرکت کرتے رہتے ہیں جس کا انسان کو شعوری او ر لا شعوری طور پر احساس ہوتا رہتا ہے یا وہ محسوس کرتا ہے کہ جسم کے اعضأکا کیا مطالبہ ہے۔ مثلاً

        جسم میں پانی کی کمی سے پیاس کا احساس ہوتا ہے،

        پیٹ خالی ہو تو بھوک کا احساس ہوتا ہے،

        بلیڈر بھر گیا ہو تو پیشاب کرنے کا احساس ہوتا ہے،

        بڑی آنت بھر جائے تو رفع حاجت کرنے کا احساس ہوتا ہے،

        چوٹ لگ جائے تو درد کا احساس ہوتا ہے،

        خون میں کمی ہو جائے تو کمزروی کا احساس ہوتا ہے،

        وغیرہ۔

محترمہ بھابی صاحبہ !احساس کی یہ چند مثالیں ہیں۔ انسان اگر احساس کی نعمت پر غور کرتا رہے تو اس کو بے انتہا مثالیں مل جائیں گی۔ احساس ہونے کے بعد انسان اس کا علاج کرتا ہے۔ مثلاً:

        پیاس لگی ہے تو پانی پی لے گا۔ انشأاللہ !پیاس بجھ جائے گی۔ اگر پانی نہیں پیئے گا تو جسم پانی کی کمی کی وجہ سے ڈی ہائڈریشن کا شکار ہو جائے گا۔

        بھوک کا احساس ہو گا تو کھانا کھا لے گا اور بھوک مٹ جائے گی۔

        جب پیشاب کرنے کا احساس ہو گا تو اللہ تعالٰی نے اپنے فضل و کرم سے کچھ دیر کے لئے روکنے کی قدرت بھی دی ہے جو ایک نعمت ہونے کے مترادف ہے۔ لیکن اگر وہ جلد ہی بلیڈر کو خالی نہیں کرتا تو پھر بلیڈر میں پانی ابل پڑے گا اور خارج ہونا شروع ہو جائے گا جس سے کپڑے گیلے اور ناپاک ہو جائیں گے اور بھری محفل میں رسوا ہو جائے گا۔

        جب رفع حاجت کا احساس ہو تو اللہ تعالٰی نے انسان کو کچھ دیر کے لئے روکنے کی قدرت دی ہے۔ لیکن اگر وہ جلد ہی رفع حاجت نہیں کرتا تو مقعد کا دہانہ کھل جائے گا۔

        چوٹ لگنے کا احساس ہے تو فوری طور پر طبیب کی طرف رجوع کرے وگرنہ انفیکشن پیدا ہو سکتا ہے۔

        خون میں کمی ہو تو فوراً طبیب کی طرف رجوع کرے وگرنہ روحانی اور جسمانی کمزروی بڑھتی جائے گی۔

محترمہ بھابی صاحبہ !مختصر یہ کہ انسان کو جب بھی اللہ تعالٰی کی مندرجہ بالا احساس کی نعمتیں حاصل ہوتی ہیں تو کیا وہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے؟

اللہ تعالٰی کی رحمتیں اور برکتیں

محترمہ بھابی صاحبہ !علمائے کرام فرماتے ہیں کہ جب انسان اللہ تعالٰی کی نعمتوں کا شکر ادا کرتا ہے تو اس پر اللہ کی رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوتا رہتا ہے۔ اللہ کی رحمتوں اور برکتوں کا محاصل یہ ہے، اللہ کے فضل و کرم سے، انسان کے دل میں سکینت اترتی رہتی ہے اور دماغ پر سکون رہتا ہے۔اللہ تعالٰی اپنے فضل و کرم سے اپنے کلام کے شروع میں ہی اللہ کی رحمتوں اور برکتوں کا ذکر فرماتے ہیں:

ترجمہ سورۃ البقرۃ آیت نمبر 3

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الذین یؤمنون با لغیب و یقیمو ن الصلٰوۃ و مما رزقنٰھم ینفقون۔

جو کہ یقین کرتے ہیں بے دیکھی چیزوں کا اور قائم رکھتے ہیں نماز کو اور

جو ہم نے روز ی دی ہے ان کو اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔

                                                        محترمہ بھابی صاحبہ !علمائے کرام اس آیت کی تفسیر فرماتے ہیں کہ اللہ کی رحمتوں اور برکتوں کا نزول اللہ تعالٰی کی ذات یکتا پر ایمان لانے کے ساتھ حقوق اللہ اور حقرق العباد کو آخری دم تلک ادا کرتے رہنا ہے۔ نماز قائم کرنے سے مراد حقوق اللہ کا ادا کرنا ہے اور روزی کو خرچ کرنے سے مراد حقوق العباد ادا کرنا ہے۔ مثلاً : اہل و عیال کے نان نفقہ اور پرورش اور تعلیم و تربیت کرنے کے لئے خرچ کرنا۔

