علما کو پیغام

بسم اللہ الرحمن الرحیم


امن کی پکار

علمائے کرام کے لئے لمحہ فکر

تجدید ایمان اور تجدید نکاح

محترم علمائے کرام

السّلام علیکم

محترم !حدیث پاک کا مفہوم ہے

Anas ibn Malik reported: The Messenger of Allah, (SAW) said, “Seeking knowledge is an obligation upon every Muslim.”

Source: Sunan Ibn Ma’jah 224

ترجمہ

انس ابن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ صل اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس کا مفہوم ہے

کہ علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔

محترم !مختصر یہ کہ الحمدللہ پاکستان سے بی کام (آنرز) کرنے کے بعد انگلینڈ میں چارٹرڈ اکاؤٹینسی کی تعلیم حاصل کی۔ سال 1981 میں اللہ تعالٰی نے اپنا فضل و کرم کیا اور زندگی کا رخ سیدھے راستے کی تلاش کی طرف پھیر دیا، تبلیغی جماعت سے متعارف ہوا، علمائے کرام خصوصاً مفتی سعید احمد پالنپوری دامت برکاتہ کے بیانات سے مستفید ہوا اور قرآن پاک کی تفسیر اور احادیث کی شرح کے مطالعہ کا شوق جنم لیتا رہا اور علم کے حصول کا جذبہ جنم لیتا رہا۔

محترم! اکاؤٹینسی کے علم روح یہ ہے کہ کاروباری حساب کتاب کا عقابی آنکھ سے تجزیہ کیا جاتا رہے۔ جب اللہ تعالٰی نے اپنا فضل و کرم کیا اور دین اسلام کے علم کے حصول کا جذبہ جنم لیتا رہا تو الحمد للہ اللہ تعالٰی کے احکامات اور خاتم الانبیأ محمد ابن عبداللہ صل اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی حکمتوں کا تجزیہ کرنے کے لئے اکاؤٹینسی کی تعلیم کام آئی جس کی روح، جیسا کہ عرض کیا ہے، کاروباری حساب کتاب کا عقابی نظر سے تجزیہ کرنا ہوتا ہے۔

محترم! حدیث پاک کا مفہوم ہے

The Prophet Mohammed Ibne Abdullah (SAW) said to the effect:

“Convey from Me even a single Ayat.”

This sentence is part of an authentic Hadith (narration) by Al-Bukhari may Allah have mercy upon him and other narrators. It means that the Muslim is required to convey whatever he receives from the Quran and Sunnah (Prophetic Tradition) to the people who are not aware of it.

ترجمہ

خاتم الانبیأ محمد ابن عبداللہ صل اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس کا مفہوم ہے

میری بات دوسرے لوگوں تک پہنچا دو اگر چہ وہ ایک آیت ہو۔

(صحیح بخاری)

علمائے کرام اس حدیث پاک کی شرح بیان فرماتے ہیں کہ مسلمان کی یہ ذمہ داری ہے کو جو اسے قرآن اور سنت سے حاصل ہو وہ لوگوں تک پہنچا دے جو بے خبر تھے۔

محترم !مختصر یہ کہ الحمد للہ! اللہ تعالٰی کے فضل و کرم سے جو علم کا حصول ہوا اسے مندرجہ ذیل ویب سائٹس پر شائع کر دیا گیا ہے

www.cfpislam.co.uk

www.cfpibadaahs.co.uk

www.cfppolitics.co.uk

www.callforpeace.org.uk

www.amankipukar.co.uk

محترم !الحمد للہ !ویب سائٹ یو ٹیوب پر شیخ ذوالفقار احمد نقشبندی کا بیان سنا جس میں انہوں نے ان کلمات اور اعمال کی نشاندہی کی جن کی وجہ سے مسلمان نہ جانتے ہوئے بھی دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے اور اگر شادی شدہ ہے تو نکاح بھی فسخ ہو جاتا۔ علمائے کرام فرماتے ہیں کہ ایسے شخص کو تجدید ایمان کی یا شوہر اور بیوی کو تجدید ایمان اور تجدید نکاح کی ضرورت ہوتی ہے۔ وگرنہ شوہر اور بیوی پر حدیث پاک کا مفہوم لاگو ہو جاتا ہے