محترمہ بھابی صاحبہ !علمائے کرام فرماتے ہیں کہ حقیقت میں تمام بنی نوع نسان گھر کے سربراہ کے اہل و عیال ہوتے ہیں۔ مثلاً: ریاست کے سربراہ کی ذمہ داری ہے کہ اس کی ریاست کا کوئی جاندار بھی بھوکا نہ رہے۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ فرمایا کرتے تھے جس کا مفہوم ہے کہ:

اگر دریائے فرات کے کنارے پر اگر ایک کتا بھی بھوک کی

وجہ سے مر گیا تو عمر کا روز محشر میں حساب ہوگا۔


محترمہ بھابی صاحبہ! اللہ تعالٰی نے اپنے کلام میں بار باربنی نوع انسان کو اپنے کلام میں اہل و عیال، رشتداروں، محتاجوں، مسکینوں، یتیموں وغیرہ کی سرپرستی کرتے رہنے کی تاکید کی ہے:

سورۃ البقرۃ آیت نمبر 83

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اور جب ہم نے قرار لیا بنی اسرائیل سے کہ عبادت نہ کرنا مگر اللہ کی قف اور ماں باپ سے سلوک نیک کرنا اور کنبہ والوں سے اور یتیموں اور محتاجوں سے اور کہیو سب لوگوں سے نیک بات اور قائم رکھیو نماز اور دیتے رہیو زکواۃ ط پھر تم پھر گئے مگر تھوڑے سے تم میں اور تم ہو ہی پھرنے والے۔

ترجمہ سورۃالبقرۃآیت نمبر 273

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سرپرستی ان بندوں کے لئے جو رکے ہوئے ہیں اللہ کی راہ میں چل پھر نہیں سکتے ملک میں ز سمجھے ان کو ناواقف مالدار ان کے سوال نہ کرنے سے ج تو پہچانتا ہے ان کو ان کے چہرہ سے ج نہیں سوال کرتے لوگوں سے لپٹ کر ط اور جو کچھ خرچ کرو گے کام کی چیز وہ بیشک اللہ کو معلوم ہے۔

ترجمہ سورۃ البقرۃ آیت نمبر 254

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اے ایمان والو! خرچ کرو اس میں سے جو ہم نے تم کو روزی دی پہلے اس دن کے آنے سے کہ جس میں نہ خرید و فروخت ہے اور نہ آشنائی اور نہ سفارش ط اور جو کافر ہیں وہی ہیں ظالم۔

ترجمہ سورۃسباآیت نمبر 39

بسم اللہ الرحمن الرحیم

تو کہہ میرا رب ہے جو کشادہ کر دیتا ہے روزی جس کو چاہے اپنے بندوں میں اور ماپ کر دیتا ہے ط اور جو خرچ کرتے ہوں کچھ چیز وہ اس کا عوض دیتا ہے ج اور وہ بہتر ہے روزی دینے والا۔

ترجمہ سورۃ النسأ آیت نمبر36

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اور بندگی کرو اللہ کی اور شریک نہ کرو اس کا کسی کو اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو اور قرابت والوں کے ساتھ اور یتیموں اور فقیروں اور ہمسایہ قریب اور ہمسایہ اجنبی اور پاس بیٹھنے والے اور مسافر کے ساتھ لا اور اپنے ہاتھ کے مال یعنی غلام باندیوں کے ساتھ ط بیشک اللہ کو پسند نہیں آتا اترانے والا بڑائی کرنے والا۔

ترجمہ سورۃ الحدیدآیت نمبر 7

بسم اللہ الرحمن الرحیم

یقین لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر اور خرچ کرو اس میں سے جو تمہارے ہاتھ میں دیا ہے اپنا نائب کر کر ط سو جو تم میں یقین لائے اور خرچ کرتے ہیں ان کو بڑا ثواب ہے۔

ترجمہ سورۃ الحدیدآیت نمبر 18

بسم اللہ الرحمن الرحیم

تحقیق جو لوگ خیرات کرنے والے ہیں، مرد اور عورتیں اور قرض دیتے ہیں اللہ کو اچھی طرح ان کو ملتا ہے دونا اور ان کو ثواب ہے عزت کا۔

ترجمہ سورۃ فاطر آیت نمبر 30 – 29

بسم اللہ الرحمن الرحیم

جو لوگ پڑھتے ہیں کتاب اللہ اور سیدھی کرتے ہیں نماز اور خرچ کرتے ہیں کچھ ہمارا دیا ہوا چھے اور کھلے امیدوار ہیں ایک بیوپار کے جس میں ٹوٹا نہ ہو۔لا تاکہ پورا دے ان کو ثواب اور زیادہ دے اپنے فضل سے ط تحقیق وہ ہے بخشنے والا قدردان۔