آپ صل اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس کا مفہوم ہے کہ ایسا وقت بھی آئے گا کہ شوہر اور بیوی آپس میں زنا کریں گے۔

محترم!اس حدیث کے مفہوم کے ضمن میں ایک بیان نقل کیا جاتا ہے جسے ویب سائٹ یو ٹیوب پر سنا جا سکتا ہے

بیان بنام

Very Beautiful Message for Muslims and Heart touching Islamic Story in Urdu 2018 By Pak Madina

Website: wwwyoutube.com

بسم اللہ الرحمن الرحیم

السّلام علیکم

قرب قیامت میں لوگ بیویوں کے ساتھ زنا کریں گے۔

دوستوایک بہت ہی اہم موضوع ہے۔ ایک بارضرور سنیں۔

معروف مذہبی سکالر شیخ ذوالفقار احمد نقشبندی دامت برکاتہ فرماتے ہیں کہ کہ حضور صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کا مفہوم ہے کہ قرب قیامت میں لوگ اپنی بیویوں کے ساتھ زنا کریں گے۔

فرماتے ہیں کہ ہم نے حدیث پڑھی تو ہمیں سمجھ میں نہ آئی۔ ہم نے اپنے استاد سے پوچھا کہ اس حدیث کاکیا مطلب ہے کہ لوگ اپنی بیویوں کے ساتھ زنا کریں گے؟

انہوں نے فرمایا کہ ہاں،اس کی کئی صورتیں ہیں۔ ایک صورت تو اس کی یہ ہے کہ مرد یا عورت کوئی کفریہ بول بول دے اور نکاح ٹوٹ جائے اور ان کو اس کا پتہ ہی نہیں کہ نکاح ٹوٹ گیا ہے یا نہیں۔ اور آجکل یہ عام بات ہے۔لوگوں کا اس بات کا علم ہی نہیں۔

مولانا فرماتے ہیں کہ ہم ایک فارسی کی کتاب پڑھ رہے تھے۔ مفتی صاحب پڑھا رہے تھے۔تو جب انہوں نے کلمات کفریہ پڑھا تو ہماری آنکھیں کھل گئیں۔

ثنأ اللہ پانی پتی لکھتے ہیں کہ اگر دو بندے گفتگو کر رہے تھے، ایک نے کہا یہ تو شریعت کی بات ہے اور اگلے نے جواب دیا رکھ پرے شریعت کو تو وہ آدمی کافر ہو گیا۔

ہمیں چاہیے کہ کہ ہم علمأ سے پوچھیں کہ کلمات کفریہ کون کون سے ہیں۔ یہ نہ ہو کہ ہم ایسے جملے بول دیں اور کفر کا ارتکاب کر رہے ہوں۔

ایسی باتوں کا علم حاصل کرنا بہت ضروری ہے کہیں ہم اپنی گفتگو میں ایسی بات تونہیں کہہ جاتے کہ اگر نکاح ٹوٹ گیا ہے تو پھر اپنے زعم میں میاں بیوی رہ رہے ہیں اور زنا کا گناہ لکھا جا رہا ہے۔ تو فرمایا کہ قرب قیامت میں اپنی بیویوں سے زنا کریں گے۔

ایک صورت تو یہ ہے یعنی کفریہ کلمات۔ بیوی بولے تب بھی نکاح ٹوٹ گیا، اگر خاوند بولے تب بھی نکاح ٹوٹ گیا۔

دوسری ایک صورت بحث کی ہے۔ یہ ہر گھر کی بات نظر آتی ہے۔ بڑھاپے میں بحث اور زیادہ ہو جاتی ہے۔ اوراس میں کیا ہوتا ہے کہ مرد کی زبان سے کنائے میں طلاق نکل جاتی ہے۔ کنایہ اس کو کہتے ہیں کہ لفظ طلاق نہیں بولا لیکن بات ایسی کر دی کہ مفہوم طلاق والا نکلتاہے۔ اس کو کنایہ کہتے ہیں۔ یہ گناہ بہت زیادہ ہے۔ غصے میں کہہ دیتے ہیں کہ چلی جا مجھے تیری کوئی ضرورت نہیں آج کے بعد۔ اس قسم کے الفاظ جس کا نتیجہ یہ نکلے کہ میری بیوی نہیں، اب اس قسم کے مسائل کی معلومات حاصل کرنی چاہیے۔

شرعیت کہتی ہے کہ علم حاصل کرو۔ ایسا نہ ہو کہ کنایہ میں طلاق ہو جائے اور انہیں پتہ بھی نہ ہو اور وہ ساتھ رہ رہے ہوں۔ آجکل یہ حالات ہیں کہ زبان سے طلاق دیتے ہیں،طلاق ہو بھی جاتی ہے، پتہ بھی ہے دونوں کو، مگربدنامی ہو جائے گی، پھر ایک دوسرے کے ساتھ رہے رہے ہوتے ہیں۔

مولانا فرماتے ہیں کہ ہمیں ایسے لوگ بھی ملے جو پانچ وقت کے نمازی، تہجد پڑھنے والا، سب نیکی کرنے والا، خود اس نے مجھے بتلایا کہ آج سے آٹھ سال پہلے میں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تھی غصے میں آکر اور بعد میں ہم نے سوچا کہ وہ بھی نیک ہے،میں بمی نیک ہوں بدنامی ہو جائے گی، بچے خراب ہو جائیں گے تو پھر ہم نے دوبارہ اکھٹا رہنا شروع کر دیا۔ نہ رشتہ داروں کو پتہ، نہ علمأ سے پوچھا۔ پھر میاں بیوی کی طرح اکھٹے رہے رہے ہیں، ایک گھر میں، ایک کمرے میں زنا کر رہے ہیں۔

قربان جائیں سچے نبی صل اللہ علیہ وسلم کی مبارک زبان پر، 1,400 سال پہلے خبردار کردیا تھا کہ قرب قیامت میں لوگ اپنی بیویوں کے ساتھ زنا کریں گے۔ اللہ پاک ہمیں ایسی باتوں سے محفوظ فرمائے۔ آمین ثم آمین۔

محترم آج کے سائنسی دور میں امت مسلمہ کی اکثریت اللہ کے سیدھے راستے سے گمراہ ہو چکی ہے اور ان پر مندرجہ ذیل حدیث کا مفہوم لاگو آتا ہے

Verily, the parable of the guidance and knowledge with which Allah the Exalted has sent me is that of rain falling upon the earth.

خاتم الانبیأ محمد ابن عبداللہ صل اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں جس کا مفہوم ہے کہ اللہ تبارک و تعالٰی نے اپنے فضل و کرم سے جو مجھے علم دے کر بھیجا ہے وہ اس طرح ہے جیسے بارش زمین پر برستی ہے۔

There is a good piece of land which receives the rainfall and as a result there is abundant growth of plants.

آپ صل اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ زمین کا ایک وہ حصہ ہوتا ہے جو بارش کے پانی کو اپنے اندر جذب کر لیتا ہے جس کی وجہ سے بہت سی پیداوار ہوتی ہے۔

Then there is a land hard and barren which retains the water and people benefit from it and they and their animals drink from it.

آپ صل اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ زمین کا ایک اور حصہ جو سخت ہوتا ہے لیکن اپنے اندر بارش کے پانی کو جذب کر لیتا ہے اور لوگوں کو اس سے فائدہ ہوتا ہے اور لوگ اور جانور پانی پیتے ہیں۔


Then there is another land which is barren and neither is water retained nor does any grass grow.