ترجمہ سورۃ النحل آیت نمبر 90

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ حکم کرتا ہے انصاف کرنے کا اور بھلائی کرنے کا اور قرابت والوں کے دینے کا اور منع کرتا ہے بے حیائی سے اور نا معقول کام سے اور سرکشی سے ج تم کو سمجھاتا ہے تاکہ تم یاد رکھو۔

محترمہ بھابی صاحبہ !اگر انسان مندرجہ بالا آیات کا غورو خوض سے مطالعہ کرتا رہے تو اس کو نظر آئے کہ اللہ تعالٰی نے ہر انسان کو ہدایت دی ہے کہ وہ نماز یعنی حقوق اللہ ادا کرتا رہے اور تمام بنی نوع انسان یعنی ماں باپ، رشتہ دار، یتیم، مسکین، محتاج، مسافر، کی سرپرستی کرتا رہے۔

محترمہ بھابی صاحبہ !اللہ تعالٰی نے اپنے فضل و کرم سے، سفید پوشوں کی سرپرستی کرنے کے لئے ایک پوری آیت نازل فرمائی ہے۔ سفید پوش وہ لوگ ہوتے ہیں جونیک اور پارسا ہوتے ہیں لیکن تنگ دست ہوتے ہیں اور کسی سے سوال نہیں کرتے۔ ان میں وہ اللہ کے بندے بھی شامل ہیں جن کی زندگی اللہ کا پیغام بین الاقوامی سطح تک پہنچانے کے لئے زندگی وقف ہو جاتی ہے اور ان کو کوئی آمدنی کا ذریعہ نہیں ہوتا۔ مثلاً :خاتم الانبیأ محمد ابن عبداللہ صل اللہ علیہ وسلم نے نبوت ملنے کے بعد کاروبار کرنا چھوڑ دیا تھا۔ آپ صل اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے اپنا تمام مال آپ صل اللہ علیہ وسلم کے سپرد کر دیا تھا تاکہ دین اسلام کی اشاعت ہو سکے۔ اہل ثروت صحابہ اکرام اور دیگر مسلمان آپ صل اللہ علیہ وسلم کو ہدایہ پیش کرتے تھے۔

ترجمہ سورۃالبقرۃآیت نمبر 273

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سرپرستی ان بندوں کے لئے جو رکے ہوئے ہیں اللہ کی راہ میں چل پھر نہیں سکتے ملک میں ز سمجھے ان کو ناواقف مالدار ان کے سوال نہ کرنے سے ج تو پہچانتا ہے ان کو ان کے چہرہ سے ج نہیں سوال کرتے لوگوں سے لپٹ کر ط اور جو کچھ خرچ کرو گے کام کی چیز وہ بیشک اللہ کو معلوم ہے۔

مہمان نوازی


محترمہ بھابی صاحبہ !عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ گھر میں جو دوست احباب اور رشتہ دار ملاقات، عیادت اور تیمار داری کے لئے آتے ہیں وہ اہل خانہ کے مہمان ہوتے ہیں۔ ان کے لئے گھر میں رہنے، کھانے پینے، اور دیگر ضروریات زندگی پورا کرنے کا انتظام یعنی مہماں نوازی، اہل خانہ کی اخلاقی ذمہ داری ہوتی ہے۔


محترمہ بھابی صاحبہ !شرعیت کی رو سے مہماں نوازی کی مدت تین دن ہوتی ہے۔ یعنی مہمان نوازی ایک گھنٹہ کی بھی ہو سکتی ہے یا تین دن کی بھی ہو سکتی ہے۔ تاہم! اگر اہل خانہ کے حالات اجازت دیں تو مہماں نوازی تین دن سے زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔

محترمہ بھابی صاحبہ!مہماں نوازی اللہ تعالٰی کی رحمتوں اور برکتوں کا منبع بھی ہے۔ اس ضمن میں ایک واقعہ پیش خدمت ہے:

الحمد للہ ایک صحابی بہت مہماں نواز تھے اور روزانہ تنگدست بندوں کو تلاش کر کے گھر میں لے آتے تھے اوراہلیہ کو کھانا پکانے کے لئے کہتے تھے تاکہ مہماں نوازی کی جائے۔

الحمد للہ اہلیہ خوشدلی سے کھانا پکاتی تھی۔

شیطان نے صحابی کی اہلیہ کے دل میں وسوسہ پیدا کیا کہ تمہارا شوہر روزانہ مہمان لے آتا ہے اور تم تھک جاتی ہو۔ جاؤ آپ صل اللہ علیہ وسلم سے شکایت کرو۔