آپ صل اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ زمین کا ایک اور حصہ ہوتا ہے جو زرخیز نہیں ہوتا۔نہ اس میں پانی جذب ہوتا ہے اور نہ ہی اس میں سے گھاس اگتی ہے۔

The likeness of the first one is he who develops understanding of the religion of Allah and he benefits from that with which Allah sent me.

آپ صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پہلے زمین کے حصہ کی مثال اس انسان کی ہے جو اللہ کے دین کو سمجھتا ہے اور اس علم سے مستفید ہوتا ہے جو علم اللہ نے مجھے دے کر بھیجا ہے۔

The second is one who acquires knowledge of religion and teaches others.

آپ صل اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ زمین کے دوسرے حصہ کی مثال اس انسان کی ہے جو دین کے علم کا حصول کرتا ہے اور دوسروں کو تعلیم دیتا ہے۔

The third is one who does not pay attention to the message and thus he does not accept the guidance with which Allah sent me.

آپ صل اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تیسرے زمین کے حصہ کی مثال اس شخص کی ہے جو اس پر توجہ نہیں دیتا جس پیغام کے ساتھ میں بھیجا گیا ہوں اور اللہ کی ہدایت پو عمل بھی نہیں کرتا۔

Source: Sahih Muslim 2282, Grade: Sahih

محترم! امت مسلمہ کی اکثریت پر زمین کے تیسرے حصے کی مثال لاگو آتی ہے کہ وہ دین اسلام کے حصول کے لئے کوئی دلچسپی نہیں رکھتے اورعلمائے کرام کے مشاہدہ اور تجربہ میں ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت کس قدر دین کے علم سے بے بہرہ ہے۔

محترم !مختصر یہ کہ ہو سکتا ہے کہ امت مسلمہ کی اکثریت کے منہ سے ایسے کلمات نکل گئے ہوں یا ایسے عمل سرزد ہو گئے ہوں کے وہ دائرہ اسلام سے نکل گئے ہوں اور اگر انہوں نے تجدید ایمان اور تجدید نکاح نہ کیا تو ان کا خاتمہ کفر پر ہو سکتا ہے اور ہمیشہ کے لئے جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ علمائے کرام فرماتے ہیں کہ کم از کم خاتمہ ایمان پر ہو جائے اور اگر گناہوں پر توبہ و استغفار کرنے کی توفیق نہیں ملی تو جہنم میں سزا بھگتنے کے بعد جنت میں جانے کا پروانہ مل جائے۔

محترم! آپ سے گزارش ہے کہ مضمون تجدید ایمان اور تجدید نکاح کا غورو خوض سے مطالعہ فرمائیں اور ان کلمات اور اعمال کو بیانات کا حصہ بنائیں جو مسلمان کو دائرہ اسلام سے خارج کر دیتے ہیں۔ الحمد للہ یہ مضمون مندرجہ ذیل ویب سائٹس پر شائع کر دیا گیا ہے۔

www.cfpislam.co.uk

www.amankipukar.co.uk


محترم !مساجد اور مدارس میں نوٹس بورڈ پر مسلمانوں کو اس مضمون کا مطالعہ کرنے کی ترغیب دی جائے تاکہ اللہ کی توفیق سے ہر مسلمان اپنا محاسبہ ایمانداری اور دیانتداری سے کر سکے۔

محترم! تجدید ایمان اور تجدید نکاح کا طریقہ نہایت آسان ہے۔ تجدید ایمان اور تجدید نکاح کا طریقہ مفتی اکمل دامت برکاتہ نے اے آر وائی کے پروگرام احکام شریعت میں ایک سوال کے جواب میں بتلایا ہے۔ یہ طریقہ مضمون میں نقل کر دیا گیا ہے۔

محترم !الحمد للہ !آپ باخبر ہیں کہ علمائے کرام انبیائے کرام کے وارث ہوتے ہیں۔ اس لئے آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ مضمون تجدید ایمان اور تجدید نکاح کو زبانی اور تحریری طور پر رواج دیں۔ ایسا نہ ہو کہ روز محشر میں آپ کی پکڑ ہو جائے۔

محترم! بلاشہ سردست منصوبہ امن کی پکار غیر معروف ہے۔ لیکن آپ سے گزارش ہے کہ کہ آپ مضمون کی روح کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ آیا مضمون قرآن اور حدیث پر مبنی ہے اور کیا امت مسلمہ کی اکثریت، اس سائنسی دور میں، دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہو چکی ہوگی؟

محترم الحمد للہ! نام امن کی پکار دنیا کے کونے کونے میں پہنچ چکا ہے اور امن کی پکار کا مقصد بین الاقوامی سطح پر دین اسلام کی اشاعت کرنا ہے۔ بلاشبہ نام دین اسلام سے غیر مسلم آگاہ ہیں اور قرآن اور حدیث کا علم گوگل اور دیگر نیٹ ورک پر شائع ہو چکا ہے۔ لیکن یہ علم بنی نوع انسان کے دلوں کے تاروں کو نہیں جھنجوڑتا جن دلوں نے اللہ تعالٰی کی ربوبیت کا اقرار کیا تھا

ترجمہ سورۃ الاعراف آیت نمبر172

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اور جب نکالا تیرے رب نے بنی آدم کی پیٹھوں سے ان کی اولاد کو اور اقرار کرایا ان سے ان کی جانوں پر ج

کیا میں نہیں ہوں تمہارا رب ج

ہم اقرار کرتے ہیں ج

    کبھی کہنے لگو قیامت کے دن ہم کو تو اس کی خبر نہ تھی۔

محترم !دارالعلوم میں مضمون تجدید ایمان اور تجدید نکاح کو طلبأ کے نصاب میں شامل کر دیں۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اگر نہ جانتے ہوئے مسلمان دائرہ اسلام سے خارج ہو جائے تو اس کے تمام اعمال صالحہ بے معنی ہو جائیں گے۔

محترم!مفتی اکمل دامت برکاتہ نے تجدید ایمان اور تجدید نکاح کے جواب میں یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ ہر مسلمان اور شوہر اور بیوی تین ماہ یا چھ ماہ بعد احتیاطاً تجدید ایمان اور تجدید نکاح کر لیا کریں۔ ذیل میں اقتباس نقل کیا جاتا ہے


کبھی کبھار یا روزانہ تجدید ایمان کرلیا کریں اور کبھی تین مہینے یا چھ مہینے میں تجدید نکاح ہو جائے۔ اسی طرح گھر میں رہتے ہوئے بہتر ہوتا ہے۔نادانستہ طور پو زبان سے کچھ کلمات ایسے نکل سکتے ہیں جن سے ایمان میں خلل پیدا ہو جائے۔ آپ صل اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بعض اوقات انسان اپنی زبان سے ایسے کلمات نکالتا ہے جس کی قباحت کااس کو احساس نہیں ہوتا۔ لیکن یہی کلمہ اس کے لئے جہنم میں جانے کا سببب بن جاتے ہیں۔ تو اس لئے کوشش کرنی چاہیے کہ یہ اپنی عادت میں شامل کرلیں، بہتر ہے۔

محترم! قرآن اور حدیث کی روشنی میں آپ کی ذمہ داری جنم لے چکی ہے کہ آپ مذکورہ ویب سائٹس پر مندرجہ ذیل مضمون اور خطوط کا مطالعہ فرمائیں اورامت مسلمہ کو پیغام پہنچائیں

            مضمون: تجدید ایمان اور تجدید نکاح

            خط بنام صدر پاکستان عارف علوی

            خط بنام پاکستان ہائی کمشنر

            علمأ کو پیغام

            خط بنام مفتی اکمل

            خط بنام امت مسلمہ

دعاؤں میں یاد رکھیں

والسّلام

نصیر عزیز

پرنسپل امن کی پکار

PS

محترم آپ سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ مندرجہ ذیل ای میل پر اپنے تاثرات سے آگاہ فرمائیں۔

Email ID: xxxxxxxxxx@gmail.com

Leave a Comment