اہلیہ شیطان کے چکمے میں آ گئی۔ وہ آپ صل اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اپنے شوہر کی شکایت کی وہ روزانہ مہمان لے آتے ہیں اور میں کھانا پکاتے پکاتے تھک جاتی ہوں۔

آپ صل اللہ علیہ وسلم خاموش رہے اور صحابیہ سے کہا کہ اپنے شوہر کو میرے پاس بھیج دینا۔ صحابیہ خوش ہو گئی۔

صحابی شوہر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صل اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا کہ کل میں تمہارا مہمان ہوں گا۔ صحابی بہت خوش ہوا۔ اہلیہ کہ جا کر بتلایا کہ کل حضور صل اللہ علیہ وسلم ہمارے مہمان ہوں گے۔ اہلیہ بہت خوش ہوئی اور خوشدلی سے اس نے کھانا پکایا۔

حضور صل اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور کھانا تناول فرمایا۔ جب آپ صل اللہ علیہ وسلم جانے لگے تو شوہر کو ارشاد فرمایا کہ اپنی اہلیہ کو کہنا کہ مجھے واپس جاتے ہوئے میرے پیچھے دیکھے۔ شوہر نے اہلیہ سے کہہ دیا۔

صحابیہ نے دیکھا کہ آپ صل اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سانپ، کیڑے مکوڑے، اور موذی قسم کے جانور جا رہے ہیں۔

آپ صل اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو میزبان خوشدلی اور خلوص دل سے مہماں نوازی کرتا ہے تو اللہ تعالٰی کی رحمتیں اس طرح برستی ہیں کہ میزبان پر جو مصائب آنے والے ہوتے ہیں، اللہ تعالٰی اپنے فضل و کرم سے میزبان کو مامون فرما دیتے ہیں۔ اللہ تعالٰی کی برکتوں کا ظہور اس طرح ہوتا ہے کہ میزبان کے رزق میں برکت ہوتی رہتی ہے۔

صحابی نے جب اہلیہ کو مہمان نوازی کی رحمتوں کا ذکر کیا تو وہ سمجھ گئی کہ یہ شیطان نے اسے ورغلایا تھا۔


اس نے اللہ تعالٰی سے توبہ و استغفار کی اور شوہر سے معافی کی طلب گار ہوئی۔

اللہ تعالٰی کا بندوں کا مہمان ہونا

محترمہ بھابی صاحبہ !علمائے کرام فرماتے ہیں کہ اللہ تعالٰی بھی مسلمان اہل خانہ کے گھروں میں مہمان بن کر آتے ہیں۔ اس ضمن میں حدیث قدسی کا ایک ٹکڑا ہے

روز محشر میں اللہ تعالٰی اپنے ایک بندے کو بلائیں گے اور ارشاد فرمائیں گے جس کا مفہوم ہے

اے میرے بندے میں تمہارے پاس بھوکا آیا تھا اور تم سے کھانے کا سوال کیا تھا۔ لیکن تم نے مجھے دھتکار دیا۔

یا اللہ آپ تو اللہ ہیں۔ آپ کو کھانے کی حاجت کس طرح سے ہو سکتی ہے؟

اللہ تعالٰی ارشاد فرمائیں گے کہ میرا فلاں بندہ تمہارے گھر کے دروازہ پر آیا تھا اور میرے واسطے سے تم سے کھانے کا سوال کیا تھا لیکن تم نے اسے دھتکار دیا تھا۔

محترمہ بھابی صاحبہ !علمائے کرام فرماتے ہیں کہ جو اللہ تعالٰی کے واسطے سے کسی بندے سے سوال کرتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اللہ تعالٰی کا بھیجا ہوا ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اللہ تعالٰی اس کے مہمان ہوتے ہیں۔ بندے کو انکار کا مطلب اللہ کو انکار کرنا ہوتا ہے۔

محترمہ بھابی صاحبہ! علمائے کرام فرماتے ہیں کہ اس حدیث قدسی سے یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ہر اہل خانہ اللہ تعالٰی کو اس طرح سے مہمان بنا سکتا ہے کہ گھر کی عورت اللہ کے لئے جو پکایا ہے اس میں سے کھانا نکال کر اللہ کے لئے رکھ دے۔ یعنی ایسے بندے کو تلاش کرے جو تنگ دست ہو یا بیمار ہو، اور اسے بھیج دیا کرے یا دروازے پر کوئی سوالی آیا ہو تو اسے دے دیا کرے۔ علمائے کرام فرماتے ہیں کہ جس طرح کھانے کی تقسیم مہمان خصوصی سے شروع ہوتی ہے اسی طرح سے جو کھانا اللہ کے لئے یعنی اس کے بندے کے لئے نکالا جائے وہ اہل خانہ میں تقسیم سے پہلے نکالا جائے۔

Leave a Comment